برلن، ہائیڈل برگ اور پھر دریائے نیکر کے کنارے۔۔۔


شہر کے راستے میں کانفرنس آگئی۔

ہیلو سرسید، گڈبائے برلن۔ میرے لیے اُلٹا معاملہ ہوگیا۔

جتنی دیر کانفرنس چلتی رہی، سب ہی کو اپنے اندر سمیٹے رہی۔ جیسے ہم پیغمبر نہ ہوتے ہوئے بھی، مچھلی کے شکم میں تھے۔ صبح سویرے ناشتے کی میز پر، مقالوں کے دوران، کافی کے وقفے میں، رات کے کھانے میں گفتگو کا وہی سلسلہ چلتا رہا۔ بات سے بات نکلتی تھی تو گھوم پھر کر اسی طرف آجاتی تھی۔ مشترکہ دوست، کتابیں، حوالے، اشعار، تحقیق کے نکتے، آئندہ کے منصوبے۔

اور ہر کانفرنس کے اختتام پر وہ پرانی کہانیوں کے آخر میں آنے والے جملے۔ الوداع، خدا حافظ، پھر ملیں گے، ای میل رابطوں کا تبادلہ، جیسے میلہ اجڑنے کا سماں ہے۔ لوگ اپنے اپنے راستوں پر چل دیتے ہیں اور میں سوچتا رہ جاتا ہوں کہ اب کہاں ملاقات ہوگی۔ الوداع میں موت کی سی قطعیت آنے لگتی ہے۔

ان لمحوں کی اداسی کو دور بھی تو کرنا تھا۔ کانفرنس ختم ہوگئی تو میں شہر سے تجدیدِ ملاقات کے لیے نکلا۔

پہلی ہی شام ’’دیسی کرائوڈ‘‘ کے نام۔ جنوبی ہندوستان کا کھانا اس ریستوران کی خاص غذا ہے لیکن یہاں جمع ہونے والے سب پاکستانی۔ ہوٹل کے اہل کار نے آگے بڑھ کر السلام علیکم کہا تو قربت کی وجہ سمجھ میں آگئی۔ کھانا تو اچھا تھا لیکن یہاں کی فضا میں بے تکلفی اور اپنائیت سی تھی جو اس سے بھی زیادہ اچھی لگی۔ میں نے کلمۂ شکر ادا کیا کہ سرور غزالی نے میری بات مان لی اور جلسے سے گریز کیا۔ چند دوست اور ان کے گھر والے بس اتنے ہی لوگ میز کے گرد جمع ہوئے تھے۔ انور ظہیر سے برسوں بعد ملاقات۔ برلن کے پہلے سفر کے وہ دن یاد آگئے جب چند نوجوان طالب علموں سے ان کے ہوسٹل میں ملا تھا۔ تب وہ قدم جمانے کی کوشش کررہے تھے۔ اب وہ تجربہ کار اور یہاں اعتبار و حیثیت والے لوگ ہیں۔ لیکن ان کا خلوص اور اپنائیت اسی طرح ہے۔

سرور غزالی بہت اصرار کرکے ایک نوجوان دوست کے گھر لے گئے جو پڑھ بھی رہا ہے اور ایف ایم ریڈیو کی نشریات کے لیے محنت بھی کررہا ہے۔ سرور غزالی نے بہت عالمانہ تبحّر کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوال پوچھے، میں نے الٹے سیدھے جواب دیے۔ لیجیے صاحب، میرا انٹرویو بھی ہو گیا۔ پھر سُنا کہ وہ گفتگو لائیواسٹرمنگ کے ذریعے نشر ہوگئی، اور میں سوچتا رہ گیا کہ لائیو اسٹرمنگ کو اقبال کی زبان میں زندہ رود کہا جاسکتا ہے؟ فیس بک پر کمنٹس آتے رہیں، وطن سے دور رہنے والے لوگ اکٹھا ہو جائیں تو گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ رات دیر گئے تک باتیں ہوتی رہیں جیسے ہماری یادیں الگ الگ تھیں لیکن درد مشترک۔ پھر خیال آیا کہ صبح سویرے نکلنا ہے۔

آخری دن کے بعد بھی ناشتے کی میز پر اجتماع ہوگیا۔ میکس اپنی بیوی کے ساتھ یہاں چند دن اور رہے گا۔ رخشندہ اور ان کے شوہر آج کے دن شہر میں ہیں۔ ڈیوڈ کی چند گھنٹوں بعد فلائٹ ہے۔ ایک بار پھر شکریہ اور الوداع۔ میں اب شہر کی سڑکوں پر رواں دواں ہوں، ان سے رابطہ بحال کرنا چاہ رہا  ہوں۔ دیکھتا ہوں کہ پرانا ماجرا کتنا یاد ہے اور آنکھ اوجھل ہونے کے بعد شہر کتنا بدل گیا۔ مگر میں خود بھی تو بدل گیا۔

اپنی صورت حال الم ناک نظر آنا چاہیے، مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔ برلن کی سڑک پر چلا جارہا ہوں، ابن صفی کا مصرعہ دہراتا ہوا جو اس دن سے دماغ میں اٹک کر رہ گیا ہے   ؎

اُف یہ تلاشِ حسن و حقیقت، کس جا ٹھہریں جائیں کہاں

زبان پر یہ مصرعہ ہے اور دل میں دھکڑ پکڑ ہو رہی ہے کہ اسی ریستوران میں ہو آئوں یا کچھ دیر اور صبر کرلوں۔ کوئی روک تو نہیں دے گا۔

ایک سڑک کے بعد دوسری سڑک، پیچ در پیچ سلسلے۔ سرور غزالی میرے ساتھ ساتھ ہیں اور کشاں کشاں لیے جارہے ہیں۔

زولوگیشر گارٹن اب بھی شہر کا مرکزی حوالہ ہے۔ وہاں سے گھومتے ہوئے اس بڑی سڑک پر نکل آئے جس کی جگمگاتی رونق اب بھی میری نگاہوں کو خیرہ کیے ہوئے ہے۔جس طرح کراچی والے کسی زمانے میں ایلفنسٹن اسٹریٹ کو پیار بھرے لہجے میں ایلفی کہتے تھے، اسی طرح برلن والے اس سڑک کو کوڈام کہتے ہیں۔ دکانوں میں رونق، خریداروں کی بہتات۔ مگر ترتیب اور قرینے کے ساتھ۔ دھکّم پیل نہیں ہے اور نہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد جو ہجوم بن کر بے قابو ہو جائے۔ مجھے پرانے کلیسا کا وہ مینار یاد تھا جو دوسری جنگ عظیم کی بھیانک بم باری کی یادگار کے طور پر تباہی کا نشان بنا نظر آتا تھا۔ کلیسا کا مینار اسی طرح تباہ ہے۔ لیکن آس پاس بلند عمارتیں بن گئی ہیں جو اس کے اوپر اپنا سایہ ڈال رہی ہیں۔ مینار جیسے ان کے سامنے دب کر رہ گیا ہے۔ ایک کونے میں وہ جگہ ہے جہاں ایک دہشت گرد نے بس چڑھا دی اور بارہ بے گناہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وہاں بہت سے پھول رکھے ہیں۔

اس کے پیچھے اروپاسنٹر ہے جہاں کرّہ ارض کے اوپر بہت پانی وقت کے گزرنے کی نشانی ہے۔ مگر یہ پانی خاموشی سے نہیں بہہ رہا۔ وہ بتا رہا ہے کہ قدرتی وسائل تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں۔ اس کے بعد ہر طرف پتھر ہی پتھر ہوں گے۔

اس نشانی کے ساتھ جہاں میں تیس سال پہلے آتا تھا، ایک بار پھر تصویر کھنچوائی اور آگے چل پڑا۔

تیس سال پرانے اس سفر میں جس مکان میں رہتا تھا، وہ دوبارہ دیکھنا چاہتا تھا۔ اب وہ علاقہ کیسا لگتا ہے۔ ایڈینویر پلاٹز کا اسٹیشن آیا۔ کانوں کو نام یاد آگیا۔ ولمرز ڈورفر کا مارکیٹ بھی جانا پہچانا معلوم ہوا۔ اس کے درمیان لاطینی امریکا کے نوجوان جو ساز بجا کر سکّے اکٹھے کررہے ہیں۔ ان کی ٹوپی میں سکّے ابھی پورے نہیں ہوئے۔

