پروین شاکر ۔۔۔ حصار رنگ میں


پروین شاکر پر یہ مضمون لکھنے میں مجھے کئی برس لگ گئے ، اس لئے کہ ان کے احساس کی ترجمانی کرنے والے لفظوں کا قبیلہ، میرے آنگن میں اترنے کے لئے فقط اس بات پر آمادہ نہ تھا کہ اس کو یہ گمان رہا کہ میرا شعور مرد اساس اور پدری نظام کے تسلط سے آزاد نہیں ہے۔ میں بھلا کیسے سمجھ سکتا ہوں کہ عورت اپنے باطن میں دبی چھپی چاہتوں، جسم وجاں کی رفاقتوں اورعدم رفاقتوں، اپنے محبوب کو چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش کے ساتھ ساتھ، اپنے باطن کے تصادم میں سراپا انتظار بن جاتی ہے، اور جس کے لئے مرد اس کا محبوب بھی ہے اور مچلتا ہوا بچہ بھی، انا کی کہر میں اٹے ہوئے روایتی مرد کو ہنستا ہوا دیکھنے کی خاطر، عورت اس کی ہرضد پوری کردیتی ہے۔

شاید لفظوں کے اس قبیلے کا فیصلہ درست بھی تھا، اس لئے کہ ساری ترقی پسندی کے بعد بھی روایت کی ساری تاریخ مرد اساس ہے۔ فلسفہ تہذیب، سماجی اور اخلاقی جتنے قوانین وضع ہوئے ہیں، اس میں عورت کو کہیں بھی ایک وجود کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا گیا، بلکہ اسے ایک شے کی حیثیت دی گئی، جسے جوئے میں ہارا جاسکتا ہے، زندہ جلایا جاسکتا ہے اورکنیزی کے پیرہن میں بیچا اورخریدا جاسکتا ہے۔ اس جذباتی اورحیاتیاتی تقسیم میں افلاطون سے لیکرفرائڈ اور یونگ جیسے ماہرین نفسیات ہی نہیں، بلکہ اس مہم جوئی میں ڈیل کارنیگی بھی نہ بچ سکا، جو انسانوں میں توکجا، جانوروں میں بھی نر کے تفوق کا علم بردار ہے۔ ہر دور میں وضع کردہ ضوابط کے بوجھ تلے، جب عورت کی حیثیت چکنا چور ہوتی رہی اور اس کا وجود ایک تابع مہمل سے زیادہ نہ رہا، تو لسانی جذبوں کی محرومی کو نرم و نازک اورتخلیقی آہنگ کا پیرہن اورقبائے گل رکھنے والا لفظوں کا قبیلہ ایک ایسی شاعری کو جو ہجر وصال کے لمحوں سے سرشار، پورے بدن کی انگڑائی کے اظہار سے ادا کیا جاسکے، کب میری پزیرائی قبول کرسکتا تھا.

وہ، یہ سوچ کر مجھ سے گریزکرتا رہا کہ میں فراق کی شاعری کا چشمہ اپنی آنکھوں پرچڑھا کر،اسے ایک عظیم فن کار ثابت کرکے اس کے اندر کے آدمی کی چیخ کو صدیوں تک پہنچانے کا سامان تو فراہم کرسکتا ہوں۔ لیکن شاید ہی میری زبان سے کبھی یہ نکلے کہ فراق کی بیوی جو اس کی نظر میں بدصورت تھی، اس نے بھی تو ساری رات آنگن میں یہ سوچ کر گزاری ہوگی کہ کبھی تو نامراد آئے گا اور موسم گل اسی آنگن میں ٹھہر جائے گا۔ روپ کے نام سے لکھی ہوئی رباعیوں کی کھلی کتاب تکیہ پررکھ کرسوتے ہوئے میں نے کب یہ محسوس کیا ہوگا کہ اس ہجر نصیب عورت کو دکھ تو پورا ملا اور چاند آدھا، اور پھر ہجرکی لمبی رات کے بعد سحرکے قریب یہ چاند میسر بھی آیا، تو بجھا بجھا سا۔ ثواب اورعذاب کے فلسفوں کے سراب نے نئی زمینوں کے کولمبس کے لئے مہم جوئی کے راستے تو کھول دیئے، لیکن وہ راستے جن پرجانے پہچانے قدموں کی چاپ سے دھڑکن بڑھ جاتی ہے، ان راستوں کی ویرانی کے بعد بے قرارآنکھیں پتھر بن کرطاق میں رہ جاتی ہیں۔ سچ بھی کتنا مجبورہوتا ہے کہ کوئی کیسے کہہ دے کہ کسی نے اسے چھوڑ دیا ہے، کوئی بدلتی ہوئی نظروں کو تو الزام نہیں دیتا، عورت خود ہی اپنی نظر سے گر جاتی ہے۔۔۔

میں سوچتی ہوں کہ مجھ میں کمی ہے کس شے کی

کہ سب کا ہو کے رہا وہ، بس اک مرا نہ ہوا

نیم خوابی کا فسوں یوں بھی بڑی دیرمیں ٹوٹتا ہے، لیکن اس رات تو نیند بہت گہری تھی، اتنی گہری جتنی سانس کے چلنے کی چبھن لگتا تھا ایوان تصور کے دریچہ پر کوئی دستک سی دیئے جاتا ہے۔ دل نے یہ سوچ کے کروٹ بدلی کہ اجنبی ہوگا، صدا دے کے چلا جائے گا، اور پھر تیز ہواؤں کے ساتھ شہرذات کی ساری کھڑکیاں کھل گئیں اور جو کھل نہ سکیں وہ ٹوٹ گئیں۔ ساری مہربانیاں ہوا کی تھیں، جو گریز پا لمحوں کے ساتھ خوشبو کی لپیٹوں کو بکھیرتی چاند کی کرنوں کا خزانہ لئے، ان لفظوں کے قبیلے کو آخرکار میرے دل کے آنگن تک لے آئیں۔ حیران آنکھیں، شبنمی رخسار اوراداس لیکن مونا لیزا جیسی دلکش مسکراہٹ رکھنے والی لفظوں کے قبیلوں کی یہ لڑکیاں، لگتا تھا کہ اپنے وجود کے طلسم خانے میں آئینہ کے کرچیوں میں اپنے عکس کو تلاش کرتے کرتے، اپنی انگلیاں لہولہان کر بیٹھی ہیں اور ان کواس بات کا عرفان ہو چلا ہے کہ خوشبوؤں کی بیلیں اگر بدن سے لپٹ بھی جائیں، تو زرد بیلوں کا یہ جمال صورت صحاب نظرآنے کی رت، فقط بسنت بہار کی رت ہے، اس رت میں بھیگنے کے بعد پھرحصار رنگ سے رہائی دشوار ہوجاتی ہے۔ ہوا سے بڑھ کر بھلا کون منافق ہوگا، جوسویرے پوپھٹنے سے پہلے شبنم کا پیرہن دے کر پھولوں کے رخسار چوم کرجگاتی ہے، تو شام ڈھلتے ڈھلتے اپنے تیز ناخنوں سے اس کی پنکھڑیاں بھی نوچ لیتی ہے۔

اس کائنات رنگ وبو میں پروین شاکر کا وجود بھی ایک خوشبو تھا، ان کی تخلیقی رشتے کی عمر بیس بائیس سال سے زیادہ نہیں تھی، یہ اور بات ہے کہ اتنی کم عمر میں ایک عورت کی حیثیت سے مرد کی نفسیات کو واضح کرنے کی معصوم سی کوشش، ان کے قاری پر حیرت کے کئی باب کھول دیتی ہے۔۔۔:

تمام رات میرے گھر کا ایک در کھلا رہا

میں راہ دیکھتی رہی وہ راستہ بدل گیا

میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی

وہ شخص آکے مرے شہر سے چلا بھی گیا

لو میں آنکھیں بند کئے لیتی ہوں اب تم رخصت ہو

دل تو جانے کیا کہتا ہے، لیکن دل کا کہنا کیا

اسی امید میں ہرموج ہوا کو چوما

چھوکے شاید مرے پیاروں کی قبا آئی ہو

میرے مشاہدے اور مطالعہ کے اعتبار سے رومانی شاعروں میں کم عمری کی روایت اکثررہی ہے، کیٹس، شیلی، بائرن ہو یا اختر شیرانی، شکیب جلالی یا سارہ شگفتہ، یہ سب اپنے احساس کی شدت کی بناء پر زندگی کی صعوبتوں اور کلفتوں کی تاب نہ لاسکے اور بعض نے تو بڑھ کر از خود موت کے پروانے پر اپنی دستخط ثبت کر د ئے۔ لیکن پروین شاکر کی شاعری میں زندگی کی علامتیں پھول، خوشبو، رنگ، تتلی، جگنو، پیڑ، بوٹا، کلی، چڑیا، چہک اور چہرہ جیسی نوخیز اور نو دمیدہ علامتوں کی صورت میں موجود ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو زندگی سے بہت پیاررہا ہے، وہ زندگی کی ساری رعنائیوں کے ساتھ، اس کی کلفتوں کو بھی حیات کا جزو سمجھتی رہی ہیں۔۔۔:

تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

شاخوں نے پھول پہنے تھے کچھ دیر قبل ہی

کیا ہوگیا قبائے شجر کیوں اتر گئی

خوشبو بھی اس کی طرز پزیرائی پرگئی

دھیرے سے میرے ہاتھ کو چھوکر گزر گئی

ایسا نہیں کہ پروین شاکرکی شاعری مرد کی فوقیت کے خلاف ایک مکمل احتجاج ہے، لیکن وہ عورت کو محض ایک جنسی علامت کے طورپراستعمال کے بجائے، اس کے اندر پورا وجود پنکھڑی پنکھڑی بکھیردیتی، اس جذباتی وجود کے مسلمہ حیثیت کا اقراربھی چاہتی ہے، لیکن لطف یہ ہے کہ اس احتجاج میں بھی ایک ایسا جذبہ کارفرما ہے، جس کی اساس محبت پر ہے۔۔۔:

وہ آج بھی مجھے سوتے میں ڈسنے آئے گا

وہ جانتا ہے کہ کھلتا ہے مجھ پہ زہر کا رنگ

سپردگی کا نشہ ٹوٹنے نہیں پاتا

انا سما ہوئی ہے وفا کی بانہوں میں

 وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا

عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

اردو ادب اور شاعری کا مزاج یہ بھی ہے کہ اظہارمیں صیغہ سے صنف اور جنس کا پتہ چل جاتا ہے، محاوروں، روزمرہ اور تشبیہات کی وجہ سے اردو شاعری میں ریختی یاریختہ کا حکم لگا دیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب اظہارکا پیرایہ وسیع ہوجائے اور شاعری میں محض رومانی جذبوں کے اظہار کے پیرایہ میں صنف کی تخصیص باقی نہیں رہ جاتی تب یہ سیل رواں مروجہ نصابی سانچوں اور ساخت کو توڑتا ہوا، زمان و مکان کی حدود پراثراندازنظر آتا ہے۔ سنگینیوں کی دھوپ جب رنگ کجلانے لگی، تو برفباری کے موسم میں اپنے ہی دروازے کی دہلیز جلا کر ہاتھ تاپنے کی رسم ایجاد کرنے والے، دھوپ کی حدت سے پناہ مانگنے لگے، لیکن بارش کو الزام دینے والوں کی زبان سے شاید کبھی یہ نہ نکلا ہو کہ اپنے شہر کا رنگ ہی کچا تھا۔ پروین شاکر اسی جرم کی ملزم ہے، جن کی شاعری کے آغاز میں تو شگفتہ غنچہ کی طرح تازہ خوشبو کی لہر ہے، لیکن صد برگ، خود کلامی اور انکار تک پہنچتے پہنچتے ہر انکار پر ان کے بدن میں ایک میخ کا اضافہ تو نظر آتا ہے، لیکن شبنمی رخساروں کے ساتھوہ شکست خوردہ یا پشیمان لہجہ نظر نہیں آتیں۔ بدن پر ہر تازیانے کے بعد ان کے چہرہ پر نور کی ایک اور لکیر بڑھ جاتی ہے، جو پڑھنے والے کے باطن میں کئی سرخ لکیریں کھینچ جاتی ہے:

شجر کو سبز قبا دیکھ کر یہ الجھن ہے

کہاں پہ رنگ نمو ہے کہاں پہ زہر کا رنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).