شام کے چپڑ جھن جھن اور سپڑ سن سن کی ویران قبریں


 رین ہارڈ ہایڈریچ ( Reinhard Heydrich) دوسری جنگ عظیم میں نازی فوج کے اعلی افسر تھے۔ رین ہارڈ کو ہولوکاسٹ کے معماروں میں سے سمجھا جاتا ہے۔ یہ رین ہارڈ ہی تھا جس کے بارے میں ہٹلر نے کہا تھا، ’ اس کے کلیجے میں لوہے کا دل ہے‘۔ 27 مئی 1942 کو رین ہارڈ پرموجود ہ چیک رپبلک میں پراگ کے ایک گاﺅں Lidice کے قریب چیکوسلواکیہ کے جلاوطن حکومت کی ایما پر چیکوسلواکین فوجیوں نے حملہ کیا۔ اس حملے میں رین ہارڈ شیدید زخمی ہوا اور ایک ہفتے بعد رخموں کی تاب نہ لاتے ہو مر گیا۔ نازی خفیہ اداروں نے حکام بالا کو رپورٹ دی کہ رین ہارڈ پر Lidice کے باشندوں نے حملہ کیا تھا۔ 10 جون 1942کو ہٹلر کے حکم پر نازی فوج نے Lidice کے پورے گاﺅں کو آگ لگا دی۔ نازی فوج نے Lidice میں 192 مردوں، 60خواتین اور 88 بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

جارج آرویل نے دنیا کے جنگی جنون پر طنز کرتے ہوئے لکھا تھا، ’ یہاں جنگ امن ہے۔ آزادی غلامی ہے۔ جہالت طاقت ہے‘۔ زندہ قومیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں۔ چیک ریپبلک نے 1990 میں Lidice گاﺅں میں مارے جانے والے معصوم بچوں کی یاد میں ایک یادگار Memorial to the Children Victims of the War, Lidice کے نام سے تعمیر کیا تھا۔ یہ کانسی سے بنے ان 88 بچوں کے مجسمے تھے جنہیں نازی فوج نے مارا تھا۔ چیک مجسمہ ساز Marie Uchytilova کے بنائے ان مجسموں کے چہرے پر کرب اور آنسو اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ Lidice کے باشندوں نے اپنے بچوں کے کرب کا مداوا کرنے کے لئے مجسموں کے آس پاس کے میدان میں ہزاروں گلاب کی ٹہنیاں اگا دیں۔ اب بھی ہر سال ہزاروں چیک باشندے Lidice میں بچوں کی یادگار پر بہت سارے پھول اور کھلونے نچھاور کرتے ہیں۔

عرصہ بعد سعادت حسن منٹو نے ’ ٹیٹوال کا کتا‘ میں ایک جنگ کی داستان لکھی تھی۔ ٹیٹوال کے مقام پر پاکستانی اور بھارتی فوج وقفے وقفے سے ایک دوسرے پر بلا اشتعال فائرنگ کرتے ہیں۔ ایک رات جب فائرنگ رک جاتی ہے تو بھارتی مورچوں کے پاس ایک آوارہ کتا آتا ہے۔ جمعدار کتے کو دیکھ کر کہتا ہے، ’ ادھر آ چپڑ جھن جھن‘۔ مورچوں پر اکتائے ہوئے سپاہی تھوڑی دیر کتے سے دل بہلاتے ہیں۔ سپاہی ہرنام سنگھ کتے کے آگے بسکٹ پھینکتے ہیں تو جمعدار ہرنام سنگھ کہتا ہے، ’ ٹہر کہیں پاکستانی تو نہیں‘۔ سردار بنتا سنگھ کہتا ہے نہیں جمعدار صاحب چپڑ جھن جھن ہندوستانی ہے۔

 شام دوسری جانب پاکستانی مورچے کی جانب کتا واپس آتا ہے۔ صوبیدار ہمت خان کتے کو دیکھ کر کہتا ہے، ’ اوئے کہاں رہا تو رات بھر‘۔ سپاہی بشیر دیکھتا ہے کہ کتے کے گلے میں ایک رسی بندھی ہے اور اس میں گتے کا ایک ٹکڑا ہے۔ ایک سپاہی گتے کا ٹکڑا لا کر صوبیدار ہمت خان کو دیتا ہے۔ ہمت خان اپنے جوانوں سے کہتا ہے، ’ لنڈے ہیں۔ جانتا ہے تم میں سے کوئی پڑھنا‘۔ سپاہی بشیر بڑی مشکل سے حرف جوڑ جوڑ کر پڑھتا ہے، ’ چپ۔ چپڑ۔ جھن جھن۔ چپڑ جھن جھن۔ یہ کیا ہوا؟‘۔ بڑی بحث و تمحیص ، شک و شبہات اور حکام بالا کو مطلع کرنے کے بعد جب یہ بات طےہو جاتی ہے کہ لکھی ہوئی عبارت کوئی خفیہ کوڈ نہیں ہے تو صوبیدار ہمت خان سپاہی بشیر کو سیگریٹ کی ڈبیا کا ڈھکنا کھول کر دیتا ہے اور بشیر کو کہتا ہے ، ’بشیرے، لکھ اس پر گورمکھی میں۔ ان کیڑے مکوڑوں میں۔ ‘ بہت سوچنے کے بعد بشیر اس پر لکھتا ہے’ سپڑ سن سن‘۔ صوبیدار ہمت خان بشیر کو کہتا ہے اور آگے لکھ، ’ یہ پاکستانی کتا ہے‘۔ اس کے بعد صوبیدار ہمت خان کتے کے گلے میں رسی باندھتا ہے اور اس کا رخ پہاڑ کی اکلوتی پگڈنڈی کی طرف پھیر کر کہتا ہے، ’ لے جا یہ اپنی اولاد کے پاس! جاؤ۔ ہمارا خط دشمنوں تک پہنچا دو۔ مگر دیکھو واپس آ جانا۔ یہ تمہارے افسر کا حکم ہے سمجھے۔ دیکھو دوست غداری مت کرنا۔ یاد رکھو غدار کی سزا موت ہوتی ہے‘۔

دوسری جانب جمعدار ہرنام سنگھ ایک سپاہی سے پوچھتا ہے کہ وہ کتا کہاں گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک پہرہ دار سپاہی چلاتا ہے کہ وہ آرہا ہے۔ ہرنام سنگھ نے دوربین سپاہی کے ہاتھ سے لی اور دیکھنا شروع کیا۔ ’ادھر ہی آرہا ہے۔ رسی بندھی ہوئی ہے گلے میں۔ لیکن۔ یہ تو ادھرسے آ رہا ہے دشمن کے مورچے سے۔ ‘ یہ کہہ کر اس نے کتے کی ماں کو بہت بڑی گالی دی۔ بندوق اٹھائی اور شِست باندھ کر فائر کیا۔ نشانہ چوک گیا۔ کتا سہم کر رک گیا۔ دوسرے مورچے میں صوبیدار ہمت خاں نے دور بین میں سے دیکھا کہ کتا پگڈنڈی پر کھڑا ہے۔ ایک اور فائر ہوا تووہ دم دبا کر الٹی طرف بھاگا۔ صوبیدار ہمت خان کے مورچے کی طرف۔ وہ زور سے پکارا۔ ’بہادر ڈرا نہیں کرتے۔ چل واپس‘۔ اس نے ڈرانے کے لیے ایک فائر کیا۔ کتا رک گیا۔ ادھر سے جمعدار ہرنام سنگھ نے بندوق چلائی۔ گولی کتے کے کان سے سنسناتی ہوئی گزر گئی۔ دونوں طرف سے فائر ہوتے رہے۔ کتا بوکھلا کر کبھی ادھر دوڑتا کبھی ادھر۔ اس بوکھلاہٹ پر ہمت خاں اور ہرنام دونوں خوب قہقہے لگاتے رہے۔ بالاآخرکتے نے جمعدار ہرنام سنگھ کے مورچے کی طرف بھاگنا شروع کیا۔ اس نے یہ دیکھا تو بڑے تاؤ میں آکر موٹی سی گالی دی اور اچھی طرح شِست باندھ کر فائر کیا۔ گولی کتے کی ٹانگ میں لگی۔ ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی۔ اس نے اپنا رخ بدلا۔ لنگڑا لنگڑا کر صوبیدار ہمت خان کے مورچے کی طرف دوڑنے لگا تو ادھر سے بھی فائر ہوا، مگر وہ صرف ڈرانے کے لیے کیا گیا تھا۔ ہمت خان فائر کرتے ہی چلایا۔ ’بہادر پروا نہیں کیا کرتے زخموں کی۔ کھیل جاؤ اپنی جان پر۔ جاؤ۔ جاؤ!‘۔ کتا فائر سے گھبرا کر مڑا۔ ایک ٹانگ اس کی بالکل بیکار ہو گئی تھی۔ باقی تین ٹانگوں کی مدد سے اس نے خود کو چند قدم دوسری جانب گھسیٹا کہ جمعدار ہرنام سنگھ نے نشانہ تاک کر گولی چلائی جس نے اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔ صوبیدار ہمت خان نے افسوس کے ساتھ کہا۔ ”چچ چچ۔ شہید ہو گیا بے چارہ!“۔ جمعدار ہرنام سنگھ نے بندوق کی گرم گرم نالی اپنے ہاتھ میں لی اور کہا۔ ”وہی موت مرا جو کتے کی ہوتی ہے !“