اس سے آگے نظر دوڑائی۔ ایک طرف گلی میں مکانوں کا سلسلہ تھا۔ ایک گاڑی سامنے کھڑی ہوئی تھی۔ ایک دم سے وہ منظر بہت مانوس لگا اور بے حد اجنبی۔ میں وہاں سے آگے نہیں جاسکا۔ الٹے پائوں واپس آگیا۔

سوچا جو وقت بچ رہا ہے اس میں ہم بولٹ یونیورسٹی سے آگے جاکر وہ مقام دیکھوں جہاں ناتسی حکمرانوں نے کتب خانوں سے نکال کر کتابیں جلائی تھیں۔

پچھلے سفر میں اس مقام پر انتظار حسین میرے ساتھ تھے۔ میں نے ذہن کے گوشے میں ان کا نام لکھا اور اس کے آگے ایک پھول رکھ دیا۔

اس سفر میں نرمل ورما بھی ساتھ تھے۔ دوسرا پھول نرمل ورماکے نام۔

پھول رکھ کر میں الٹے پائوں واپس جانا چاہتا ہوں۔ برلن میں یادوں کے ایک اور سلسلے کا ذائقہ گُھلا ہوا ہے۔ اس لیے بھی میں برلن کو الوداع نہیں کہہ سکتا۔ برلن، ہم پھر ملیں گے۔

برلن کے آگے کا سفر ریل کا ہے۔ سفر تو مجھے یہی معلوم ہوتا ہے۔ جہاز پلک جھپکتے میں چلا جاتا ہے جب کہ ریل میں منزلیں گرد کے مانند سامنے آتی ہیں، پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ہرے بھرے کھیتوں میں پیلے پیلے پھول ہیں۔ یہ سرسوں کا کھیت نہیں ہے، کرسٹینا ایسٹرہیلڈ مجھے بتا رہی ہیں۔ پٹڑی کے ساتھ ساتھ درخت ہوا میں جھوم رہے ہیں۔ دور تک کشادگی ہے۔ بارش کی ہلکی پھوار منظر کو دھندلا دیتی ہے مگر پھر ریل آگے بڑھ جاتی ہے۔

پروفیسر کرسٹینا ساتھ یوں تو یہ ممکن نہیں کہ مستنصر حسین تارڑ اور ناصر عباس نیّر کا ذکر نہ آئے۔ وہ مرزا اطہر بیگ کے ناول کو اپنے ایک کورس میں پڑھا رہی ہیں اور اس کا ترجمہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔ ہم اس کے حوالے سے بات ڈائننگ کار میں کافی اور سینڈوچ کے ساتھ کررہے ہیں۔ گفتگو سے زیادہ مجھے یہ فکر ہے کہ ریل کے ہلنے ڈولنے سے میری کافی چھلک نہ جائے۔ ریل نہایت آرام دہ ہے اور فاسٹ ٹرین ہے۔ اس لیے بہت اطمینان کے ساتھ مان ہائیم پہنچا دیتی ہے جہاں سے دوسری ٹرین پکڑنا ہے ہائیڈل برگ کے لیے۔

پہاڑ، اس پر پرانا قلعہ، پہاڑ کے دامن میں دریا اور پرانے شہر کی گھومتی گلیوں سے آگے شان دار یونیورسٹی، یہ ہائیڈل برگ کا شہر ہے۔

دریائے نیکر کے عین سامنے ایک چھوٹا سا ہوٹل۔ بیکری کے اوپر چند کمرے بنے ہوئے ہیں جن کے بارے میں ہدایت واضح ہے__ یہاں رسیپشن نہیں ہے۔ اپنی چابی سے دروازہ کھول کر اندر آجائیے اور اگر چابی نہ ہو تو دس بجے سےپہلے آجائیں اور گھنٹی بجا دیں۔ اس کے بعد آنا ہو تو پہلے سے فون کریں۔

میں نے تمام ہدایات پر عمل کیا۔ لیکن مجھے تو دریا سے ملاقات کرنا تھی۔

دریا کی وہی ہلکی ہلکی موجیں جنھوں نے اقبال کے دل کے تاروں کو چھو لیا۔

کچھ ایسا سکوت کا فُسوں ہے

نیکر کا خرام بھی سُکوں ہے۔۔۔

میں بھی وہاں دیر تک ٹہلتا رہا۔ پانی کے ساتھ گھاس پر بطخیں شور مچا رہی تھیں۔ کچھ ایسا سکون بھی نہ تھا، میں ہوٹل کے کمرے میں واپس چلا آیا۔

اگلی صبح ڈاکٹر کرسٹینا کی ابتدائی اردو کی کلاس میں ایک لڑکی رک رک کر مجھ سے سوال کرتی ہے۔ وہ چند ماہ پہلے کراچی ہوکر آئی ہے اور ماسٹرز تھیسس لکھ رہی ہے۔ وہ مجھ سے سوال پوچھتی ہے کہ کیا میں سبین محمود کو جانتا تھا اور ان کو قتل کیوں کر دیا گیا۔ ایک لمحے کے لیے میں سناٹے میں آگیا۔ ہائیڈل برگ اور نیکر کی شام تحلیل ہو کر ہوا میں اڑ گئے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دوں۔

ہاں تھوڑا بہت جانتا تھا۔ اس کیوں کا جواب شاید کوئی بھی نہ دے سکے، میں تھوک نگلتے ہوئے بڑی مشکل سے کہتا ہوں۔ مجھے کچھ دیر لگتی ہے گفتگو کی طرف واپس آنے میں۔ اس ٹھنڈی صبح مجھے پسینہ آ گیا۔

ذرا دیر کے بعد دوپہر کے کھانے کا وقت ہوجاتا ہے اور میں فیکلٹی کے چند دوسرے افراد کے ساتھ طالب علموں کی طعام گاہ آجاتا ہوں۔ ٹرے اٹھائے ہوئے ہم قطار میں کھڑے ہیں اور اپنی پسند کے کھانے چُن رہے ہیں۔

اس کی سیڑھیوں کے باہر انگریزی کی پرانی کتابیں سجی ہوئی ہیں۔ میں تیزی سے اس طرف جاتا ہوں اور کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگتا ہوں۔ اس لیے کہ روح کی یہ غذا اتنے دن بعد میسّر آئی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر کرسٹینا، امتہ المنان طاہر اور دوسرے اساتذہ کے ساتھ کافی کی پیالی اور خوش گوار باتیں۔ امتہ المنان طاہر آج صبح ہی پاکستان سے واپس آئی ہیں اور مجھے شرمندگی ہورہی ہے کہ ان کو میری گفتگو سننے کو ملے گی۔

شام کو طالب علموں اور فیکلٹی کے سامنے میری گفتگو۔ میں اس کو باقاعدہ خطبہ تو نہیں کہہ سکوں گا۔ اپنے اندر اتنی ہمّت نہیں پاتا۔ پھر جو بن پڑا، سو کہہ دیا۔

ابتدائی دور کے اردو ناول اور نذیر احمد کی قصّہ گوئی کے بارے میں اس طالب علم نے اپنا وہی سوال دہرایا جو برلن میں مجھ سے پوچھ چکا تھا اور شاید یہی پوچھنے کے لیے یہاں بھی آیا تھا۔ اس نے کہا آپ اشکلاوسکی کا نام لے رہے ہیں، باختن کا حوالہ بھی اس ضمن میں دیا جاسکتا ہے اور ناول کی تشکیل کے لیے ایک polyphonic discourse کو قائم ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے اس کی بات سے کیا اختلاف ہو سکتا تھا۔ اپنے ادھورے پرانے سلسلے یاد آ کر رہ گئے۔

باقی سوالوں کا محور زیادہ تر ابن الوقف اور توبۃ النصوح کے گرد گھومتا رہا۔

سوال جواب، ادبی گفتگو کے جھمیلے سے نکلا تو پرانے شہر کی گلیوں میں دیر گئے تک گھومتا۔ اچانک اس احساس نے غلبہ پالیا کہ میں دیکھ بھی رہا ہوں اور دکھائی بھی دے رہا ہوں۔ میں نے جو دیکھا اس میں سے تھوڑا بہت بیان کیا۔ اللہ بس باقی ؟؟۔ بس چند دن باہر رہ لیے۔ اب مجھے گھر چلنا چاہیے۔

اس لیے میں یہی کرنے جا رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).