کرکٹ اور دولے شاہ کے چوہے


جم کالنز نے 2001 میں اپنی مشہور کتاب لکھی، جس کا نام ہے Good to Great۔ کتاب کا موضوع ہے وہ محرکات جن کی وجہ سے اچھے کاروباری ادارے مزید ترقی کر کے عظیم اداروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ریسرچ کے بعد، جم کالنز نے سات ایسی حکمت عملیاں بتائیں جن پر عمل کر کے ادارے عظیم تر ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک تھا پانچویں درجے کی قیادت یا پانچویں درجے پر فائز قائدانہ صلاحیت کی موجودگی۔ کالنز کے مطابق اس قیادت میں ظاہری جوش و خروش کم ہوتا ہے مگر وہ ہٹ کا پکا، محنتی اور آہنی اعصاب کا مالک ہوتا ہے۔ کامیابی کا کریڈٹ دوسروں کو دینے اور ناکامیوں کی ذمہ داری خود قبول کرنے والا۔ اس لیڈر کی شخصیت دھیمی اور عاجز ہوتی ہے۔ جم کالنز کی یہ کتاب لیڈرشپ لٹریچر میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ کاروباری دنیا میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں جیسے وارن بوفیٹ، بل گیٹس وغیرہ۔ کھیل کی دنیا میں بھی ہمارے مصباح الحق، سری لنکا کے ارجنا راناٹنگا اور بھارت کے مہندر سنگھ دھونی لگ بھگ ایسی ہی شخصیات ہیں۔
پاکستان نے کل شب ویسٹ انڈیز کو ہرا کر تین میچز کی سیریز 2-1 سے جیت لی۔ مبارک! لیکن آج بات کرکٹ کی نہیں کرنی۔ موضوع ایک قومی علت ہے، جو کہ ہر جگہ نظر آتی ہے۔ ہمیں جنون کی حد تک شوق ہے چھوٹے چھوٹے حربوں سے دوسروں پر نفسیاتی برتری حاصل کرنے کا۔ یہ حربے کئی جگہ دکھتے ہیں۔ کرکٹ فیلڈ بھی اِن میں سے ایک ہے۔ وہ ساتھی بیٹسمین کی سنچری پر اس کے ہیلمٹ پر مربیانا انداز میں تھپتھپاتا ہوا ’سینئیر‘ ہو یا فاسٹ باﺅلر کو ہر گیند کے بعد نیا مشورہ دینے میں مصروف دکھائی دیتا ایساکپتان، جس نے خود کبھی فاسٹ باﺅلنگ نہ کی ہو۔ یا پھر فیلڈر کو ڈانٹنے کے شوق میں رن آوٹ چھوڑتا وکٹ کیپر۔
اگر ہم کرکٹ فیلڈ سے باہر آئیں تو یہاں بھی کافی ورائٹی ہے۔ لجلجے ہاتھ یا انگلیوں سے مصافحہ کرتا، آپ کو بغیر کسی بے تکلفی کے ’تم‘ یا ’تو‘ کہہ کر مخاطب کرنے والا یا پھر سرپرستانہ انداز میں’اور بھئی ٹھیک ہو۔ بال بچے ٹھیک ہیں؟‘ پوچھتا ہوا کوئی خود عدم تحفظ کا شکار۔ یہ تو کافی واضح مثالیں ہیں۔ ان میں ڈھکے چھپے حربے زیادہ دلچسپ ہیں۔ آپ کے کئی کولیگ، جو آپ کے مینیجر بھی نہیں، آپ کو آج شاباشی دیں گے، تا کہ کل آپ کی کلاس لے سکیں۔ یا ایک ایسا مینیجر جو اپنی ٹیم کے کسی فرد کو’اپنا بچہ‘ کے لقب سے نوازے۔ بے شک اس غریب ’بچے‘ کے اپنے بچے مینیجر صاحب سے بڑے ہیں۔ آپ یقین نہیں کریں گے، ہمارے ایک دفتری ساتھی اس بات پر ہم سے ناراض ہوئے اور ای میل کا جواب نہیں دیا کہ ہم نے انھیں ای میل میں اسم گرامی کے ساتھ’ صاحب‘ سے مخاطب نہیں کیا۔
شاید یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ ہم میں سے جو قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، وہ ان افراد کی نقالی کرتے ہیں جنہیں وہ آئیڈیل خیال کرتے ہیں۔ کرشماتی ٹائپ کی چکا چوند قیادت۔ یا پھر اپنی شخصیت میں کسی کمی کو شور غل سے مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، یہ حق بہرحال نہیں دلاتی کسی بھلے چنگے انسان کو دولے شاہ کا چوہا بنا یا جائے۔ انسان آزاد پیدا ہوا، اسے آزاد رہنا چاہئے۔ کوئی اس کو اپنے بس میں کیوں کرے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا، ہم دھوکہ کرتے نہیں ہیں، لیکن اس کی سب شکلوں سے واقف ہیں۔ ہم عامیوں کے لیے دھوکے کی سب اشکال سے واقفیت آسان تو نہیں، لیکن کوشش تو کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).