ایک جنگ شام میں بھی جاری ہے۔ 15 مارچ 2011 کو درعا میں ایک حکومت مخالف ریلی سے جس جنگ کا آغاز ہوا تھا وہ لاکھوں انسانوں کے خون اور لاکھوں انسانوں کی جلاوطنی کے بعد آج بھی جاری ہے۔ اس جنگ میں امریکا، روس، سعودی عرب، ترکی، ایران کی بالواسطہ اور بلاواسطہ مداخلت کے ساتھ اقتدار پر قابض آمر بشار الاسد کی سرکاری فوج، النصرہ محاذ، داعش، وائی پی جی اور بہت سارے نامعلوم مسلح گروہ شامل ہیں۔ اقتدار پر بشار الاسد کی آمریت 2000 سے قائم ہے۔ بشار کی فوجوں نے اس جنگ میں اپنے شہریوں کا بے حساب قتل کیا حتی کہ اسد کی حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا بھی الزام ہے۔ امریکہ اور روس شام کی سرزمین پر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ ایران اور سعودی فرقہ وارانہ بنیادوں پر شام میں پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ شامی سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے مطابق اس پانچ سالہ جنگ کی قیمت 255 ارب ڈالر ہے۔ لاکھوں لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ یونیسف کے مطابق 2010 کے مقابلے میں دس لاکھ بچے اسکولوں میں موجود نہیں ہیں۔ جو موجود ہیں ان میں سے 40 فیصد سکول نہیں جا رہے۔ 25 فیصد سکول مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ 50 فیصد سے زیادہ ہسپتال اور ہیلتھ سینٹر یا تو مکمل تباہ ہو چکے ہیں یا جزوی طور پر محدود کام کر رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق دمشق کے مضافاتی علاقوں میں شہریوں کے بھوک سے مرنے کی متعدد اطلاعات ہیں۔

اس جنگ میں شام تباہ ہوا۔ عالمی کھلاڑی اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمسایہ کھلاڑی فرقہ وارانہ پراکسی جنگ میں ملوث ہیں۔ بشار لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کرنے کے بعد بھی حکومت اور ظلم چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے۔ شام سے میڈیا کی اطلاعات محدود ہیں۔ یقین کے ساتھ کوئی تعین نہیں کیا جا سکتا کہ کون کیا کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں شام کی خانہ جنگی پر بھی متوازی دھارے میں رائے اپنائی جا رہی ہے۔ اس متوازی دھارے کے ڈانڈے بہت حد تک فرقہ وارانہ بھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بشار کے بدترین ظلم ، جرائم اور آمریت کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی مگر سوال اس پر بھی موجود ہیں کہ امریکا سمیت سعودی عرب، ترکی اور داعش کیسے ایک ساتھ ہیں۔ سوال اس پر بھی موجود ہیں کہ روس اور ایران کس مفاد کی خاطر اسد کے ساتھ ہیں۔

شام میں نفرتوں کا کھیل جاری ہے۔ فرقہ وارانہ عصبیت کی اس آگ میں جب انسانوں کی ہڈیاں جل کر خاکستر ہو جائیں گی تو عصبیتی گروہ اس راکھ میں سے کوئلے اٹھا کر مسخ شدہ تاریخ لکھیں گے۔ اس تاریخ میں جبر کے شکار مظلوم انسانوں کے قتل عام کو قربانی قرار دے کر ہر گروہ داد شجاعت سمیٹے گا۔ اس بیچ خان شیخون کے عبدالحامد کے دو جڑواں بچے زہریلی گیس کا شکار ہو جائیں گے۔ عبدالحامد حواس کھو کر دونوں معصوموں کی لاشیں تھامے ایک ویران قبرستان میں بیٹھا ہو گا۔ مشکل یہ ہے کہ ان بے نام قبروں پر Lidice کے باشندوں کی طرح کوئی پھول اور کھلونے رکھنے نہیں آئے گا۔ درد یہ ہے کہ شام میں کوئی Marie Uchytilova نہیں بستی جو ان بچوں کا کرب کانسی کے کسی مجسمے میں مقید کر سکے۔ تکلیف یہ ہے کہ ایلان کردی اور عبدالحامد کے بچے انسان کے بچے ہیں مگر جمعدار ہرنام سنگھ انسان کے بچوں کو سپڑ سن سن سمجھ کر گولیاں برسا رہا ہے اور صوبیدار ہمت خان انہیں کو چپڑ چھن چھن سمجھ کر گولیاں برسا رہا ہے۔ ٹیٹوال کے کتے میں ہندوستانی سپاہی بنتا سنگھ درد بھری آواز میں کہتا ہے، ’ دکھاں والیاں نوں گلاں سکھدیاں نئی، قصے جوڑ جہان سناؤندا ای‘۔

7 اپریل، 2017

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah