بکری ذبح کے لیے تیار ہے


Loading

hassan ailya

*سیلاب صرف پانی نہیں بہاتا*۔ وہ اپنے ساتھ کچھ ضمیر، کچھ مستقبل، اور کئی بے نام ہستیوں کو بھی بہا لے جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا موقع بن جاتا ہے جہاں کچھ لوگوں کی چاندی ہو جاتی ہے، حکومتیں عالمی امداد کے لیے کشکول اٹھا لیتی ہیں، اور سیاسی گروہ چوراہوں پر گدائی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ مگر ان سب کے بیچ، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی جیبیں خالی سہی، مگر دل انسانیت کے درد سے لبریز ہوتے ہیں۔

گجر نالہ کے ایک امدادی کیمپ میں، میں نے روزانہ دو سے تین گھنٹے دینا شروع کیے۔ لوگ اپنی بساط کے مطابق چندہ دیتے تھے، اور ایک شخص۔ جس کی حالت خستہ تھی، بال بکھرے ہوئے تھے اور داڑھی کھچڑی ہو چکی تھی۔ روزانہ آ کر اپنی دن بھر کی جمع پونجی اس امدادی ڈبے میں ڈال دیتا۔

ایک دن میں نے سوچا، کیوں نہ اس سے بات کی جائے۔ جیسے ہی میں قریب ہوا، اسٹال پر بیٹھے لڑکوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی: ”سر، یہ پاگل ہے! پتھر بھی مار سکتا ہے۔“

لیکن میں تب تک اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔
اچانک اس نے میری کلائی پکڑ کر سختی سے کہا: ”ایلیا بھائی! آپ یہاں؟“
میرے قدم وہیں رک گئے۔ یہ مجھے جانتا کیسے ہے؟
وہ مجھے گھسیٹ کر قریبی ہوٹل لے آیا۔ بیٹھتے ہی گرج کر آواز دی: ”دو چائے! ایلیا بھائی کے کھاتے میں!“

میں ابھی زبان کھولنے ہی والا تھا کہ وہ بولا: ”میں نجومی نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن تم بھول گئے ہو۔ لگتا ہے پہچانا نہیں؟“

اور پھر ایک مخصوص سی ہنسی۔ وہی ہنسی۔ ۔ ۔ سالوں پرانی۔
”ایک سوٹ!“ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔

وہی شان قصاب جو کھال اتارنے میں ماہر تھا۔ محلے میں اُسے ”ایک سوٹ“ اسی لیے کہا جاتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ ایک ہی سوٹ میں نظر آتا۔

میں نے چائے کی چسکی لی اور پوچھا: ”شان، تم نے اپنی یہ حالت کیوں بنائی ہوئی ہے؟“

اس نے نظریں جھکائیں، پھر آہستہ سے بولا: ”ایلیا بھائی، بس سمجھو سب ہاتھ سے نکل گیا۔ گاؤں سیلاب میں بہہ گیا۔ ماں مجھے کراچی لائی، غازی مزار کے پاس ڈیرے ڈالے۔ ایک دن میری بہن روزینہ غائب ہو گئی۔ ۔ ۔ ماں اسے ڈھونڈنے نکلی، اور وہ بھی نہ لوٹی۔“

اس کی آواز میں سناٹا تھا۔
میں خاموش بیٹھا سنتا رہا۔

اچانک وہ سر اٹھا کر بولا: ”ایلیا بھائی، یاد ہے میرا کام؟ کھال اتارنے میں ماہر تھا، مگر پتہ نہیں کیوں ۔ ۔ ۔ بکری ذبح کرنے کی صدا میرے دل کو لگتی۔ ’بکرا ہو یا بکری، میں ہمیشہ بکری ہی سمجھتا۔‘ “

”ایلیا بھائی، انسان کی جسمانی ضرورتیں بھی ہوتی ہیں۔ بلکہ آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں؟“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ پھر جیسے کوئی بھاری پردہ اٹھا رہا ہو، گویا ہوا: ”جنسی خواہش کو آپ سات پردوں میں چھپا دیں، اس پر پہرے بٹھا دیں، مگر وہ پھر بھی اپنا راستہ تلاش کر لیتی ہے۔ اپنی تسکین کی خاطر انسان کیا کچھ جتن نہیں کرتا! میری بھی ایک آنٹی سے دوستی ہو گئی، اور ہر روز اپنی خواہشات کو پورا کرنے آنٹی کے در پر حاضری دیتا۔“

