ذاتی مشاہدات کی روشنی میں فریضہ حج کے حوالے سے کچھ تاثرات اور تجاویز


Loading

سال 2012 میں مجھے فرائض حج کی سرگرمیوں کو عملی طور پر دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس تناظر میں میرے لئے مقدس مقامات کی زیارات کے ساتھ ساتھ یہ سفر ایک یادگار مطالعاتی دورہ بھی ثابت ہوا۔ خاص طور پر دو حوالوں سے تو یہ سفر کافی یادگار رہا۔ ایک تو یہ کہ اس سال فرائض حج کی ادائیگی کے دوران کوئی نا خوشگوار سانحہ پیش نہیں آیا تھا، دوسرا یہ کہ عربی، انگریزی اور فارسی زبانوں سے واقفیت کی بنا پر مجھے مختلف ممالک کے مسلمانوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا جس سے بطور ایک طالبعلم نہ صرف فریضہ حج کے بارے میں ان کے تاثرات اور جذبات سے آگاہی حاصل ہوئی بلکہ ان کی ثقافت، سیاست اور معاشرت کے بارے میں بھی بیش قیمت معلومات ملیں۔

حج کے دوران بزرگ، لاچار، معذور اور مناسک حج کے لوازمات سے بے بہرہ حاجیوں کی حالت زار دیکھ کر مجھے بہت دکھ بھی ہوا اور یہ خوشی بھی ہوئی کہ کم از کم پاکستان حج مشن کے عملے کے افراد اس وقت کے پاکستان بیت المال کے چیئرمین زمرد خان کی زیر قیادت نہ صرف پاکستانی بلکہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے حاجیوں کی بھی دلجمعی سے خدمت کر رہے تھے جس سے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان حاجیوں میں پاکستان کا مثبت تاثر قائم ہوا اور انھوں نے پاکستان حج مشن کے اہلکاروں کے جذبہ خدمت کی بہت تعریف بھی کی۔

حج مشن کے لوگ جن کے فیلڈ سٹاف کی اکثریت پاکستان بیت المال سے تعلق رکھتی تھی اور چونکہ انھیں سماجی بہبود کے کاموں کا وسیع تجربہ بھی تھا اور زمرد خان کی صورت میں ایک بہترین منتظم بھی ان کے ساتھ تھا، ان تمام لوگوں نے حجاج کرام کی عمومی راہنمائی کے ساتھ ساتھ اور ان کو سخت گرمی میں پانی پلانے سے لے کر بزرگ اور معذور حجاج کو وہیل چیئر پر طواف اور صفا و مروہ کے چکر لگوانے، بیمار حاجیوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے اور قافلے سے بچھڑ جانے والے عازمین حج کو ان کی منزل مقصود تک پہنچانے تک دوران حج مثالی خدمات پیش کیں۔

پاکستان بیت المال کی طرف سے ایک ہزار سے زائد وہیل چیئرز حجاج کرام کی سہولت کے لئے فی سبیل اللہ مہیا کی گئی تھیں تاکہ معذور، بوڑھے اور بیمار حجاج کرام کو چلنے، طواف کرنے اور سعی کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ زمرد خان صاحب اس حوالے سے اپنا ویژن اپنی ٹیم کے سامنے بار بار دہراتے تھے کہ ”اگر عبادت سے جنت ملتی ہے تو خدمت سے خدا ملتا ہے۔“ زمرد خان صاحب کی طرف سے شروع کیے گئے یتیم بچوں کی بحالی کے پراجیکٹ پاکستان سویٹ ہومز جہاں سینکڑوں یتیم بچوں کی احسن طریقے سے دیکھ بھال کا فریضہ انجام دیا جا رہا ہے، ان بچوں کے لئے ان کی دن رات انتھک محنت اور لگن بھی ان کے جذبہ خدمت کی ایک مثال ہے۔

میری تجویز ہے کہ حکومت کو حج مشن کے لئے زمرد خان جیسے سماجی خدمات کا تجربہ رکھنے والے اور پاکستان بیت المال کے تربیت یافتہ اہلکاروں کے تجربے سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ حج کے دوران چونکہ بہت زیادہ رش ہوتا ہے تو اکثر حجاج کرام اپنے اہل خانہ اور ساتھیوں سے بچھڑ جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ زمرد خان صاحب اور میں نے انتہائی پریشان انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک حاجی کو جو کہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا تھا اور اس کے پاس اپنی عمارت کا کوئی ایڈریس بھی موجود نہ تھا کس قدر مشکل سے اسے اپنی منزل مقصود تک پہنچایا تھا۔

اسی طرح دیگر ساتھیوں نے منی اور مزدلفہ عرفات میں اپنے قافلے سے بچھڑ جانے والے پاکستانی اور دیگر ممالک کے ہزاروں حجاج کرام کی راہنمائی کی۔ ان اللہ کے مہمان حجاج کرام کی خدمت اور راہنمائی کا فریضہ انجام دینا سعادت کی بات ہے۔ جب مجھے بہت قریب سے حج کے سارے انتظامات اور اس کے لوازمات کو دیکھنے کا موقع میسر آ چکا ہے تو میں اپنے تجربات، مشاہدات اور تجاویز قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ میں سے اگر کسی نے حج نہیں کیا تو آپ کے دل میں حج کی سعادت حاصل کرنے کی خواہش ضرور مچلتی ہو گی یا کم از کم آپ کی فیملی میں سے ہر سال کئی ایک کو تو ضرور اس پاک گھر والے کی طرف سے بلاوا آتا ہو گا کیونکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ حجاج کرام اور عمرہ زائرین پاکستان سے ہی جاتے ہیں جس سے ہماری مذہبی وابستگی اور وارفتگی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

اگر کسی کے پاس سامان سفر نہیں تو کم از کم ہر پاکستانی کے دل میں یہ تمنا ضرور ہوتی ہے کہ اسے زندگی میں ایک بار خانہ کعبہ اور روضہ رسول کی زیارت نصیب ہو۔ تجربات اور مشاہدات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حاجیوں کی اکثریت عمر رسیدہ افراد پر مشتمل ہوتی ہے اور لاکھوں حاجیوں کی موجودگی میں ان بزرگ حاجیوں کا مناسک حج سے عہدہ برا ہونا نہایت مشکل اور صبر آزما کام ہے جس کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، میں تو اسے اللہ تعالیِ کی رحمت سے ہی تعبیر کروں گا کہ لاکھوں کا یہ اجتماع ہر سال حج کا فریضہ انجام دینے سے عہدہ برا ہوتا ہے۔

اور یقیناً اگر اس میں اللہ کی رحمت شامل نہ ہو تو لاکھوں لوگوں کے ساتھ سخت موسمی حالات میں حج کرنا ایک آسان عمل نہیں۔ میری دعا ہے کہ ہر مسلمان کو جوانی میں حج کرنا نصیب ہوتا کہ وہ مناسک حج اور اس کی برکتوں سے پوری طرح فیض یاب ہو سکے۔ ان حجاج کرام کی سفر حج پر روانگی سے قبل ضروری اور جامع تربیت جس میں ڈسپلن کا عنصر بھی شامل ہو بہت ضروری ہے جس کی مجھے بہت کمی محسوس ہوئی۔ ان تمام باتوں سے بڑھ کر اگر حجاج کرام کی کچھ درجہ بندی کر دی جائے تو حج کا انتظام بہت احسن طریقے سے ہو سکتا ہے جس میں مجموعی طور پر پورے مشن کے لئے آئندہ سالوں تک آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ حج ایک نہ رکنے والا عمل ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایسی جامع پالیسیاں وضع کی جائیں کہ جس سے اس سلسلہ میں پیش آمدہ مسائل کا مستقل طور پر قلعہ قمع کیا جا سکے۔

میری ناقص رائے میں یورپی اقوام اسی لئے ہم سے زندگی کی دوڑ میں ہر قدم آگے ہیں کہ وہ کسی خاص مسئلے پر آئندہ کئی دہائیوں تک کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اسی لئے ان کا نظام ہم سے بہت آگے اور کامیاب بھی ہے۔ مثال کے طور پر ٹرانسپورٹیشن کے لئے انگریز کا دیا ہوا ریلوے کا پرانا نظام آج بھی ایک کامیاب اور سہل ٹرانسپورٹ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ویٹیکن سٹی میں عیسائیوں کے سالانہ اجتماعات جس میں لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں کبھی بھگدڑ کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔

لیکن یہ بھی ہے کہ حج کا اجتماع صرف ایک خاص جگہ پر نہیں رکتا بلکہ پہلے لاکھوں عازمین حج کے قافلے مکہ سے منی کے میدان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ پھر میدان عرفات کی طرف سفر کرتے ہیں۔ پھر مزدلفہ اور پھر شیطان کو کنکریاں مارنے کے لئے دوبارہ منی کی طرف رخ کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد آخر میں عازمین حج طواف الوداع کے لئے خانہ کعبہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی ایکسرسائز ہے جبکہ مکہ میں شدید گرمی پڑ رہی ہوتی ہے۔

اب میں اصل موضوع کی طرف واپس آتا ہوں کہ حاجیوں کی درجہ بندی کس طرح کی جائے۔ اس سلسلے میں میری ناقص رائے میں اگر حجاج کرام کو ایک ہی خاندان، معذور حجاج، نوجوان حجاج، بوڑھے عازمین، بیماری کے شکار عازمین حج کی درجہ بندی میں ان کی حج پر روانگی سے قبل ہی تقسیم کر لیا جائے تو یہاں پیش آمدہ بہت سی قباحتوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ایک بات واضح رہے کہ صرف قریبی یا خونی رشتے دار ہی بیمار اور ضعیف حاجی کی نگرانی دل و جان سے کرتے ہیں جبکہ محرم حضرات یا دیگر ذمہ داران اس سلسلے میں تساہل برتتے ہیں جس سے حاجی بیچارا دل میں کڑھتا رہتا ہے لیکن کچھ کر نہیں سکتا۔

سو اسی درجہ بندی کے اعتبار سے حاجیوں کو عمارتوں کی الاٹمنٹ کی جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ مثال کے طور پر معذور اور عمر رسیدہ حاجیوں کو حرم کے قریب عمارتوں میں رہائش کے لئے ترجیح دینی چاہیے۔ اسی طرح مستقل طور پر کسی بیماری کے شکار حاجیوں کو میڈیکل مشن کے قریب عمارتوں میں ٹھہرانے کا بندوبست ہونا چاہیے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں انھیں ہسپتال لے جانے میں تاخیر نہ ہو۔ مزید برآں بیمار جیسے دل کے مریض اور کسی دیگر موذی مرض کے شکار حاجیوں کی عمارت میں مستقل طور پر ایک آدھ ڈاکٹر اور میڈیکل سٹاف کی تعیناتی بھی ہو جائے تو بہتر ہو گا۔

اسی طرح معذور حجاج کرام بھی اگر ایک ہی بلڈنگ میں ہوں گے تو ان کی دیکھ بھال بھی باآسانی ہو سکے گی اور ان کے لئے ان کی معذوری کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی مناسب اور سہولیات سے آراستہ عمارتوں کا انتخاب بھی کیا جانا چاہیے۔ حجاج کرام کی مندرجہ بالا درجہ بندیوں میں صرف ایک ہی فیملی سے تعلق رکھنے والے اور نوجوان حجاج ایسے ہیں جو خود کو سنبھال سکتے ہیں جبکہ دیگر کیٹیگری میں آنے والے حجاج کرام جن کی عددی اکثریت ہمیشہ زیادہ رہی ہے انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مشن میں ایسے حجاج کرام کی خدمت اور راہنمائی ہی ہمارا ترجیحی مقصد ہے۔

لیکن چونکہ ایسی کوئی درجہ بندی باقاعدہ نہیں ہے تو ہمیں بسا اوقات شدید مشکلات سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ خاص طور پر اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جانے والے حاجیوں کو ان کی متعلقہ عمارتوں پر پہنچانے میں نہ صرف مشکل پیش آتی ہے بلکہ بہت سا قیمتی وقت بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ جس میں بصورت دیگر بہت سے حاجیوں کی کئی معاملات میں مدد کی جا سکتی ہے۔ اگر حجاج کرام کی مندرجہ بالا طریقے پر درجہ بندی ہو گی تو ان کی مخصوص رہائشی بلڈنگ تک رسائی نہایت آسان ہو جائے گی۔

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس سارے عمل کو انجام دینے میں حکومت پر کوئی اضافی مالی بوجھ نہیں پڑے گا۔ بہت سادہ سی بات ہے اس درجہ بندی کے اعتبار سے حاجیوں کے لئے حج فارم تیار کیے جائیں اور انھیں درخواست گزاروں سے پر کرایا جائے اور مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ پہنچنے پر ہر درجہ بندی والے حاجی کو ان کی مخصوص عمارتوں میں ٹھہرا دیا جائے اور ان کی ضرورت کے اعتبار سے پہلے سے تربیت یافتہ عملے کو ان کی راہنمائی کے لیے متعین کر دیا جائے۔ اس عمل سے حج مشن مستقل طور پر باقاعدہ ایک سسٹم میں داخل ہو جائے گا اور حاجیوں کو بھی ہر سال پیش آنے والے مصائب سے نجات ملنے میں مدد ملے گی۔

حج کا سب سے مشکل ترین مرحلہ تب شروع ہوتا ہے جب حجاج رہائشی عمارتوں سے نکل کر خیموں میں آباد ہوتے ہیں۔ اس سے میری مراد عازمین حج کا منی، مزدلفہ اور عرفات میں چند روزہ قیام ہے جو کہ حج کے واجبات میں سے ہے۔ حج کا سب سے مشکل اور نازک ترین مرحلہ رمی یعنی شیطان کو کنکریاں مارنا ہے۔ جہاں بیک وقت لاکھوں لوگوں کا اژدہام ہو جاتا ہے۔ اگرچہ سعودی حکومت کے وسیع انتظامات کے باعث اب صورتحال قدرے بہتر ہے لیکن عمر رسیدہ اور اوپر سے مختلف ملکوں سے تعلق کی بنا پر مختلف زبانیں بولنے والے حجاج کو اس وقت شدید پریشانی ہوتی ہے جب وہ رش میں نہ صرف اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جاتے ہیں بلکہ ایک ہی رنگ کے خیموں کے میلوں پھیلے ہوئے شہر میں حسرت سے اپنے خیموں کو تلاش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

یہاں سے معاونین حجاج کا اصل کام شروع ہوتا ہے کہ وہ حاجیوں کی راہنمائی کا کام جوش جذبے اور ولولے سے سرانجام دیں۔ کیونکہ ہر حاجی احرام باندھے ہو تا ہے اس لئے بسا اوقات اپنے لوگوں اور اپنے اپنے ملک کے خیموں تک پہنچنا جوئے شیر لانے مترادف ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں حج پر روانگی سے قبل حجاج کرام کی خصوصی اور عملی تربیت ہونی چاہیے تاکہ وہ اس مرحلے سے بخوبی گزر سکیں۔ اس سلسلے میں منی، مزدلفہ اور عرفات میں معاونین حجاج کی مناسب فاصلوں پر چوکیاں بنائی جانی چاہئیں۔

اور ان کے ہاتھ میں ان ممالک کے جھنڈے ہونے چاہئیں جن سے وہ تعلق رکھتے ہوں تاکہ ان کے اہل وطن اور اہل زبان ضرورت کے وقت انھیں پہچان کر ان کی مدد کر سکیں۔ یہاں میں ایک بات اور کہتا چلوں کہ بہت سے حجاج کرام اپنی جمع پونجی لگا کر اپنے دیرینہ شوق جس کے پورا ہونے کی ہر مسلمان کو تمنا ہوتی ہے کی تکمیل کے لئے حج پر آئے ہوتے ہیں۔ اور یہاں پہنچ کر ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ یہاں پر اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ نیز چھوٹی چھوٹی چیزوں جیسے صابن، تولیہ، چٹائی اور لوٹا وغیرہ جیسی عام استعمال کی چیزوں کی عدم دستیابی تک کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر مخیر حضرات اس سلسلے میں کچھ کر سکیں تو یہ انتہائی ثواب کا کام ہو گا بصورت دیگر حج حکام کو ایسی چیزوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔

حاجیوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جنھیں بیرون ملک تو کجا اپنے اردگرد کے گاؤں اور شہر کے حدود اربعہ کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔ جہاز کا سفر بھی اکثریت کا پہلا تجربہ ہوتا ہے۔ ایسے میں ان حاجیوں کو سنبھالنا اور ان کی خدمت کو احسن طریقے سے انجام دینا اتنا آسان کام نہیں ہوتا۔ آخر میں یہ کہتا چلوں کہ یہ ایک صبر آزما اور کٹھن مرحلہ ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی خصوصی کرم نوازی کی بدولت ہی انجام پاتا ہے۔ ورنہ سچ پوچھیں تو اس میں نہ حاجیوں کا کمال ہوتا ہے نہ حج مشن کا اور نہ ہی معاونین کا۔

سعودی حکومت کو حج مشن کے انتظامات کرنے کے لئے دیگر مسلم ممالک سے مل کر جامع پالیسی تشکیل دینی چاہیے کیونکہ مکہ اور مدینہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے مقدس مقامات ہیں۔ سعودی حکومت کو گنجائش سے زیادہ حاجیوں کا کوٹہ نہیں دینا چاہیے جیسا کہ پچھلے کچھ سالوں سے کیا جا رہا ہے۔ اور حج کے دنوں میں بارڈر مینجمنٹ بھی بہتر کرنی چاہیے کیونکہ سعودی عرب سے ملحق ممالک سے لاکھوں لوگ بغیر اجازت ناموں سے حج کرنے کے لئے آ جاتے ہیں۔

اسی طرح سعودی عرب میں مقیم خارجی بھی بوجوہ پابندیوں کے چور راستوں اور مقامی پولیس اور ایجنٹوں کو رشوت دے کر حج کے دنوں میں لاکھوں کی تعداد میں مکہ اور مدینہ پہنچ جاتے ہیں جس سے بے پناہ رش ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام ممالک کو چاہیے کہ جس شہری نے پہلے حج کیا ہوا ہو اس پر دس سال تک حج کرنے کی پابندی عائد ہونی چاہیے۔ سعودی حکومت کو اپنے سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی مزید تربیت دینے کی ضرورت ہے جن کا منفی رویہ بسا اوقات حاجیوں کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے اور ہجوم بے قابو ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ تمام حجاج کرام، ان کے لواحقین اور تمام معاونین حج کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور اللہ کے مہمان حجاج کرام فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد بخیریت اپنے اپنے پیاروں کے پاس پہنچیں۔ میری طرف سے تمام مسلمانوں کو حج اور عید الاضحی کی سعادتیں مبارک ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).