خشک کنواں اور جلتا ہوا گاؤں


Loading

ایک گاؤں تھا۔ چھوٹا سا، پرانا سا، دھول مٹی سے اَٹا ہوا۔ وہاں ایک کنواں تھا جس سے پورا گاؤں پانی لیتا تھا۔ ایک دن کنویں کا پانی خشک ہو گیا۔ لوگ پریشان ہو گئے، لیکن سب اپنے اپنے کام میں لگے رہے۔ کوئی کہتا، ”میرا تو اب شہر میں بندوبست ہو گیا ہے“ ، کوئی بولتا، ”میں تو نلکے سے کام چلا لوں گا“ ۔ لیکن کسی نے بھی کنویں کی مرمت کے لیے ہاتھ نہ بڑھایا۔

پانچ دن بعد بدقسمتی سے گاؤں میں آگ لگ گئی۔ بدحواسی میں لوگ کنویں کی طرف دوڑ کر جاتے پھر انھیں خیال آتا کہ یہ تو خشک ہو چکا ہے۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے آگ بجھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ پورا گاؤں دیکھتے ہی دیکھتے جل کر راکھ بن گیا۔ لوگ روتے رہے اور خود کو کوستے رہے کہ انھوں نے کنویں کو مرمت کروانے کے لئے مشترکہ کوششیں کیوں نہیں کیں، لیکن اب پچھتانے کا فائدہ نہ تھا۔

اسی گاؤں کا ایک بچہ کسی طرح شہر تعلیم حاصل کرنے لگ گیا، غربت اس کے پیچھے سائے کی طرح چمٹی رہی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ واپس اپنے گاؤں جائے گا اور وہاں کے لوگوں کے لیے کچھ کرے گا۔ وہ گیا، قرض پر زمین لی، ٹریکٹر خریدا، گاؤں کے چند نوجوانوں کو اکٹھا کیا اور بولا: ”ہم مل کر ایک زرعی فارم بنائیں گے، تم سب اس کے حصے دار ہو گے، مالک بھی ہو گے اور مزدور بھی۔“ شروع میں لوگ ہنسے، مذاق اڑایا، کچھ نے طعنے دیے، لیکن چند لوگ اس کا ساتھ دینے کو تیار ہو گئے۔ تین سال بعد وہ فارم اُس گاؤں کی سب سے کامیاب زرعی زمین بن چکا تھا۔ مزدور کے بچے اسکول جا رہے تھے، بوڑھے لوگ باعزت زندگی گزار رہے تھے اور ہر شخص اپنے حصے کا مالک تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا: ”تم نے یہ سب کیسے کیا؟“ وہ مسکرایا اور بولا ”میں نے صرف انہیں ایک کنواں یاد دِلایا تھا، جو سب کا تھا، لیکن سب نے اُسے اکیلا چھوڑ دیا تھا۔“ ہم سب اُس گاؤں کے مکین ہیں۔ اور وہ کنواں ”امدادِ باہمی“ ہے۔ جس دن ہم نے اسے نظر انداز کیا، سمجھ لیں ہم سب جل جائیں گے۔ الگ الگ، خاموشی سے۔

دنیا ہر سال جولائی کے پہلے ہفتے ”عالمی یومِ امدادِ باہمی“ مناتی ہے اس سال یہ دن 5 جولائی کو آ رہا ہے لیکن ہم میں سے شاید 99 فیصد لوگ اس دن کے نام سے بھی واقف نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ہم نے سیکھا ہی نہیں کہ دوسروں کے ساتھ مل کر کیسے چلا جاتا ہے۔ ہم نے سیکھا ہی نہیں کہ ترقی صرف تنہا ممکن نہیں بلکہ قافلے کے ساتھ چل کر ہی منزل ملتی ہے۔ ہمیں بچپن سے یہ تو پڑھایا گیا کہ خود کفیل بنو، اپنا سوچو، اپنا راستہ بناؤ، لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اگر سب صرف اپنا سوچیں گے تو معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 12 فیصد سے زیادہ آبادی کسی نہ کسی امداد باہمی کے ادارے کا حصہ ہے۔ دنیا کے 300 بڑے امداد باہمی کے اداروں کی کل آمدنی 2,409 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ تنظیمیں وہ خدمات اور سہولتیں مہیا کرتی ہیں جن کی معاشرے کو ترقی کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ امداد باہمی کے ادارے دنیا بھر میں 28 کروڑ لوگوں کو روزگار یا کام کے مواقع فراہم کرتے ہیں جو کہ دنیا کی کل ورکنگ آبادی کا تقریباً 10 فیصد بنتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اس خواہش کا اظہار کرچکی ہیں کہ صوبے کے تمام کوآپریٹو ادارے اپنے کردار کو مثالی بناتے ہوئے معاشرتی، اقتصادی اور ماحولیاتی فلاح و بہبود میں معاون ثابت ہوں۔ پنجاب حکومت نے زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہاؤسنگ اور دیگر شعبوں میں امداد باہمی کے بہت سے نئے منصوبے شروع کیے ہیں جن سے دیہی خواتین، نوجوان اور غریب عوام مستفید ہو رہے ہیں۔ یومِ امدادِ باہمی کا اصل پیغام یہی ہے کہ اکیلا شخص چل تو سکتا ہے لیکن صرف قافلہ ہی منزل پر پہنچتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے، یہاں غربت کم ہو، نوجوان خود کفیل ہوں، خواتین اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں تو پھر ہمیں امدادِ باہمی کے کنویں کو دوبارہ بھرنا ہو گا۔ ہمیں مل کر ادارے بنانے ہوں گے، فیصلے بانٹنے ہوں گے، منافع بانٹنا ہو گا، اور سب سے بڑھ کر ذمہ داری بانٹنی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments