ریڈیو پاکستان لاہور کے پروگرام منیجر سلیم بزمی صاحب سے ایک بات چیت (قسط نمبر 2 )
غزل موسیقی کے چار دبستان
سلیم بزمی صاحب نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ”جہاں تک غزل کا تعلق ہے تو ریڈیو پاکستان نے غزل کی موسیقی کے چار دبستان متعارف کروائے۔ اِن میں پہلا اقبال بانو دوسرا فریدہ خانم تیسرا مہدی حسن اور چوتھا غلام علی ہے“ ۔
دبستانِ اقبال بانو
” اختری بائی فیض آبادی سے لے کر برکت علی خاں صاحب تک، غزل ٹھمری کے زیرِ اثر رہی۔ ٹھمری انگ میں غزل گانے میں لفظوں کے دَر و بَست کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ لفظ کی ہیت بِگڑ جاتی تھی البتہ تان اور مُرکیوں کا خیال زیادہ رکھا جاتا تھا۔ اس کو اقبال بانو نے لائٹ کیا اور اُن کے لئے موسیقاروں نے جو دھنیں بنائیں ان میں الفاظ کو مقدم رکھا۔ جیسے مہدی ظہیر صاحب کی بنائی ہوئی طرز میں اقبال بانو کی آواز میں فیضؔ کی نظم ’دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں۔ ‘ میں ’قطرہ قطرہ مدھم مدھم اتنے خوبصورت کہے ہیں کہ سننے والے کو یہ دو لفظ آج بھی یاد ہو جاتے ہیں کہ اقبال بانو نے ایسے کہے ہیں“ ۔
دبستانِ فریدہ خانم
” دوسرا دبستان فریدہ خانم کا ہے۔ وہ سب سے پہلے گوالیار گھرانے کے استاد سَیندے خاں صاحب کی شاگرد ہوئیں۔ سیندے خاں صاحب، استاد فتح علی خان حیدرآبادی کے دادا کے بھائی تھے۔ یہ گھرانا ’آکار‘ کا گانا گاتا ہے۔ رجب علی بھی اسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعد میں سیندے خاں بمبئی منتقل ہو گئے اور وہیں بس گئے۔ لتا منگیشکر کے والد دینا ناتھ منگیشکر سیندے خاں صاحب کے شاگرد ہیں۔ پھر فریدہ خانم عاشق علی خاں صاحب کی شاگرد ہوئیں جو پٹیالہ گھرانے کے بزرگوں میں سے ہیں۔ یہ کرنیل خاں صاحب کے بیٹے تھے۔ عاشق علی خاں صاحب گاتے تھے۔ ان کے ساتھ گوالیار گھرانے کے امید علی خاں صاحب کے علاوہ کوئی اور نہیں گاتا تھا۔ اُن کی ’لے‘ فریدہ خانم میں منتقل ہوئی۔ فریدہ خانم نے سوچا کہ سب ہی ’بِیٹ ٹو بِیٹ‘ غزل گا رہے ہیں تو انہوں نے اپنے آپ کو علیحدہ کرنے کے لئے ’آف بِیٹ‘ گانا شروع کر دیا جو بہت مشکل ہے۔ آپ دیکھ لیں ساری گلوکارائیں میڈم نورجہاں کو گا لیں گی لیکن فریدہ خانم کو نہیں گا سکتیں۔ ایسا آکار بھی کسی میں نہیں خود میڈم نورجہاں بھی ان کے آکار کی معترف تھیں“ ۔
دبستانِ مہدی حسن
” موسیقی میں تیسرا دبستانِ غزل مہدی حسن صاحب ہیں۔ جب وہ لاہور آئے تو سلیم گیلانی صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی۔ گیلانی صاحب کی ہدایات تھیں کہ آپ لفظ کو مقدم رکھیں گے۔ دَر و بَست، زیر زَبر، تلفظ بگڑنا نہیں چاہیے اور راگ بھی قائم رہے۔ مشق کے بعد جب انہوں نے بندشیں گائیں تو ان میں لفظ اور مصرعوں کو مقدم رکھا گیا جو لوگوں کو صاف اور واضح سنائی دیا۔ اس میں راگ کی لطافت بھی برقرار رکھی گئی۔ مہدی حسن نے اگر کسی نئی کمپوزیشن میں غزل پیش کی ہے تو اس غزل کے ساتھ انہوں نے پلیٹ میں رکھ کر ایک نیا راگ بھی دیا ہے۔ ان کی غزل آپ سنیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ’خیال گائیکی‘ شروع ہو گئی ہو یہ ان کا ایک اپنا منفرد انداز تھا جس کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں غزل میں ہِٹ ہوئے اور شہنشاہِ غزل کا لقب پایا“ ۔
دبستانِ غلام علی ’غزل تراش‘
” چوتھا دبستانِ غزل غلام علی ہے۔ ریڈیو پاکستان سے غلام علی صاحب کو ’غزل تراش‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔ وہ مہدی صاحب کی موجودگی میں ابھرے۔ انہوں نے مجھے خود بتایا کہ میرے والد صاحب کاغذ کی چِٹوں پر سا رے گا ما وغیرہ لکھ کر ہارمونیم کے سُروں پر چپکا دیتے۔ مجھے سب سے پہلا سبق انہوں نے راگ ماروا کا دیا البتہ بعد میں استاد برکت علی خاں صاحب کی تعلیم ہوئی۔ غلام علی، بڑے غلام علی خاں صاحب کے شاگرد ہیں۔ بڑے غلام علی خاں صاحب نے بھارت جاتے ہوئے باقاعدہ غلام علی کو گنڈا باندھ کر اپنے بھائیوں، برکت علی خاں صاحب اور مبارک علی خان صاحب کے حوالے کیا۔ مجھے غلام علی صاحب نے بتایا کہ میرے والد ڈسکہ، سیالکوٹ کے پاس کالے کے ناگرے گاؤں میں رہتے تھے۔ والد صاحب مجھے برکت علی خان صاحب کے پاس لاہور لاتے جو مجھے ہارمونیم پر ایک سبق دیتے۔ میں 15 دن بعد پھر والد کے ساتھ آ کر پچھلا سبق سنا کر نیا لے جاتا۔ پھر میرے والد نے استاد برکت علی خاں سے کہا کہ ہر پندرہ دن بعد لاہور آنا مشکل ہے لہٰذا آپ اس کو اپنے پاس ہی رکھ لیں یہ آپ کی خدمت میں رہے گا۔ یوں میں استاد برکت علی خاں کے پاس آ گیا“
برکت علی خان صاحب دل کی بات کیسے جان لی؟
” استاد برکت علی خان صاحب اپنے باقی شاگردوں سے ریاض کرواتے اور مجھ سے کھانا، پان، دودھ منگوانے اور چائے بنا نے کا کام کرواتے ایک دن میں اسی طرح ان کا کوئی کام کر کے آ رہا تھا تو میرے دل میں خیال آیا کہ یہ دوسروں کو سکھاتے اور مجھ سے گھر کے کام کرواتے ہیں۔ میں ان کے مکان کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا یہ سوچتا ہوا جیسے ہی ان کے پاس پہنچا تو وہ مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ او غلام علی! تجھے یوں ہی چلتے پھرتے موسیقی آ جائے گی!“ ۔
میرے استاد کی دعا
” جب موقع ملتا میں خود ہی باجا پکڑ کر ریاض کرتا۔ ایک دن مجھے ریاض کرتے دیکھ کر انہوں نے کہا کہ جا ساری دنیا میں تیرے لئے روٹیاں پکی ہیں۔ اسی طرح ایک مرتبہ خاں صاحب کو بخار ہو گیا تو مجھے کہا کہ غلام علی مجھے دبا! میں نے دبانا شروع کر دیا۔ کہیں اُن کی آنکھ لگ گئی لیکن میں دباتا رہا۔ صبح کے چار بجے آنکھ کھلی تو چونک کر بولے او غلام علی تو سویا نہیں؟ میں نے کہا کہ استاد صاحب آپ نے دبانے کا کہا تھا اس لئے دبا رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے دعا دی کہ غلام علی! میری بات یاد رکھنا لوگ گانے بجانے والوں کو سنتے ہیں نا جا دعا ہے کہ گانے بجانے والے بھی تم کو سنیں گے۔ اس وقت مجھے پتا نہیں تھا کہ میوزک کیا ہوتا ہے۔ مجھے تو یہ استاد برکت علی خان کی دعا لگی ہوئی ہے“ ۔
لفظوں کے معنوں میں سُر
” غلام علی صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے لفظوں کے معنوں میں سُر تلاش کیے۔ آپ دیکھیں کہ محسن ؔنقوی کی غزل ’یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بُجھ گیا آوارگی‘ ان کی اپنی کمپوزیشن ہے۔ اس میں تنہائی کا تاثر خاں صاحب نے کیا عمدگی سے پیش کیا ہے۔ سروں میں بتا دیا کہ تنہائی کیسی ہوتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر غلام علی صاحب کو ’غزل تراش‘ کا خطاب دیا گیا ہے“ ۔
” اب جب بھی کوئی کمپوزر غزل کمپوز کرنے بیٹھتا ہے تو ان ہی دبستانوں میں سے کسی کا دبستان سامنے آ جاتا ہے وہ اس سے باہر نہیں نکل سکتا۔ اب آپ نے جو موسیقار استاد نذر حسین سے متعلق سوال کیا ہے میں ادھر آنے لگا ہوں۔ اصل تخلیق کار با شعور ہوتا ہے۔ اس کی نظر اپنے میدان کی پوری تاریخ پر ہوتی ہے۔ انہوں نے غور کیا کہ اِن چاروں دبستانِ غزل سے کیسے بچیں؟ انہوں نے ایک سبتک سے دوسرے سے کھیلتے ہوئے جب دھنیں بنائیں تو غزل نِکھر کر نئی ہو گئی“ ۔
بہت حیرت انگیز بات
سلیم بزمی صاحب نے بات چیت کے دوران ایک ایسی بات بتائی جو نہ صرف نئی تھی بلکہ بہت زیادہ حیرت انگیز بھی۔ انہوں نے بتایا ”پی ٹی وی کے پروگرام ’ترنم‘ میں استاد نذر حسین نے جتنے گیت اور غزلیں میڈم سے گوائیں وہ تمام پہلے انہی دھنوں میں ریڈیو پاکستان لاہور میں مہناز سے گوائی تھیں لیکن وہ ہِٹ نہیں ہو سکیں۔ ہمارے پاس وہ ریکارڈنگ موجود ہیں۔ مگر یہ ہی گیت و غزل ان ہی دھنوں میں میڈم نورجہاں کے گلے سے نکلیں تو سب ہی مشہور ہوئیں۔ استاد نذر حسین کا یہ بے مثال کمال ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بڑے موسیقار کو بڑا گلوکار بھی چاہیے اب ان تمام غزلیات کو اسکرین اور میڈم نورجہاں کی آواز ملی تو غزلیں سُپر ہِٹ ہو گئیں“ ۔
” اس کے بعد پھر مہدی حسن کے دبستانِ غزل کے پیروکاروں میں پرویز مہدی، آصف مہدی، اور غلام عباس صاحب ہیں۔ غلام عباس صاحب نے ابھی تک اس انداز کو برقرار بھی رکھا ہوا ہے۔ غلام علی کے دبستانِ غزل کے پیروکاروں میں فدا حسین تھے جو ان کے ساتھ 13 سال رہے۔ پھر سرگودھا کے رہنے والے کوثر غلام علی اور ایک موسیقار رفیق حسین کا بھی نام ہوا“ ۔
فدا حسین کی شاگردی میں آنا
” مجھے چونکہ بچپن ہی سے غلام علی صاحب کا انداز پسند تھا اور ان کا شاگرد ہونا چاہتا تھا لیکن وہ ملک میں رہتے ہی کم تھے۔ ان کے شاگرد فدا حسین لاہور میں تھے۔ اب غلام علی صاحب کا انداز سیکھنے کے لئے میں پہلے فدا حسین کا شاگرد ہوا۔ خدا فدا حسین کو غریقِ رحمت کرے۔ انہوں نے پھر سے میرا ہاتھ ہارمونیم پر رکھوا کر ’کورڈ سسٹم‘ بتایا۔ ان کے ہاتھ میں قدرتی طور پر کورڈ تھا۔ جب 1982 میں فدا حسین بھارت گئے تو موسیقار آر ڈی برمن اور آشا بھونسلے کے گھر ٹھہرے۔ کہنے لگے کہ وہاں آر ڈی برمن جنہوں نے کسی اور طریقے سے اور میں نے کسی اور طریقے سے ہارمونیم بجایا۔ انہوں نے تعریف کی۔ لتا منگیشکر بھی قریب ہی رہتی تھیں وہ بھی آ گئیں۔ وہیں عید الفطر ہوئی۔ آشا صاحبہ نے میرے لئے سویاں بنائیں اور لتا حلوا بنا لائیں۔ میں نے اُن کو ’دلڑی لُٹی تئیں یار سجن‘ کی کافی سنائی تو لتا صاحبہ نے ایک مرتبہ اور سننے کی فرمائش کی۔ میں نے تعمیل کی تو کہنے لگیں کہ مجھے پاکستان میں ایک سنگر بہت پسند ہے نام یاد نہیں! اس پر میں نے کچھ گلوکاروں کے نام لئے کہنے لگیں کہ وہ کوئی اور ہیں۔ میں نے کہا کہ زاہدہ پروین؟ کہنے لگیں ہاں یہی ہیں۔ مجھے ان کی گائی ہوئی کافیاں بہت پسند ہیں۔
کشور کُمار سے ملاقات
” فدا صاحب کہتے ہیں کہ میں کمرے کی کھڑکی سے باہر سمندر دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری کمر پر ایک مکا رسید ہوا۔ میں نے پلٹ کر جو دیکھا تو گلوکار کشور کمار کھڑے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ اپنے گھر پَریوار سے اداس ہو گئے ہو؟ لاہور یاد آ رہا ہے؟ فدا بھائی اداس نہ ہو اور قہقہہ لگانے لگے“ ۔
موسیقار رویندر جین اور فدا حسین
” پھر فدا حسین موسیقار رویندر جین سے اپنی ملاقات کے سلسلے میں کہنے لگے کہ انہوں نے مجھے اپنی کمپوزیشنیں سنائیں تو میں نے انہیں نذر دی۔ اس پر اُنہوں نے اپنی بیگم کو آواز دی کہ بھاگوان، یہ فدا حسین کے نذر کے پیسے ہیں۔ انہیں وہیں پر رکھ دو جہاں لتا اور آشا جی کے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو خرچ نہیں کرنا! پھر میں نے اُن کو اپنی کمپوزیشن سنائی ’سُن جا درد کہانی۔ ‘ اس پر انہوں نے بھی مجھے نذر دی۔ پھر بعد میں ان کی فلم ’رام تیری گنگا میلی‘ ( 1985 ) آئی تو اس میں میری کمپوزیشن سے انہوں نے گانا بنایا ’رام تیری گنگا میلی ہو گئی‘ ۔“
لائیو ساز بجانے اور سننے میں اثر
سلیم بزمی صاحب نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا ”پھر 2020 میں فدا حسین صاحب فوت ہو گئے۔ بہت اعلیٰ آرٹسٹ تھے۔ ابھی پندرہ بیس دن پہلے گلوکار آغا کوثر بھی انتقال کر گئے۔ بحیثیت میوزک پروڈیوسر اب آگے غزل گائیکی سے مایوس ہی ہوں۔ جب میں ریڈیو میں آیا تھا تب ہم اسپول /ٹیپ پر ریکارڈنگ کرتے تھے۔ اب وہ ڈیجیٹلائز ہو گیا ہے۔ ایک کی بورڈ میں ساری آوازیں لے سکتے ہیں۔ تب ہم سازوں کے ساتھ لائیو صدا بندی کرتے تھے۔ پھر لائیو ساز بجانے اور سننے میں بہت اثر محسوس ہوتا تھا۔ ڈیجیٹل سازوں میں وہ اثر مفقود ہے لہٰذا جب زمانہ بدلا تو اس کے ساتھ موسیقی نے بھی اپنا لبادہ بدل لیا۔ اب ہم اگر کسی نئے گلوکار میں مہدی حسن یا غلام علی خاں صاحب کو ڈھونڈیں گے تو وہ نہیں ملیں گے۔ کیوں کہ جس طرح اُن لوگوں نے جان ماری، محنتیں کیں اُس طرح اب کوئی بھی نہیں اب تو ایک سطر بھی کہنی ہو تو توڑ توڑ کر کمپیوٹر سے جوڑ لیتے ہیں۔ اس میں نہ تو کسی اثر کا احساس ہے نا وہ تاثر ہے نا ایک تسلسل ہی ہے“ ۔
نئے گلوکار متعارف ہوئے
” میں نے نئے لوگوں کی بھی بہت حوصلہ افزائی کی ہے۔ صنم ماروی، ندیم عباس لونے والا، سجاد طافو کو میں نے متعارف کرایا۔ روبی ریشماں، سارہ رضا خاں اور بہت سی نئی آوازوں کو میں لے کر آیا۔ جب فلمی دنیا پر زوال آیا تو وجاہت عطرے صاحب گھر بیٹھ گئے۔ ان کو ریڈیو پر میں لے کر آیا۔ انہوں نے میرے ساتھ ریڈیو کے لئے پانچ سال اپنے آخری وقت تک کام کیا۔ اب نئے لوگ پوچھتے ہیں کہ میں نے ہارمونیم سیکھنا ہے۔ کتنی دیر میں آ جائے گا! 35 سال تو مجھے ہو گئے مگر ابھی تک نہیں آیا“ ۔
” آرٹسٹ یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا! پھر اس کے بھی دو درجے ہیں۔ ایک نقلی /جعلی آرٹسٹ ہے اور دوسرا حقیقی آرٹسٹ۔ اب حقیقی آرٹسٹ کون ہوتا ہے؟ یہ پیدائشی آرٹسٹ ہوتا ہے۔ جیسے سلامت علی خاں صاحب تھے۔ 9 سال کی عمر میں میلے میں انہوں نے اپنے جوہر دکھائے۔ سیکھا ہوا آرٹسٹ اور پیدائشی آرٹسٹ دونوں برابر نہیں ہو سکتے“ ۔
ریڈیو پاکستان لاہور کا سنہرا دور
” جب میں ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہوا تو یہاں بہت گہما گہمی تھی۔ اِدھر سے پرویز مہدی صاحب آ رہے ہیں اُدھر سے ماسٹر منظور صاحب آ رہے ہیں۔ استاد ماسٹر غلام حیدر خاں صاحب جو ہمارے کلاسیکل میوزک ریسرچ سیل کے انچارج تھے، روزانہ آتے۔ پھر راگوں پر گفتگو ہوتی۔ استاد فتح علی خاں حیدرآبادی آ رہے ہیں۔ استاد غلام حسین شگن صاحب آ رہے ہیں۔ پھر ہر مہینے میوزک کا شیڈول چارٹ بنتا تھا جس میں آرٹسٹوں کے نام لکھے جاتے۔ دو دن پہلے اطلاع دیتے کہ ان کو کب گانا ہے۔ اُنہیں باقاعدہ خط لکھا جاتا کہ آپ نے فلاں دن اپنی کارکردگی دکھانا ہے۔ یہ راگ ہے یا یہ غزل ہے اور یہ کمپوزر ہے۔ سب ہی کو ایک دن پہلے بلوا کر ریہرسل کرواتے اور اگلے دن صدا بندی کی جاتی۔
ریڈیو پاکستان کے مسائل
عرصے سے یہ سننے میں آ رہا ہے کہ ریڈیو زوال کا شکار ہے۔ اس سلسلے میں سلیم بزمی صاحب نے بتایا ”۔ یہ احکامات دیے جانے لگے کہ بجٹ بچائیں۔ فنکاروں کی بُکنگ کم کریں۔ کرتے کرتے سنٹرل پروڈکشن یونٹ المعروف سی پی یو جو 1973 میں سلیم گیلانی صاحب نے قائم کیا تھا اس کو انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کو آدھا کرایہ پر دے دیا۔ باقی خالی عمارت کی چھتیں گرنا شروع ہو گئیں۔ اسٹوڈیو کی مشینیں خراب اور کچھ متروک ہو گئیں جِن کے پرزہ جات بھی مفقود ہو گئے۔ ریکارڈسٹ بھی ریٹائر ہو گئے یا فوت ہو گئے۔ ہم براڈکاسٹنگ ہاؤس میں جو لائیو ریکارڈنگ کرتے تھے وہ مشینری بھی اب ختم کر دی گئی ہے“ ۔
” میں ساڑھے چار سال پہلے ترقی پا کر اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان سرگودھا متعین ہوا۔ پھر جب لاہور واپس آیا تو پچھلی حکومت نے ہر ایک ریڈیو اسٹیشن کا جو ماہانہ بجٹ آتا تھا وہ ہیڈ کوارٹر کے پاس رکھوا دیا۔ مثلاً میرے ہوتے ہوئے ریڈیو پاکستان لاہور کا ماہانہ بجٹ 900000 آتا تھا، اب وہ نہیں آتا۔ بلکہ آرٹسٹ کے پروگرام کنٹریکٹ دستخط کروا کر ہیڈکوارٹر بھجواتے ہیں۔ آرٹسٹ کے اکاؤنٹ میں براہِ راست پیسے آتے ہیں یا ان کا چیک اسٹیشن پر آ جاتا ہے۔ اس کا بھی کوئی پتا نہیں کہ چیک مہینے بعد آئے گا، ہفتے بعد یا تین ماہ بعد ! اس کے علاوہ کنٹریکٹ پر جو 750 افراد تھے وہ بھی فارغ کر دیے گئے“ ۔
ریڈیو پاکستان لاہور کے میوزک سیکشن کا زوال
ایک سوال کے جواب میں سلیم بزمی صاحب نے بتایا: ”سلیم گیلانی صاحب نے 39 میوزیشنوں کو سینٹرل پروڈکشن یونٹ لاہور میں مستقل ملازمتیں دیں تا کہ ہمیں باہر سے میوزیشن نہ بلوانا پڑیں۔ اب اُن میں سے صرف ردہمسٹ اشفاق حسین رہ گیا ہے باقی یا ریٹائر ہو گئے یا انتقال کر گئے۔ ان کی جگہ کوئی دوبارہ نہیں رکھا گیا۔ ریڈیو پاکستان میوزک سیکشن کے زوال کا یہ ایک بڑا سبب بنا کہ دوبارہ ہمیں اسٹاف آرٹسٹ دیے ہی نہیں گئے۔ افسرانِ بالا سے کہو تو کہا جاتا ہے بجٹ ہو گا تو دیں گے! ریڈیو کو نچوڑتے نچوڑتے ایف ایم کی بلڈنگ خالی کروا کے ایک اسٹوڈیو میں ایف ایم بھی لگا دیا۔ اب ہمارے پاس میوزک ریکارڈ کرنے کے لئے صرف ایک ہی اسٹوڈیو ہے۔ اس کے لئے ہم میوزیشن باہر سے پیسے دے کر بلواتے ہیں“ ۔
( جاری ہے )
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).