دس اپریل 1986۔۔۔۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ تھا (3)


لاہور نے جتنے دکھ دیکھے اور جتنے آنسو دیکھے۔ دس اپریل ان کے کفارے کا دن تھا۔ یہ خوشیوں کا دن تھا ناچنے گانے اور جشن منانے کا دن تھا۔ اور جشن منایا جا رہا تھا، ڈھول بج رہا تھا پوری شدت کے ساتھ ہر گلی اور محلے میں بج رہا تھا۔ سڑکوں پر ٹریفک بڑھتی جا رہی تھی۔ بسیں، کاریں، ویگنیں، ٹرالیاں، ٹریکٹر، رکشے، ٹانگے، ریہڑیاں بس جسے جو ملا وہ اس پر ایئرپورٹ کی جانب گامزن تھا۔ ہماری رفتار بہت سست تھی، بہت ہی سست، گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔ یہاں تک کہ شیر پاؤ پل آگیا۔ آگے گاڑیوں کا جانا ممکن نہیں تھا۔

صبح کے 9 بجنے والے تھے۔ فیصلہ یہ کیا کہ اب میں دفتر چلا جاؤں تاکہ کچھ وقت حاضری دے کر دوبارہ جلوس میں شامل ہو سکوں۔ دفتر پہنچ کر ٹیلی فون پر دوستوں سے رابطے شروع کئے۔ پہلا فون سعید بدر کو کیا کہ ان سے جلوس کی صورتحال معلوم ہو سکتی تھی۔ سعید بدر کے مزاج کا تمہیں علم ہے کہ وہ ضیاء الحق کے حامی اور مولوی قسم کے انسان ہیں۔  خاصے بھنائے ہوئے لہجے میں بولے مجھے اس استقبال سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ تم لوگ تو پاگل ہو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ پھر انہوں نے مجھے ڈرانے کی کوشش کی کہ جلوس میں مت جانا کوئی بڑا ہنگامہ اور خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا حضور آپ بس یہ مہربانی کریں کہ اپنے کسی دوست رپورٹر سے یہ معلوم کر دیں کہ جلوس کی اس وقت کیا پوزیشن ہے۔ بہت منت سماجت کے بعد وہ اس بات پر آمادہ ہوئے کہ میری خاطر وہ ایک ٹیلی فون کال ضائع کریں گے اور امروز کے دفتر فون کر کے اس جلوس کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے جس سے خود انہیں صحافی ہونے کے باوجود کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اشرف جاوید کا دفتر مال روڈ پر واقع ہے۔ میں نے وہاں فون کیا تو معلوم ہوا کہ صرف وہی نہیں دفتر کے بہت سے لوگ غیر حاضر ہیں ہاں اس کے ایک کولیگ نے یہ بتا دیا کہ مال روڈ پر ہجوم بہت زیادہ ہے لیکن جلوس کے ابھی کوئی آثار نہیں ہیں۔

ملتان سے اسلم یوسفی آج کل لاہور آئے ہوئے ہیں۔ یوسفی صاحب نے خواہش ظاہر کی تھی کہ میں اگر بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے جاؤں تو انہیں بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ میں نے سوچا تھا کہ ایئرپورٹ کی طرف یا مینار پاکستان والے جلسے میں شرکت کے لیے جاؤں گا تو انہیں ساتھ لیتا جاؤں گا۔ لیکن کل سے میں سڑکوں کی جو صورتحال دیکھ رہا تھا اور جس قدر ہجوم متوقع تھا اس کی روشنی میں یوسفی صاحب کو ساتھ لے جانا مناسب نہیں تھا۔ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں کسی بھگدڑ یا دھکم پیل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ میں نے اسلم یوسفی صاحب کو فون کیا تو وہ جیسے جلوس میں جانے کے لیے تیار ہی بیٹھے تھے۔ کہنے لگے آپ مجھے لینے کے لیے کب تشریف لا رہے ہیں۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ اتنے ہجوم میں ان کا جانا مناسب نہیں۔ عام دنوں میں تو وہ اپنے بڑھاپے اور بزرگی کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اب مجھ سے چلا نہیں جاتا۔ سانس پھول جاتا ہے۔ سفر میں دشواری ہوتی ہے مگر اس روز تو وہ جلسے میں جانے کے لیے تُلے بیٹھے تھے۔’’نہیں بیٹا فکر نہ کرو ہم تو بھٹو صاحب کے جلسوں میں بھی جاتے تھے اور محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں میں بھی جاتے رہے ہیں۔ اس دھکم پیل اور بھگدڑ سے ہم نہیں گھبراتے۔‘‘ اب میں انہیں کیسے سمجھاتا کہ یہاں محترمہ فاطمہ جناح اور بھٹو صاحب کے جلسوں سے کئی گنا بڑا ہجوم ہے۔ خیر بمشکل تمام وہ اس شرط پر دستبردار ہوئے کہ میں انہیں بے نظیر بھٹو کی تقریر کی ریکارڈنگ گھر آ کر سنواؤں گا۔

واپس جلوس کی طرف آتا ہوں۔ سعید بدر نے دو ٹیلی فون ضائع کئے۔ پہلے انہوں نے امروز کے دفتر فون کر کے جلوس کی پوزیشن معلوم کی پھر مجھے فون کر کے بتایا کہ جلوس نے ابھی مال روڈ پر اپنا سفر شروع کیا ہے اور چئیرنگ کراس یا ریگل تک آتے آتے اسے شام ہو جائے گی۔ مجھے شرارت سوجھی میں نے کہا سعید بدر صاحب مجھے آپ کی باتوں پر یقین نہیں ہے۔ آپ متعصب ضیاء الحقی ہیں لہٰذا مجھے گمراہ کرنے کے لیے جلوس کی پوزیشن صحیح نہیں بتا رہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں شام کو ریگل چوک پہنچوں تاکہ جلوس ہی نہیں جلسہ بھی ختم ہو گیا ہو۔ ابھی وہ میرے اس حملے سے ہی نہیں سنبھلے تھے کہ میں نے ایک اور میزائل داغ دیا میں نے کہا جناب آپ کی گمراہ کن اطلاعات سے بچنے کے لیے میں نے اشرف جاوید کے دفتر میں رابطہ کر لیا ہے۔ سٹیٹ بینک مال روڈ پر ہی واقع ہے اور اشرف جاوید کے ایک کولیگ نے کہا ہے کہ وہ مجھے جلوس کی پوزیشن سے آگاہ کر دے گا۔ بس شاکر مت پوچھو سعید بدر صاحب کا کیا حال ہوا۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ٹیلی فون کے اندر سے نکل کرمجھے امرود سمجھ کر کھا جائیں۔ انہوں نے خاصی ثقیل قسم کی گالیاں عطا کیں جن کا مطلب کسی پیدائشی لاہوریے سے معلوم کروں گا اس کے بعد کہنے لگے کہ تم سُرخے ہو اور سُرخے اسی طرح احسان فراموش، بدلحاظ اور پتہ نہیں کیا کیا ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی ٹیلی فون کالز کے ضائع ہونے کا پہلے ہی ملال تھا میری اس گفتگو کے بعد اور بھی ملال ہوا ہو گا۔ شاکر میں تھک گیا ہوں صبح کے تین بج چکے ہیں۔ خط بہت طویل ہو گیا ہے۔ اب میں سو رہا ہوں۔ باقی باتیں کل ہوں گی۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments