سپریم کورٹ کے ٹِکر نہ چلائیے


 انسان کو کبھی نہ کبھی مشکل صورتحال سے ضرور گزرنا پڑتا ہے، لیکن آپ کسی صورتحال سے کیسے نمٹتے ہیں، اِس کا کوئی طے شدہ فارمولا نہیں۔ بعض لوگ دوسروں کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرتے ہیں اور بعض انفرادی مشاہدات اور تجربوں کو کام میں لاتے ہیں۔ وہ زمانہ بھی ہوا ہوا جب بے یقینی میں راستہ تلاش کرنے کے لئے فارسی غزل گو حافظ شیرازی کے دیوان سے فال نکالی جاتی تھی۔ بندہ ء عاجز نے یہ کام تو نہ کیا، مگر چند نثر پارے ایسے ہیں کہ بے بسی کے عالم میں نیم وا آنکھوں سے جب بھی کتاب کھولی، اپنی مشکل کا فوری حل نظر آ گیا۔ یہ نہ ہو ا تو بھی متن ایسا دلچسپ کہ اُس کی کیفیت میں ڈوب کر طبیعت کا لارجر بینچ زیرِ سماعت آئینی بحران کی سنگینی کو بھول گیا۔ جسٹس ایم آر کیانی، جو ایک زمانے میں ہمارے اجتماعی ضمیر کی آواز بن گئے تھے، ایک ایسے ہی سدا بہار مصنف ہیں۔ جمعہ کے دن کیانی مرحوم کی یاد آئی تو اُس کے پس پردہ میری بے بسی کا بھر پور تاثر کسی ذاتی محرومی کا نتیجہ نہیں تھا۔ درحقیقت اِس کے پیچھے سپریم کورٹ کی ایک دن پہلے کی وہ کارروائی ہے جس پر مبنی سرخیاں اخبارت کی پیشانی پہ کبڈی کھیلتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ حسنِ اتفاق کہ اِس مرتبہ کیانی صاحب کی انگریزی تقریروں کی بجائے اردو کا مجموعہ ’افکارِ پریشاں‘ ہاتھ لگا، جس میں انہوں نے یہ چھوٹی سی کہانی بھی بیان کی ہے کہ ’’ ایک دفعہ جب مَیں سینئر جج تھا تو ایک شخص کا مقدمہ زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے خارج ہوا۔ اُس نے کہا کہ یہ عدالت تو نہ ہوئی۔ مَیں نے تلخی سے جواب دیا ’کون کہتا ہے یہ عدل و انصاف کی جگہ ہے۔ یہ تو کچہری ہے ‘۔ اور آپ یقین جانئیے کہ میری ساری عدالتی زندگی اِسی عدالت اور کچہری میں توازن قائم کرنے میں صرف ہوئی ہے ‘‘۔

عدالت اور کچہری کا فرق آخر ہے کیا؟ اِس سوال پہ کئی زاویوں سے روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ تاہم جورس پروڈنس کے استادوں سے رجوع کریں تو وہ خطِ امتیاز اپنے ہی انداز میں کھینچیں گے۔ ممکن ہے وہ عدالت کو جوڈیشل مائینڈ سیٹ اور کچہری کو ایگزیکٹو مائینڈ سیٹ کی علامت سمجھیں یا یہ کہ ایک کا چلن فطری انصاف سے قریب تر ہوتا ہے اور دوسری کا عدالتی طریق و رواج کے مطابق۔ ایم آر کیانی نے اِس نکتے کی وضاحت بڑے ڈھنگ سے کی تھی۔ کہتے ہیں ’’ ہمارے جج صاحبان اور وکلاء صاحبان قانون میں بہہ جاتے ہیں، اور قانون کا اصل مقصد نہیں دیکھتے کہ عدل اور توازن ہے ‘‘۔ ایک امریکی ماہرِ قانون نے اسی لئے کیانی کی تقریر کے حوالے سے اُن سے اُس ہدایت نامہ کی ایک نقل کی فرمائش کی جو قاضی کے فرائض و کردار کے بارے میں حضرت علیؓ نے حاکمِ مصر کو ارسال کیا تھا۔

پاکستان میں جنرل ایوب خان کے ساتھیوں کو کیانی مرحوم پر اعتراض رہا کہ ایک ایسے شخص کو جو منصبِ قضا پر فائز ہو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ غیر سیاسی موضوعات کو زیرِ بحث لائے اور صدرِ مملکت پر طنز و مزاح کے تیر برسائے۔ ایک ناقد نے تو کہہ دیا کہ اگر ہمت ہے تو عدالت کے عہدہء جلیلہ سے استعفی دیں، اس کے تحفظ سے دست بردار ہوں اور پھر میدان میں آ کر ایک عام شہری کی طرح حکومت سے مخاطب ہوں۔ اِس سوال کا جواب کیانی صاحب نے ریٹائر ہوتے ہی کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ کر دیا تھا کہ ’اِس معاملے میں بڑی دیانتداری سے مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایک جج، خاص طور پر ایک چیف جسٹس کا ہر اُس چیز سے بہت گہرا تعلق ہے جس کی زد قانون کی حکمرانی پر پڑتی ہو‘۔ یہاں تک سب صحیح ہے لیکن، قارئینِ، اب کہانی میں ٹرن آنے لگا ہے۔

کہانی میں ٹرن اِس لئے کہ جسٹس ایم آر کیانی کے دورِ مقبولیت اور ہمارے موجودہ زمانے کے درمیان کچھ نہیں تو پچپن ساٹھ برس کا فاصلہ ہے۔ چنانچہ اِس دوران دنیا جس مواصلاتی انقلاب سے دوچار ہوئی، وہ اعلی عدالتوں کی کارکردگی پر بھی کسی نہ کسی پہلو سے سایہ فگن ہوا۔ مجھے تو کئی سال پہلے لندن سے بوریا بستر باندھ کر وطن واپسی کے فوراً بعد کا وہ واقعہ نہیں بھولتا جب عدالتِ عالیہ کے ایک جج نے ایک اتفاقیہ ملاقات میں اپنے ایک تازہ فیصلے کا ذکر کر کے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ نے اُس پر مبنی خبر اخبار میں دیکھی۔ جب مَیں نے اثبات میں جواب دیا تو کہنے لگے ’’اگر مجھے پتا ہوتا کہ اخبار والا یہی سرخی نکالے گا تو مَیں اِس پوائنٹ پر ایک دو پیرا گراف اور لکھ دیتا‘‘۔ میرے منہ سے نکلا ’سر، خبروں کو چھوڑیں، آپ کا کام بس انصاف کرنا ہے‘۔

نجی سیکٹر میں اُس وقت تک ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ وہ بلا نازل ہوئی تھی جس کا نام ’ٹِکر‘ ہے۔ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ نشریاتی صحافت میں خبر رسانی کا یہ ایک تیز رفتار، آسان اور دلچسپ طریقہ ہے۔ پھر یہ بھی کہ اخبار کے برعکس، ٹی وی پر اختصار کی ضرورت کے تحت، دو ابتدائی سوال ہی خبر کی بنیاد ہوا کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہوا کیا ہے، دوسرے جو کچھ ہوا ہے اُس کی اہمیت کا اشارہ دیں۔ تو اب بتائیے کہ ٹِکر چلانے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ حرج یوں ہے کہ اکثر اوقات سیاق و سباق کے واضح حوالے کے بغیر، جسے انگریزی میں ’کانٹیکسٹ ‘ کہیں گے، خبر کی اہمیت اجاگر ہی نہیں ہو سکتی۔

 تو پھر ہر ٹِکر میں، جو ہوتا ہی یک سطری ہے، سیاق و سباق کیسے بیان کیا جائے، خصوصاً اُس صورت میں جب ہمارا ٹِکر کسی نازک قانونی نکتہ پہ ہو۔ مجھ سے بڑے یا میرے ہم عمر میری اِس خیال آفرینی کو ذہن پہ بوجھ ڈالے بغیر سمجھ گئے ہوں گے۔ نوجوان چاہیں تو میری انگلی تھام کر راولپنڈی صدر سے پشاور جانے والی سڑک پر واقع ایسٹ پاکستان ہاؤس کا رخ کریں جس کی عمارت کے باہر سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کا بورڈ لگا دیا گیا تھا۔ یہ 1977 ء کا موسمِ بہار ہے اور سپریم کورٹ کے اندر رونقیں لگی ہوئی ہیں۔ وجہ اُس کی یہ کہ نو ستاروں والے پاکستان قومی اتحاد کی انتخابی دھاندلی کے نام پر چلائی گئی تحریک کو دبانے کے لئے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے تین اضلاع میں مارشل لا نافذ کر رکھا ہے اور اِس کے خلاف قومی اتحاد کی عدالتی چارہ جوئی آخری مرحلے پہ ہے۔ سندھ ہائیکورٹ حکومت کے اِس اقدام کو جائز اور لاہور ہائیکورٹ ناجائز قرار دے چکی ہیں اور حتمی فیصلہ سپریم کورٹ میں ہونے والا ہے۔

اِس بڑے بینچ کے اراکین کی کل تعداد زبانی یاد نہیں، لیکن اِس کی سربراہی اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان یعقوب علی خاں کر رہے ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اپیل کی سماعت کرتے ہوئے کسی بھی جج نے تماشائیوں کی توجہ کا مرکز بننے کی کوشش کی ہو۔ ہاں، ایک مرحلے پر جب اٹارنی جنرل یحیی بختیار نے آئین کے آرٹیکل 245 کا حوالہ دیا جس کے تحت سول حکومت کی معاونت کے لئے فوج طلب کی جا سکتی ہے تو سینئر جج شیخ انوار الحق نے ایک چبھتا ہوا سوا ل کیا تھا۔ ’’مسڑ اٹارنی جنرل، کیا یہ معاونت سول حکومت کے بے اختیار ہو جانے کی حد تک بھی ہو سکتی؟‘‘ ’’جناب والا، اگر مَیں اپنے باغیچے میں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی نے آکر مجھ پر مکے برسانے شروع کر دئے جس پر میرے نوکر نے مجھے اُس کی گرفت سے چھڑایا تو کیا نوکر نے میرا اختیار چھین کر مجھے بے اختیار کر دیا ہے؟ جی نہیں‘‘۔ یحیی بختیار کا جواب سن کر جسٹس انوار الحق بھی مخصوص انداز میں سر کو اثبات میں جنبش دئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔ تو کیا اگر اُس روز مجھے اِن دو عدالتی ’جنات‘ کے ڈائیلاگ کا ٹِکر چلانا پڑجاتا تو یک سطری کہانی لکھنا میرے بس کی بات تھی؟ اسی طرح سوچیں کہ اگر سی ایس پی ایسوسی ایشن کے سربراہ کے طور پر جسٹس ایم آر کیانی مرحوم کی اُس طنزیہ تقریر کا ٹِکر چل جاتا تو کیا ہوتا جس پر صدر ایوب کو اسی اجلاس میں کہنا پڑا تھا کہ ’آپ نے اپنی تقریر لکھنے میں خاصی محنت کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ فیصلے بھی اسی محنت سے لکھتے ہوں گے ‘۔ یہ وہی ایوب خان ہیں جن سے ایک خوشگوار ملاقات میں کیانی صاحب نے کہہ دیا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ میری بے ضرر تقریروں کی وجہ سے آپ مجھ سے ناراض ہیں اور اگر نہیں تو میری تقریروں کا پیش لفظ لکھ دیجئے۔ صدر کو ان کی فرمائش ماننا ہی پڑی تھی۔

بشکریہ روز نامہ پاکستان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).