ایران اَور اسرائیل: پراکسی جنگوں اَور قبضے سے تباہی کی طرف


Loading

Emmanuel Neno

ایران مشرقِ وسطیٰ کا ایک تاریخی، تہذیبی اَور جغرافیائی طور پر ایک اہم مُلک ہے َ۔ اِس کے پاس قدرتی وسائل، تعلیمی نظام، افرادی قوت اَور تہذیبی ورثہ موجود ہے۔ یہ تمام عناصر اُسے علاقائی قیادت کا اہل بنا سکتے تھے۔ مگر گزشتہ چالیس برسوں میں ایران نے ترقی، خوشحالی اَور تعاون کی راہ اپنانے کی بجائے پراکسی جنگوں اَور عسکری مداخلت کو اپنی شناخت بنا لیا۔ فلسطین میں حماس، لبنان میں حزب اللہ، شام، عراق اَور یمن میں مسلح گروہوں کی پشت پناہی کے ذریعے ایران نے پورے خطے میں عدم استحکام کو ہَوا دی۔ اِن اقدامات کا نتیجہ نہ خود ایران کے حق میں نکلا اَور نا ہی اُن ممالک کے لئے جہاں اِس نے مداخلت کی۔ ہر جگہ صرف تباہی، فرقہ واریت اَور انسانی المیے دیکھنے کو ملے۔

اِس کے برعکس، مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک نے ایک مختلف راستہ اپنایا۔ متحدہ امارات (یو۔ اے۔ ای) نے تعلیم، سائنس، انفراسٹرکچر، اَور بین الاقوامی تعاون پر توجہ دی۔ اَور آج وہ عالمی سطح پر جدیدیت اَور ترقی کی علامت ہے َ۔ قطر نے کھیل، تعلیم اَور میڈیا میں سرمایہ کاری کی اَور خود کو سفارتی مرکز بنایا۔ عمان اَور سعودی عرب نے بھی اپنی پالیسیاں ترقی، اصلاحات اَور اقتصادی ترقی کی طرف موڑیں۔ اِن ملکوں نے تصادم کے بجائے تعاون کو ترجیح دی۔ یہی وہ راستہ تھا جو ایران کے لئے بھی ممکن تھا۔

اکتوبر 2023 میں جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا۔ تو ایران کا سایہ ہر طرف محسوس ہوا۔ حزب اللہ اَور حوثیوں کی مداخلت بھی ایران کے اثر کا نتیجہ تھی۔ مگر ہر بار ایران نے دوسروں کو لڑایا مروایا۔ خود میدان میں نہ آیا۔ آج جب ایران خود اسرائیل کے حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے َ۔ تو یہ وقت اُس کے اپنے لئے نظرثانی کرنے کا وقت ہے۔ ایران کے لئے موقعہ اب بھی باقی ہے َ کہ وہ بڑی طاقتوں کے نرغے میں نہ آئے۔ سمجھداری اَور حکمت سے کام لے۔ اَور اپنے مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، وہ ایٹمی پروگرام کے لئے بات چیت کے دروازے کھلے رکھ سکتا ہے۔ پراکسی جنگوں سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ اَور اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو از سر نو استوار کر سکتا ہے َ۔ اگر وہ امن اَور ترقی کا راستہ چُنے تو وہ بھی یو اے ای، قطر اَور دیگر ممالک کی طرف خوشحالی کی راہ پر آ سکتا ہے۔

تاہم صرف ایران ہی نہیں، بلکہ اسرائیل کو بھی اپنی پالیسیاں بدلنا ہوں گی۔ فلسطینی علاقوں پر قبضہ، مغربی کنارے پر غیر قانونی بستیاں، غزہ کا محاصرہ، اَور شہری آبادی پر شدید بمباری سے باز آنا ہو گا۔ یہ سب بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں ہیں۔ فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور دو ریاستی حل سے انکار نے اسرائیل کو عالمی تنقید کی زد میں لا کھڑا کیا ہے۔ اگر اسرائیل پائیدار امن چاہتا ہے تو اُسے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ہو گا۔ انصاف اَور احترام کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرنا ہو گا۔ صرف فوجی طاقت سے سیکورٹی ممکن نہیں۔ بلکہ امن، انصاف، اَور اعتماد پر مبنی تعلقات سے ہی سلامتی ممکن ہے۔

ایران اَور اسرائیل دونوں کو سوچنا ہو گا کہ کیا وہ تباہی کی راہ پر گامزن رہیں گے یا یو اے ای، قطر اَور خطے کے دیگر ممالک کی طرح ترقی، تعاون، اَور امن کا راستہ اختیار کریں گے؟ فیصلہ اَب ان کے ہاتھ میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments