پاکستانی ڈراموں کی ہیروئن کو آخر ہوا کیا ہے؟


میں ایک عرصے سے پاکستانی فلموں اور ڈراموں پہ نگاہ رکھے ہوئے ہوں۔ میرے ان ڈراموں پر کئے جانے والے تبصروں میں تنقید بھی شامل ہے اور پزیرائی بھی۔ میں ہرگز ان لوگوں میں سے نہیں جو محض تنقید برائے تنقید کی وجہ سے پاکستانی مواد پہ جملے کستے ہیں۔ اور نہ ہی میں یہ سمجھتی ہوں کہ پاکستان میں بننے والی فلمیں اور ڈرامے کمزور ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہتی ہوں کہ پاکستان میں اگر ہیرو آسمان سے چھلانگ لگا کر ٹرک پہ صحیح سلامت آ دھمکتا ہے تو لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مگر یہی کام سلمان خان فلم کک میں کرتا ہے تو لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔ مگر یہ بات بھی غلط نہیں کہ پاکستان میں ڈراموں میں ہیروئن ہونے کا مطلب ہے یا تو رونا دھونا یا ساس بہو کا جھگڑا نمٹانا۔ محبت، طلاق، شادی، بچے، رشتے، حسد، جادو ٹونا، بس یہی ہمارے موضوعات رہ گئے ہیں۔

ایسا ہمیشہ نہیں تھا۔ ان کہی، تنہایاں، دھوپ کنارے، خدا کی بستی، شہزوری – ان کہانیوں میں بھی خاندانی سیاستیں اور محبت اور طلاقیں ہوا کرتی تھیں لیکن بہرکیف ان کے پلاٹ حقیقت سے قریب تر اور اس میں سوچ اور فکر کا عنصر پایا جاتا رہا ہے۔ آج کل کے ڈراموں میں خواتین کا روپ بہت محدود کر دیا گیا ہے۔ اور میں بیٹھ کے محض تنقید نہیں کچھ اس سے بڑھ کر کرنا چاہتی تھی۔ یہ کہہ دینا آسان ہے کہ اچھا ڈرامہ لکھا نہیں جا رہا۔ مگر کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ اچھا ڈرامہ کیوں نہیں لکھا جا رہا اور اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں۔ دی ریویو ود مہوش کی خصوصی پوڈکاسٹ میں میں نے مدعو کیا تزین جاوید کو جو کہ ایک صحافی بھی رہ چکی ہیں اور پاکستان بھر میں خواتین سے منسلک منصوبوں میں کام بھی کرتی رہی ہیں۔ آپ بھی سنئے اور اپنی رائے دیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).