”ایک دن۔ ۔ ۔ آنٹی نے مجھے کہا، ’پولیس چھاپا پڑنے والا ہے۔ فوراً ایک لڑکی کو کسی فلیٹ پر پہنچا دو۔‘ “

وہ لڑکی خاموش تھی۔ خوفزدہ، دبکی ہوئی۔ آنٹی نے ایڈریس دیا، اور میں نے اسے موٹر سائیکل پر پیچھے بٹھایا۔ راستے میں وہ کچھ نہ بولی۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا:

”تمہارا نام؟“
”روشنی۔ ۔ ۔“ اس نے دھیرے سے جواب دیا۔ ”۔ ۔ ۔مگر لگتا ہے اب یہ نام اندھیرے سے بھرا ہے۔“

جب فلیٹ پر پہنچے، اندر سے ایک عورت نکلی: ”اچھا ہوا وقت پر آ گئے۔ دیکھو بچو، میں باہر سے تالا لگا کر جا رہی ہوں ۔ ۔ ۔ دو گھنٹے کی چھٹی تمہاری!“

چائے میں چینی ملاتے ہوئے شان دھیمے لہجے میں گویا ہوا: ”ایلیا بھائی۔ ۔ ۔ کبھی کبھی، رشتے بظاہر اپنے ہوتے ہیں، مگر ان کے اندر ایک اور ہی چہرہ چھپا ہوتا ہے۔ بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے جیسا۔“

میں نے چونک کر پوچھا، ”کیا مطلب؟“

اس نے سر جھکایا، جیسے لفظوں کا وزن اسے نیچے کھینچ رہا ہو: ”روشنی کو کراچی لانے والی اس کی سگی خالہ تھی۔ گھر والوں سے وعدہ کیا کہ نوکری دلوائے گی۔ ۔ ۔ ماں نے بیٹی اس کے حوالے کر دی۔ اور وہ؟ وہ اسے ایسی جگہ لے آئی جہاں قیمت جسم کی لگتی ہے۔“

میں خاموشی سے سنتا رہا، دل دھک دھک کرتا رہا۔

”روشنی کہتی تھی، اُس کی خالہ نے ہی سکھایا تھا کس گاہک سے کیسے بات کرنی ہے، کب ہنسنا ہے، کب آنکھ جھکانی ہے۔ اور پھر ایک دن۔ ۔ ۔ اس نے اپنی ماں سے رابطہ کیا، تو جواب آیا: ’ہمیں مت فون کیا کرو، لوگ کیا کہیں گے؟‘ “

شان نے نظر اٹھائی۔ ”وہ روشنی نہیں تھی، ایلیا بھائی۔ ۔ ۔ وہ تو اندھیرا تھا، جو خالہ کے وعدوں میں چھپا آیا تھا۔“

اور پھر جیسے کسی خواب سے بیدار ہوتے ہوئے وہ بڑبڑایا: ”جب وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی ’نوچ لو!‘ ۔ ۔ ۔ تو وہ بس اپنی خالہ کی آواز دہرا رہی تھی، جس نے اسے پہلی بار خریدار کے آگے دھکیلا تھا۔“

میں ایک لمحے کو ساکت ہوا۔ روشنی کی چیخیں اور الفاظ میرے ذہن میں گونجنے لگے۔ اس نے کہا تھا:

”میری ماں کی سگی بہن۔ ۔ ۔ خالہ، مجھے یہاں لائی۔ نوکری دلوانے کا وعدہ کیا۔ اور اب کہتی ہے، جسم کی قیمت لگتی ہے یہاں۔ میری بہن پہلے سے ہی اسی لائن میں ہے۔“

وہ اچانک کھڑی ہو گئی، چادر نوچ ڈالی، اور چیخنے لگی:
”نوچ لو! سب نوچ لو! میری بہن بھی بک گئی۔ ۔ ۔ میں بھی بک گئی!“
اور میرے کانوں میں وہی آواز گونج رہی تھی۔ ۔ ۔
”بکری ذبح کے لیے تیار ہے ۔ ۔ ۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments