جاٹوں کا عروج اور دہلی پر ان کا قبضہ


Loading

(میں نے بھارت کے سفر 1999 ء کے دوران جو دیکھا، جو سنا، جو سمجھا، اس کا ذکر)

ایک زمانہ تھا جب مغلیہ سلطنت کا سکہ چلتا تھا اور بھرت پور کے جاٹ اُن کے ظلم و ستم کا شکار تھے۔ پھر وقت نے کروٹ لی، اور 1753 ء میں مہاراجہ سورج مل نے دہلی پر حملہ کر دیا۔ اُس نے دہلی کے نواب، غازی الدین، کو شکست دی اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ اب دہلی اور اہلِ دہلی مہاراجہ سورج مل کے رحم و کرم پر تھے۔ جاٹ اپنے پرانے حساب چکا رہے تھے۔

1526 ء سے لے کر اُس وقت تک، یعنی تقریباً سوا دو سو سال، سوائے شیرشاہ سوری کے کسی مقامی سردار کو دہلی کو اپنے قدموں تلے روندنے کی جرات نہ ہوئی تھی۔ جو بھی مقامی سردار دہلی آیا، وہ مغلیہ سلطنت کی اطاعت کے ساتھ ہی آیا۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ مغل بادشاہ مہاراجہ سورج مل جاٹ کے رحم و کرم پر تھے۔

شاہی فوج اپنے آقاؤں کا تحفظ نہ کر سکی، اور بعد ازاں فیروز شاہ کوٹلہ پر بھی جاٹوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس دوران ایک افغان سردار، نجیب الدولہ روہیلا، مغلوں کی مدد کے لیے آیا، مگر وہ زخمی ہوا اور اُس کے سینکڑوں سپاہی مارے گئے۔ مغلوں کی درخواست پر مراٹھے ان کی مدد کو آئے اور ایک غیرملکی سلطنت کی حفاظت کے لیے جانیں دینے لگے۔ لیکن اس بار ان کا سامنا مہاراجہ سورج مل جاٹ سے تھا، جس نے انہیں بھی عبرتناک شکست دی۔

اس کشمکش میں راجپوت راجاؤں نے بھی ”نمک کا حق“ ادا کیا۔ جنگ کے دوران کھانڈے راؤ ہولکر کا اکلوتا بیٹا، ملہار راؤ، جب اپنی فوجوں کا معائنہ کر رہا تھا، تو ایک جاٹ سپاہی نے حملہ کر کے اسے ہلاک کر دیا۔ اس واقعے سے ملہار راؤ کو شدید صدمہ پہنچا، اور کہا جاتا ہے کہ اُس نے قسم کھائی کہ وہ مہاراجہ سورج مل کا سر کاٹ کر جمنا میں پھینکے گا، لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔

ایک طرف مراٹھوں کا دباؤ تھا، تو دوسری طرف مغل، ہولکر راجپوت اور دیگر سردار مل کر مہاراجہ سورج مل کے خلاف نبرد آزما تھے۔ اس نازک صورتحال میں کوئی اور مقامی حکمران سورج مل کی مدد کو تیار نہ تھا، مگر وہ سب پر بھاری ثابت ہوا۔ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے، ہولکر، راجپوت، مراٹھے اور حتیٰ کہ مغل بھی سورج مل سے صلح پر آمادہ ہو گئے۔

یوں مہاراجہ سورج مل جاٹ نے تاریخ میں ایک ایسے بہادر جنگجو کے طور پر اپنا نام رقم کیا، جس نے نہ صرف کسی دوسرے خطے میں دشمن کو شکست دی، بلکہ اس کے اتحادیوں کو بھی زیر کر دیا۔ اس فتح کے بعد مراٹھوں اور راجپوتوں کو شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سب مغلیہ سلطنت کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، لیکن وہ ایک ایسی ریاست سے ہارے جس کا قیام پچاس سال سے بھی کم عرصہ پہلے ہوا تھا اور جسے کوئی قابلِ ذکر اتحادی حاصل نہ تھا۔ یہ معاہدہ مہاراجہ سورج مل کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوا، اور وہ ایک معتبر سیاسی و عسکری طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔

جاٹ اور ابدالی آمنے سامنے

وقت نے ایک بار پھر کروٹ لی۔ مراٹھوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مغلیہ سلطنت میں اب کوئی دم خم باقی نہ رہا تھا۔ مغلوں نے اپنے وقت کے نامور علما کے توسط سے احمد شاہ ابدالی سے مدد طلب کی۔ اس کے نتیجے میں پانی پت کی تیسری جنگ ہوئی، جس میں افغان فوج نے مراٹھوں کو سخت شکست دی۔ شکست کے بعد ایک لاکھ مراٹھے بھاگ کر بھرت پور پہنچ گئے۔

اس موقع پر مہاراجہ سورج مل جاٹ نے تمام پرانی دشمنیوں کو فراموش کر کے ان مراٹھوں کی خدمت کی۔ مہاراجہ سورج مل اور مہارانی کشوری نے ان کی پرتپاک مہمان نوازی کی اور ہر ممکن آرام پہنچانے کے لیے دل کھول کر خرچ کیا۔ یہ سب کچھ مراٹھوں کے لیے حیرت کا باعث تھا۔

یہ صورتحال دیکھ کر احمد شاہ ابدالی نے مہاراجہ سورج مل کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جنگ سے قبل اس نے سورج مل سے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا، اور انکار کی صورت میں جنگ کی دھمکی دی۔ سورج مل نے مطالبہ مسترد کرتے ہوئے جنگ کا عزم ظاہر کیا۔ چنانچہ ابدالی نے سورج مل کے قلعے ”ڈیگ“ پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔

اس دوران سورج مل نہ صرف مراٹھوں بلکہ ہولکر خاندان کو بھی اپنا حامی بنا چکا تھا۔ اسی سیاسی بصیرت کی بنیاد پر مہاراجہ سورج مل کو ”جاٹوں کا افلاطون“ کہا جاتا ہے۔

سورج مل اور ابدالی کی خط و کتابت

اس کشمکش کے دوران ابدالی اور سورج مل کے درمیان ایک دلچسپ خط کتابت بھی ہوئی۔ ابدالی نے سورج مل کو ایک دھمکی آمیز خط بھیجا، جس میں لکھا تھا کہ اگر وہ اطاعت قبول نہیں کرتا تو اُسے تباہ کر دیا جائے گا۔

یہ جاٹ قوم کا ایک بڑا امتحان تھا۔ ان کے مقابل ایک ایسا فاتح کھڑا تھا جو چوتھی بار ہندوستان آیا تھا اور ابھی حال ہی میں مراٹھوں کی ایک بڑی فوج کو بری طرح شکست دے چکا تھا۔ مگر جاٹوں نے اس سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔

مہاراجہ سورج مل نے ابدالی کو ایک طنز سے بھرپور اور جرات آمیز جواب دیا۔ میں نے یہ خط خود پڑھا ہے۔ اس کا ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

”ہندوستان کی سلطنت میں میرا کوئی اہم مقام نہیں، میں صحرا میں بسنے والے معمولی حکمرانوں میں سے ہوں۔ میری نالائقی کا یہ عالم ہے کہ اب تک کسی شہنشاہ نے میرے معاملات میں مداخلت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اگر آپ جیسا عظیم بادشاہ جنگ کے میدان میں میرے خلاف فوج لاتا ہے، تو یہ آپ کے لیے باعثِ توہین اور میرے لیے باعثِ فخر ہو گا۔ میں آج تک کوئی جنگ نہیں ہارا اور یہ جنگ بھی نہیں ہاروں گا۔ اگر آپ سے جیت گیا تو تاریخ مجھے امر کر دے گی۔“

اس خط کے بعد حالات کچھ یوں بنے کہ ابدالی اور سورج مل کے درمیان کوئی باقاعدہ جنگ نہ ہو سکی۔ میرے خیال میں اس میں سورج مل کی معاملہ فہمی کا بڑا دخل تھا۔ اس نے جنگ کیے بغیر ہی بہت کچھ حاصل کر لیا۔

آگرہ قلعہ پر قبضہ کرنے والا پہلا جاٹ حکمران

بھرت پور، آگرہ سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مغلیہ دور میں آگرہ ہندوستان کا سب سے امیر شہر تھا۔ مہاراجہ سورج مل نے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے آگرہ کے قلعے پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

پہلے اُس نے چار ہزار جاٹ فوجیوں پر مشتمل دستہ روانہ کیا اور بعد ازاں خود بھی میدانِ جنگ میں آ گیا۔ 1761 ء میں اُس نے نہایت آسانی سے آگرہ کا قلعہ فتح کر لیا۔ اس کی وفات کے بعد 1774 ء تک یہ قلعہ بھرت پور کے حکمرانوں کے قبضے میں رہا۔

مہاراجہ سورج مل کے بعد ، مہاراجہ جوہر سنگھ، مہاراجہ رتن سنگھ اور مہاراجہ نہال سنگھ یہاں مقیم رہے۔ آگرہ کے قلعے میں آج بھی مہاراجہ نہال سنگھ کے نام سے ایک تاریخی حویلی موجود ہے، جو میں نے اپنے دورہ قلعہ آگرہ کے دوران دیکھی۔ یہاں مہاراجہ جوہر سنگھ کی ایک ”چھتری“ (مقبرہ نما یادگار) بھی موجود ہے۔

فرخ نگر پر جاٹ حملہ

مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ دہلی کے جنوب مغرب میں پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک قصبے ”فرخ نگر“ پر اس وقت ایک بلوچ سردار موسوی خان کی حکمرانی تھی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بلوچ بھی طاقت میں کسی سے کم نہ تھے۔ مجھے علم نہ ہو سکا کہ یہ بلوچ کہاں سے آئے تھے، مگر میرا اندازہ ہے کہ یہ ایرانی بلوچ تھے۔

مہاراجہ سورج مل نے اس علاقے کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے اس پر حملہ کیا اور سردار کو اطاعت پر مجبور کر دیا۔ موسوی خان نے ہتھیار ڈالنے کے لیے ایک منفرد شرط رکھی: مہاراجہ گنگا کا پانی ہاتھ میں لے کر معاہدے کی پاسداری کا اعلان کرے۔ مہاراجہ نے ایسا ہی کیا، اور موسوی خان کو قیدی بنا کر بھرت پور روانہ کر دیا گیا۔

اس فتح کے نتیجے میں فرخ نگر کا قلعہ اور اس میں موجود دولت جاٹوں کے ہاتھ آئی۔ گڑھی ہرسو، ریواڑی اور روہتک جیسے علاقے پہلے ہی سورج مل کے زیرِ تسلط تھے۔

اس کے بعد سورج مل نے دہلی کے مغرب میں بیس کلومیٹر دور ایک اور مضبوط بلوچ قلعے پر حملہ کیا، جس کا سردار بہادر خان تھا۔ بہادر خان نے نجیب الدولہ سے مدد کی اپیل کی، مگر وہ مسترد کر دی گئی۔

جاٹوں کا عروج

اٹھارہویں صدی کی ساتویں دہائی تک مہاراجہ سورج مل کا اقتدار ایک بڑے علاقے پر قائم تھا۔ اُس وقت کوئی بھی اس کے مد مقابل نہ تھا۔ یہ جاٹوں کے عروج کا وہ زمانہ تھا، جو اس سے پہلے انہیں کبھی میسر نہ آیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments