پَن گَھٹ
موسمِ سرما کا عُروج ہے۔ افراد ٹوپیوں، جیکٹوں اور چادروں کے ذریعے سے سردی کے تابڑ توڑ حملوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سورج نے نورانی شعاعوں کو کِرنوں کی صورت میں بکھیرنا شروع کر دیا۔ شفق کی روشنی ایک خوبصورت باغیچہ پر پڑی؛ وہ باغیچہ جہاں خوبصورت پودے، یاسمن و گلِ لالۂ و گلاب و نسترن کے پھولوں کے ساتھ قصیر، متوسط اور طویل اَشجار کا خطِ اُستوا سیّاحوں کو راحتِ قلب پہنچانے کا سبب ہے۔ باغیچہ کی مشرق کی جانب شُتربانوں کا جَم گَھٹ جبکہ مغرب کی جانب پن گھٹ ہے۔ شمالاً جنوباً سرسبز و شاداب کھیت ہیں ؛ جن میں روشنی کی کرنیں لہروں کی شکل میں آگے بڑھتی ہیں،
اس پَن گھٹ سے علاقہ آبی تشنگی بجھاتا ہے۔ ایک خوب رُو نوجوان، چڑھتی جوانی کا نمائندہ، ابھی مسّیں پھوٹ رہی ہیں، ٹانگیں ٹیڑھی، کہنیوں میں خم، بولنے کی طاقت سے عاجز اور انگلیوں کی شکل قوس سے ملتی جلتی ہے ; تیس سے چالیس برتن بھرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ طاقتِ گُفتار کے مقابلے میں طاقت فہم و ادراک میں ذکی محسوس ہو رہا تھا، باری آتی ہے، ایک ظرف کو دوسرے ظرف کے سہارے کے ساتھ بھرتا ہے ؛ پھر اسے نیچے رکھ کر، اوپر خالی برتن رکھ کر بھر رہا تھا، جو بھر جاتا تو اسے پَن گھٹ کے اَطراف و اَکنَاف میں رکھ دیتا۔ حدّت اور تمازتِ دُرُوں کے سبب پیشانی اور رخسار سے پسینہ ٹَپَک رہا ہے، ہاتھ یوں ہو گئے جیسے ابھی خون بہہ نکلے، اگلی باری کے منتظِر افراد میں سے ایک نے پوچھا:
” کدھر سے؟“
اُسے سمجھ نہ آئی، پھر اس نے ہاتھ کو گھمایا، انگلیوں سے حلقہ بھی بنایا اور اَبروؤں کی حرکت سے اشارہ کیا، تو اُس نے شَہَادت والی انگلی سے شمالی جانب والے گاؤں کی طرف اشارہ کیا۔
نام کے متعلق پوچھنے کے لیے اس نے ہاتھ کو ذات کی طرف بڑھا کر اس کی ذات کی طرف اشارہ کیا:
”عا۔ لِ۔ ای“
ہاتھ کو سر سے بلند کر کے پوچھا اور ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے دو انگلیوں کا اشارہ بھی کیا مگر وہ خاموش رہا یعنی والدین کے سایہ سے محرومی کی علامت اس کی خاموشی تھی۔
ہاتھ کو چھاتی سے نیچے تک لے جا کر بہن بھائیوں کے متعلق پوچھا؟
نمکین عرق چشمِ بصارت سے نکلنا شروع ہو گیا، اس نے ساتھ ہی چار انگلیوں کا اشارہ کیا، لوگ دیکھ رہے تھے، ہیجان برپا تھا۔
ڈرموں کی جانب اشارہ کیا گیا تاکہ معاوضہ دریافت کیا جا سکے، تو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کھول کر پھر ایک مٹّھی کو بند کر لیا، یعنی پندرہ روپے کا ایک ظرف بھرتا ہے۔ پندرہ روپے قیمت ہے، بھرتا علی تھا مگر وہ اٹھا نہیں سکتا تھا، معذوری کے سبب، تو ایک اور شخص اسے رکشے پر رکھتا جو اب سگریٹ کے کَش لگانے میں مصروف تھا، رکشے والے نے بتایا کہ میں ٹبّوں کو گاؤں سے اکٹھا کرتا ہوں، رکشے میں رکھتا ہوں ؛ پھر بھرے ہوؤں کو اُن کے مقام تک پہنچاتا ہوں، پچاس فیصد لیتا ہوں یعنی ہر ظرف کے بدلے ساڑھے سات روپے، جتنے روپے رکشے والے کے لیے اتنے ہی علی کے لیے۔ تیس باسِنوں (برتنوں ) کے دو سو پچیس روپے ایک کے لیے اور دو سو پچیس روپے ایک کے لیے۔
ان دنوں سیاست کا زور تھا در و دیوار اشتہارات سے مزیَّن و آراستہ تھے، ہر گھر کے باہر اتنے اشتہارات کے اصل دیوار تو نظر ہی نہ آتی، مختلف سیاسی جماعتوں کے کارِندے اور ہرکارے بھی ووٹ مانگنے اور عوام کو بہکانے کے لیے تشریف لا رہے ہیں، ہر جماعت والے اپنا منشور پیش کرتے حالانکہ اشتہارات سے منشور کا اظہار پہلے ہو چکا ہوتا ہے، لوگوں کو سبز باغ دکھا کر جودھ پور کا قاضی بنایا جا رہا ہے، سہولیات دینے کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے، ہر سیاست دان سٹیج پر منفرد و جدا سین یا منظر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ساتھ یہ یاد بھی دلا رہا ہے ؛ پہلے میں نے آپ کے لیے یہ کِیا! اب کَیا کروں گا؟ سیاسی جنون عوام کو گھروں سے بیزار کر رہا ہے، نظریات کو اعلیٰ ظرفی سے قبول کرنے کا رجحان ختم ہو رہا ہے، مختلف و متنوّع نظریات کا ہونا ہندوستان کی پہچان و خوبصورتی تھی یہی نو آبادیاتی ہتھکنڈے کے سبب یہاں کے لوگوں کی کمزوری بن گئی۔
علی پہلے ہر روز پن گَھٹ پر آتا اب ایک روز چھوڑ کر آیا، ادھر سے کمپین آب و تاب سے جاری ہے، وہ بھی اب پہلے سے بَھَلا لگ رہا ہے۔ سیاسی ریلیوں میں شمولیّت کر رہا ہے، سیاست کی چہَل پہَل سے شہرِ خَموشاں شہر گویاں بن گیا ہے۔ ان افراد کی فریب کاری کی شکنجے میں علی بھی آ چکا، زَر کی فراوانی اتنی ہوئی کہ الیکشن ہونے سے ہفتہ پہلے سے لے کر ہفتہ بعد تک پن گھٹ خالی رہا، شاید پانی بھی من و سلویٰ کی صورت میں اترتا رہا۔ علی کیا کوئی بھی پانی بھرنے کے لیے نہیں آیا، وہ مقام جو تشنگی بجھانے اور زیست کو سکون پہنچانے کا سبب تھا اب خود تشنہ و خشک ہوا جا رہا تھا۔ پانی بھرتے وقت جو پانی ڈرموں کے سوراخ میں نہ جاتا یا مکمل بھر جانے کے بعد باہر نکلتا؛ وہی باغیچے کی آبیاری تھی بلکہ آبداری تھی، باغیچہ بھی مرجھا سا گیا، سرسبز و شاداب مقام سے خس و خاشاک، پھولوں کی جگہ خار اور یاسمن و گلِ لالہ کی جگہ خشک اور خمیدہ و کاہیدہ پھول ملتے، باغیچے سے لعل و گوہر و زمرّد جیسی نزاکتوں کا قلع قمع ہو گیا، جس کی نِکہَت کی مہک سے جہاں معطّر تھا، کم ہو گئی۔ غنچوں نے چَٹَکنَا چھوڑ دیا، پھولوں کی رعنائی، جناں میں چمن، چمن میں سَمن اور سمن میں پَھبن ختم ہو چکی، الیکشن ہو گئے۔ حکومتوں کا انتخاب ہو گیا، وَزارتوں پر اَربابِ اقتدار براجمان ہو گئے، ملک کے بڑے دماغوں نے روایات و اقدارِ قدیمہ کو برقرار رکھتے ہوئے اس بار بھی خوبصورت آنگن کو گورکھ دھندا بنا دیا، صبح کا سورج طلوع ہوا؛ سورج کی سرخی مائل ٹِکیَہ روشنی بکھیرتی ہوئی مشرق سے مغرب کی جانب نیلگوں آسمان میں سفر کر رہی ہے، وہی باغیچہ ہے، وہی افراد ہیں، وہی پن گھٹ ہے، ایک جانب چھکڑا بھی کھڑا ہے، رکشے والا سگریٹ لگا رہا ہے، علی آج پھر تیس کُوزوں کے ساتھ پانی بھرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔
- جوانوں کو پیروں کا استاد کر - 09/07/2025
- پَن گَھٹ - 03/07/2025
- شیر دریا :ایک تجزیاتی مطالعہ - 01/07/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).