تنہا۔ سابق مشرقی پاکستان پر لکھا گیا اثر انگیز ناول۔ قسط نمبر 15
چلتے چلتے وہ رک گیا۔ جھک کر نگاہ اس نے اپنے پاؤں پر ڈالی۔ آج یہ کچھ زیادہ ہی گندے ہور ہے تھے۔ پیچھے خالی دھان کے پانی سے بھرے کھیتوں سے جو گزر آیا تھا۔ باڑی (مکان) اب قریب ہی تھی۔ بائیں ہاتھ میں پکڑی جوتے کی جوڑی دیکھ کر اس کا خوشگوار موڈ ایک ہی دم خراب ہو گیا۔ جُو کے کنارے بیٹھ کروہ غصے سے خود سے بولا:
اتنے سالوں کا ہو گیا تو ڈھنگ کا جوتا کبھی نصیب نہ ہوا! ”اب جو شامت اعمال سے میرے اس عقل مند بابا نے ڈھاکہ سے یہ میرے لئے بھیج دیا تو دادو چاہتے ہیں کہ اس خشک موسم میں میں اسے پہن کر سکول ضرور جاؤں، اب یہ انہیں کون سمجھائے کہ صاحب راستے سے باریسال تک آنے جانے کا یہ دس کوس کا پینڈا، اس لوہے جیسی کھال والے جوتے کو پہن کر طے کرنا ہرگز ممکن نہیں۔ پاؤں کٹوانے ہیں کیا مجھے اپنے اچھے بھلے؟ کچھ کہو تو کہتے ہیں۔
”پہنو گے تو ٹھیک ہو جائے گا۔“
میں کہتا ہوں آدھ پاؤ تیل پی کر تو یہ ٹھیک نہ ہوا، میرے پاؤں اسے خاک ٹھیک کریں گے۔ غصہ آتا ہے مجھے اپنے بابا پر، ساری عمر پیچھے میرے لئے جو ایک چیز بھیجی ہی بھیجی تو وہ بھی ایسی کہ جی چاہے اٹھا کر پوکھر میں پھینک دے۔ ”
بڑبڑ کرتے ندی کے پانی سے اس نے منہ ہاتھ دھویا، جی بھر کر پانی پیا۔ پاؤں دھوئے اور جوتا پہن کر اپنے چاروں طرف دیکھا۔ دھوپ کی شدت ابھی تک ویسے ہی تھی۔ نیلے آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہ تھا۔
” یہ دن بڑے سخت ہیں۔ پیدل چلنا تو اور بھی تکلیف دہ ہے۔ جُو کا پانی بھی ان دنوں گہرا نہیں ہوتا کہ انسان نوکا ہی چلا لے۔ یوں یہ بات بھی ہے کہ ان دنوں میں ٹانگیں چلتی ہیں اور بقیہ دنوں میں بازو۔ اب بارشیں ہونے والی ہیں۔ تب ہر سو پانی ہی پانی نظر آئے گا۔ جل تھل ہو گا۔ سیلاب آئیں گے۔ ساحلی لوگ اور ان کی باشائیں بہہ جائیں گی۔“
وہ چلتے چلتے یہ سب سوچ رہا تھا۔ اس کی ٹخنوں سے کہیں اونچی ملگجی دھوتی کے نیچے اب سیاہ بوٹ آ گئے تھے۔
اور جب وہ اپنے پوکھر کے اوپر سے گزرتے ہوئے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے سوچا دادو کو جب میں بتاؤں گا کہ میری تقریر کتنی کامیاب رہی تو وہ کتنے خوش ہوں گے۔ وہ اندر آیا۔ اس نے دادو کو آداب کیا۔ پر وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ دادو اپنی وہ خاص اکلوتی دھوتی اور کرتا جو وہ کہیں آنے جانے کے لئے ہی استعمال کرتے ہیں، پہنے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ اس وقت کہاں جانے والے ہیں؟ جبکہ انہوں نے صبح مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔
” تم آج بہت دیر سے آئے ہو۔ میں کب سے تمہاری راہ تک رہا ہوں، اب جلدی سے بھات کھا لو۔ ہم ڈھاکہ چلنے والے ہیں۔“ انہوں نے بجھی بجھی آواز میں کہا۔
”کیوں دادو؟“ وہ گھبرا کر بولا۔ ”آپ وہاں کیوں جا رہے ہیں؟“
”ہر وقت سوال جواب نہیں کرتے، جیسے میں کہہ رہا ہوں ویسے کرو۔“
دادو آج کیسے بول رہے ہیں؟ کتنی تلخی ہے ان کے لہجے میں۔ کیا بابا نے مجھے اپنے پاس بلا لیا ہے جس کی وجہ سے یہ ایسا کہہ رہے ہیں؟ پر ایسی بات تو ممکن نہیں، اس نے یہ سب اپنے دل میں سوچا اور باشا کے پچھلے دروازے سے باہر آیا۔
یہاں وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھیں۔ وہ جو ہمہ وقت کام میں جتی رہتیں اور جب بھی وہ اسکول سے آتا انہیں تیز سبز ساڑھی کا آنچل سر پر ڈالے دھان کوٹتے پاتا۔
وہ پریشان ہوا اور ان کے قریب بیٹھ کر شاکی لہجے میں بولا۔
”دادی ماں! کیا آپ اپنے شلپی کو نہیں بتائیں گی کہ دادو ڈھاکہ کیوں جار ہے ہیں؟ اور آپ اتنی مغموم کیوں ہیں؟“
ان بوڑھی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک فوارہ اُبلا۔ وہ اور زیادہ مضطرب ہوا۔ تب اس نے سنا، دادی ماں کہہ رہی تھیں کہ اس کے بابا کا شہر میں ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ انہیں بہت چوٹیں آئی ہیں اور وہ ہسپتال میں ہیں۔
اس کا معصوم دل سُن سا ہوا۔ اور وہ بے قراری سے ان کے گھٹنے پر جھک گیا۔
ان کی ساری رات لانچ میں انتہائی تکلیف سے گزری۔ صبح دن چڑھے وہ نرائن گنج میں لنگر انداز ہوئے۔ غم اور تھکن نے ان دونوں کو نڈھال کر رکھا تھا اور ابھی انہیں پھر کشتی پر ڈھاکہ کے لئے سوار ہونا تھا۔
جب وہ نواب پور روڈ کے روت کھولا محلے کے اس خستہ حال مکان میں داخل ہوا جہاں اس کی ماں اور بابا رہتے تھے۔ اس وقت تک اسے یہ سمجھ نہ آئی تھی کہ وہ اپنی ماں کا سامنا کیسے کرے گا۔
تب تنگ و تاریک گھر کے ایک کمرے سے وہ نکلی۔ جس کی پیلی ساڑھی گندی تھی، جس کے گھٹنوں تک لانبے بال رسیوں کی طرح بٹے اس کے آنچل سے نیچے لٹک رہے تھے۔ خوبصورت آنکھیں بے نور تھیں۔ رنگت پیلی پڑی تھی۔ وہ اس معمر آدمی کے قدموں میں جھکی اور ان کے پاؤں کو چھوا۔ جو کہنے کو اس کا سسر تھا پر جن کی شفقت میں اس نے ہمیشہ پدرانہ محبت پائی۔ یہ اس کی ماں تھی۔ نیم تاریک صحن میں کھڑا وہ ایک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کا دل اندر ہی اندر گھٹا جا رہا تھا۔ اس کی ماں باریسال کی حسین عورتوں میں سے ایک تھی جسے اس کے بابا نے ٹوٹ کر پسند کیا تھا۔ دادی ماں اکثر اسے بتایا کرتیں کہ تمہاری ماں تو بہت اونچے گھرانے کی بیٹی ہے۔ تمہارے بابا نے جب مجھے بتایا تو میں نے سوچا کہ یہ رشتہ کیونکر ہو گا؟ ہم لوگ تو ان کے پاسنگ بھی نہیں، بھلا ہم جیسوں کو وہ اپنی اتنی لاڈلی اکلوتی بیٹی کیسے دیں گے؟ پر بہو کے والدین نے تمہارے دادا کی علمیت کی قدر کی اور بہو تو بالکل فرشتہ ہے۔ دیکھو تو! اپنے گھر میں کیسی تنگی سے گزر کر رہی ہے۔
وہ دادی ماں کی یہ باتیں اکثر سنتا اور بہت کم ان پر کان دھرتا۔ اسے تو اپنی ماں بس اس حد تک ہی یاد رہتی تھی۔ صاف ستھری اجلی ساڑھی والی جس کے شانوں پر لانبے بالوں کا بھاری سا جوڑا پڑا رہتا اور جو آنکھوں میں بہت نفاست سے کاجل لگاتی تھی۔ جب بھی وہ ان کے پاس رہنے کے لئے آتا تو وہ اسے بھی ہمیشہ صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرتیں۔
اور یہ اس کی وہی ماں تھی۔ جس کی ساڑھی گندی تھی، جس کے بال بکھرے تھے، جس کی آنکھوں میں کاجل کی دھاریاں نہ تھیں اور جب وہ اس کے پاؤں چھونے کے لئے جھکا تو جانے کیا ہوا۔ اس کی چیخیں نکل گئیں۔ شاید ماں کو اُسی کا انتظار تھا۔ تبھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ دادو نے رندھی آواز میں انہیں خاموش کروایا۔ تین سالہ فخر الرحمٰن کو دادو نے گود میں اٹھاتے ہوئے اس کے بابا کے بارے میں دریافت کیا، ماں نے انہیں بتایا کہ اب خطرے سے حالت باہر ہے۔
اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو پیار کرتے ہوئے سوچا۔ یہ اس سے کتنا چھوٹا ہے؟ گھر اس بار اس کے چچا سے خالی تھا۔ وہ پچھمی پاکستان میں کیڈٹ کی ٹریننگ جو لے رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ ڈھاکہ میڈیکل ہسپتال جانے لگے تو اس نے دیکھا کہ ماں اسی حلیے میں جانے کے لئے تیار کھڑی ہے تو کیا حالات کا یہ کڑا موڑ میری اتنی نفیس مزاج ماں کو یوں تباہ کر دے گا کہ اسے اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہ رہے گا۔ اس نے دکھ سے یہ سب سوچا اور آگے بڑھا۔ ماں کے شانے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کی چمک سے خالی آنکھوں میں جھانکا۔
”ماں آپ ساڑھی بدلیں، بالوں میں کنگھی کریں۔“
اس نے کپکپاتے ہونٹوں سے کہا۔
”شلپی!“ ماں نے سسکی بھری۔
”ہاں ماں! اس حال میں آپ کو دیکھ کر میرا کلیجہ کٹ رہا ہے۔“
دادو کی آنکھیں بھر آئیں۔ تب ماں نے سرخ کنارے والی سفید ابرق لگی ساڑھی پہنی۔ بالوں کو سلجھا کر جوڑا بنایا۔ یہ سب کرتے ہوئے اس کا دل کئی بار ڈوبا کہ وہ جانے ہسپتال کس حال میں ہو جس سے اس کے جیون کی ہر خوشی وابستہ ہے۔
اور جب وہ باہر نکلی، اس نے دیکھا کہ اس کے دروازے کے عین سامنے کھڑا وہ سفید بالوں والا ناتواں بوڑھا جس کے درد بھرے گیت وہ گھنٹوں سنا کرتی، اپنی پرسوز آواز میں اکتارہ پر نقشی ”کتھا ماٹھ“ کی ہیروئن ”روپا“ کے ہجر کی داستان گا رہا ہے۔
جانے کیوں اس کا جی چاہا۔ اس کا اکتارہ چھین لے، اس کے منہ کو بند کر دے کہ اس سے کوئی آواز نہ نکلنے پائے۔
”یہ آواز کیسے میرا جگر چیر گئی۔ اے اللہ، یہ درد یہ سسک تو مجھے نہ دیجیو کہ میں نے دنیا میں ابھی کچھ نہیں دیکھا۔“
سوچ نے اس کا حلق کڑوا کر دیا اور آنکھوں میں امنڈی ڈھیر ساری نمی اس نے بہت مشکل سے واپس لوٹائی۔
(جاری ہے )
- تنہا۔ سابق مشرقی پاکستان پر لکھا گیا اثر انگیز ناول۔ قسط نمبر 15 - 05/07/2025
- تنہا: سابق مشرقی پاکستان پر لکھا گیا ناول (14) - 03/07/2025
- رخشندہ نوید اپنی شاعری کے آئینے میں - 02/07/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).