درخت لگائے بغیر چھاؤں تلاش کرنے والے


فیلڈ پر جانے کے لئے آفس سے باہر نکلی تو دیکھا دو ڈرائیوروں کے مابین تلخ کلامی عروج پر تھی۔ میں جب قریب پہنچی تو دونوں خاموش ہوگئے۔ ہاں بھئی کیا روزہ لگ رہا ہے؟ ابھی تو صرف بارہ بجے ہیں میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو دونوں نے کہا نہیں روزہ نہیں لگ رہا اصل میں ہماری بحث گاڑی کھڑی کرنے پر ہوگئی میں یہاں گاڑی کھڑی کرنا چاہ رہا تھا جبکہ یہ بضد ہے کہ یہ اس کی جگہ ہے۔ میں نے گرمی کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا کہ اس جگہ میں ایسی کیا خاص بات ہوگئی کہ آج یہاں گاڑی کھڑی کرنے پر تو تو میں میں ہوگئی؟ تو جواب ملا باجی یہاں درخت ہے۔ موسم بھی تو دیکھیں کتنا گرم ہے درجہ حرارت چالیس کے پارے کو چھو رہا ہے تو ہم گاڑی سائے میں لگائیں گے تو تھوڑی چھاؤں اور ہوا تو ملے گی۔ ڈرائیور نے لڑائی کی اصل وجہ بتائی۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو غور کرنے پر پتہ چلا کہ آفس کے قریب قریب سوائے اس درخت کے اور کوئی درخت نہیں جو چھاؤں دے سکے ہاں البتہ بلند و بالا عمارتیں بہت ہیں۔

اب یہ درخت کتنے کام کر رہا ہے کسی کی گاڑی کی پارکنگ بھی ہے تو کسی کو بس کا انتظار کرنا ہے تو اسے چھاؤں بھی دیتا ہے، اس کے سائے تلے آفسوں کے ڈرائیور بھی بیٹھتے ہیں تو کبھی کبھی یہاں ایک فروٹ چاٹ بیچنے والا اپنا ٹھیلا بھی لگا لیتا ہے اور تو اور میں نے اکثر گرمی سے ستائے کتے بھی اس کی چھاؤں میں سستاتے دیکھیں ہیں۔ ایک درخت روزانہ کی بنیاد پر کئی زندگیوں کے کام آرہا ہے جبکہ نہ اسے ہم انسانوں کی طرح دو وقت کی روٹی کی ضرورت ہے نہ ہی وہ ہمارے آگے گلاس پیش کر رہا ہے کہ صاحب گرمی بہت ہے پانی تو پلا دو۔ لیکن ہم بدلے میں کیا دے رہے ہیں؟ یہ سوال ہم خود سے کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں کہ کہیں کچھ دینا نہ پڑ جائے کیونکہ ہم سدا کے خود غرض جو ٹھہرے، جو صرف لینا جانتے ہیں دینا نہیں، اور جو دینا نہ جانتے ہوں ان سے بانٹنے کی امید کیا کی جاسکتی ہے۔

اس سال 5 جون کو ماحولیات کے عالمی دن کی تھیم ”connect with nature“ رکھی گئی۔ یعنی قدرتی ماحول سے جڑے رہیں اس سے تعلق بنائیے۔ لیکن افسوس آج ہم سب ٹیکنالوجی سے تو جڑ چکے ہیں لیکن قدرت سے بہت دور ہیں۔ بچپن میں ہم بچے مٹی سے کھیلا کرتے تھے، کپڑے بھی خوب میلے ہوتے تھے اس وقت کہیں یہ نہیں سنا تھا کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں جس کا راگ آج الاپا جاتا ہے۔ مٹی بھی کونسی بھلا؟ پارک میں گئے تو وہاں کی مٹی، کچھ نہیں ملتا تو گھاس پر لیٹ جاتے، گلی میں کوئی نیا مکان بننے لگتا اور بجری کا ٹرک آجاتا تو ہوجاتے تھے سب بچوں کے وارے کے نیارے، شام ہوتی اور سب بچے اس ریت میں پائے جاتے کوئی کچھ بنانے کی جدوجہد کرتا، کوئی سرنگ بنانے کی کوشش کرتا، جب کچھ نہ بن پاتا تو دور سے بھاگتے آتے اور ریت کے پہاڑ پر چڑھ جاتے۔ آج یہ سب یاد آتا ہے تو لگتا ہے کہ جو تھیم اس سال پیش کی گئی اس کا مزا تو ہم کئی برسوں پہلے اٹھا چکے۔

ماحول سے جڑے رہنے کے حوالے سے میری ملاقات کراچی میں شجر کاری کی مہم پر کام کر نے والے مسلم رضا سے ہوئی، ان کے گھر جاؤ تو ایسا لگتا ہے کہ کسی چھوٹے سے جنگل میں آگئے ہوں۔ انھوں نے اپنے گھر کے باہر کی کیاریوں میں خوب سارے درخت لگا رکھے ہیں جس کا سایہ ان کے گھر، ان کی چھت کے ساتھ ساتھ سامنے قبرستان کے کچھ حصوں پر بھی پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ مسلم رضا کے مطابق اکثر تدفین کے لئے آنے والے لوگ ان کے درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کے گھر کی چھت ایک گارڈن کا منظر پیش کرتا ہے، کوئی بیش قیمت پودا میں نے ان کی چھت پر نہیں دیکھا نہ ہی کوئی گملہ، پلاسٹک کی ٹوٹی بالٹیاں ہوں، کموڈ، باتھ ٹب یا ٹائر انھوں نے بیکار چیزیں بھی کار آمد بنا کر اس میں پودے اگا رکھے ہیں جس کے سبب شدید گرمی میں بھی ان کے گھر کا درجہ حرارت باہر کی گرمی سے چار سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کم ہی محسوس ہوتا ہے۔ ساتھ میں موسمی سبزیاں بھی ان کے کچن میں پک کر خوشبو بکھیرتی ہے جس سے بھوک چمک اٹھتی ہے۔

مسلم رضا کے مطابق پاکستان میں جنگلات جو پہلے چھ فیصد تھے اب صرف دو فیصد رہ گئے ہیں ایک انتہائی خطرے کا الارم ہے رہی سہی کسر شہر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں نے پوری کردی جس میں سارے درخت کاٹ کر سڑکیں بنائی جارہی ہیں یا پھر زمین پکی کر کے اسٹریٹ لائیٹس لگائی جارہی ہیں جو درختوں کے ارد گرد کے جگہ چھوڑ کر بھی پکی کی جاسکتی تھیں۔ روزانہ کی بنیادوں پر جس تیزی سے درخت کاٹے جارہے ہیں اس رفتار سے درخت لگانا ایک بار بھی ریکارڈ پر نہ آسکا۔ مسلم رضا کا کہنا ہے کہ ہمیں ان درختوں کی اشد ضرورت ہے جو ہماری زمین کے موافق ہیں جن کو اس دیس کی آب و ہوا بھاتی ہے ان میں نیم، املتاس، سکھ چین، پیپل، گل مہر وغیرہ شامل ہیں، اگر پھل دار درختوں کی بات کی جائے تو ان میں آم، بادام، چیکو، امرود، لیموں اور بھی فائدے مند ہے۔ یہ درخت جب لگائے جاتے ہیں تو اوائل میں اسی طرح دیکھ بھال مانگتے ہیں جیسے کوئی چھوٹا بچہ لیکن دو سے ڈھائی برس تک یہ درخت تیار ہوجاتے ہیں اور دو برس کی دیکھ بھال کے عیوض کئی دہائیوں تک آپ کو صرف دے ہی رہے ہوتے ہیں اپنا پانی اور خوراک کا بندوبست خود کرتے ہیں اور بدلے میں کئی زندگیوں کو بنا کچھ لئے دینا ہی ان کی زندگی کا مقصد ہوجاتاہے۔

اسی طرح اگر سمندر کی بات جائے تو یہ ایک ایسا جہان ہے جہاں قدرت کے بے شمار راز اور خزانے پوشیدہ ہیں۔ ہم میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ سمندر بھی درختوں کی طرح ڈپریشن کو کم کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس حوالے سے میرین زولوجسٹ عمیر شاہد جو کہ ورلڈ وائلڈ فنڈ پاکستان کے ساتھ پچھلے سات برسوں سے منسلک ہیں انھوں نے انکشاف کیا کہ کراچی میں روزانہ کی بنیادوں پر 450 ملین گیلن فضلہ سمندر میں ڈالا جاتا ہے جو بہت بڑی مقدار میں ہے اگر اسے سال بھر سے موازنہ کیا جائے تو یہ مقدار 1، 64، 250 ملین گیلن بن جاتی ہے۔ دوستی تو ہم کیا نبھاتے ہم دشمنی کھل کر کر رہے ہیں، وہ بھی قدرت کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ بھی۔ کیونکہ اس فضلہ میں جہاں صنعتی کیمیکل، پلاسٹک، سوریج شامل ہے یہ سب جب پانی میں ضم ہوتا ہے تو سمندر میں موجود آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے اور پھر شکار کی ہوئی جو مچھلی مارکیٹ میں پہنچتی ہے وہ ہماری کرم فرمائیوں کے سبب آلود ہ ہی ہوتی ہے جسے ہم اپنی خوراک کا حصہ بناتے ہیں۔ یہاں یہ مثال بالکل درست ثابت ہوتی ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔

عمیر شاہد سے جب ماحول کے عالمی دن کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں اب کچھ موبائل کو سمجھ لیا گیا ہے، کوئی بھی بات جاننا ہو تو گوگل ہی سب کچھ ہے وہاں ہم قدرت سے دور اور ڈپریشن کے قریب ہوتے جارہے ہیں اگر اس سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سمندر کنارے جائیے، اپنے پیروں کو سمندر کے پانی میں بگھوئیں، لہروں کی ٹھنڈک کو محسوس کریں جو سمندر کے پانی میں نہیں اترنا چاہتے وہ اگر ساحل کنارے بیٹھ کر لہروں کو دور سے بیٹھ کر بھی دیکھیں اور ساحل کی ہوا کی سرسراہٹ اور ٹھنڈک کو بھی محسوس کریں تو انھیں اپنی پریشانی کم ہوتی محسوس ہوگی۔

دلچسپ بات یہ کہ ہم درخت نہیں لگا رہے بلکہ جنگلات کی کٹائی کیے جارہے ہیں، سمندر کو آلودہ کرنے میں ہم کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے لیکن ان سب ستم کے باوجود یہ سب قدرتی نعمتیں اپنی بانہیں کھولیں ہمارے استقبال کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ایک جانب ہمیں زلزلوں، ہیٹ ویو، بارشوں کے نہ ہونے، درجہ حرارت میں اضافے کے خطرات دکھائی دے رہے ہیں اور ہم یہ واویلا بھی کرتے ہیں کہ یہ سب ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے تو دوسری جانب ہمارا دھیان اس بات پر نہیں کہ جو گناہ ہمکیے جارہے ہیں ان کا ازالہ کرنا بھی کوئی مشکل تو نہیں۔ ہمیں اپنی گاڑی درخت کی چھاؤں میں لگانی ہے لیکن ہم درخت نہیں لگاتے، شدید گرمی میں اب ہم سائے تلاش کرتے پھرتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ حد نظر کوئی چھاؤں نہیں تو کیا ہم نے اپنے آنے والی نسلوں کے لئے کوئی تیاری کی ہے؟ ہم ساحل کنارے ویک اینڈ پر اپنے خاندان بھر کے ہمراہ چھٹی کا دن یادگار بنانے تو ضرور جاتے ہیں لیکن کیا کبھی وہاں کھانے پینے کی چیزوں کے ریپرز پھینکے بغیر آئے ہیں؟ ان تمام سوالوں کے جواب ہم خود سے مانگیں تو نفی میں ملتے ہیں۔

درختوں کی چھاؤں میں بیٹھیں، مٹی کو چھوئیں، پانی میں کھڑے ہوکر اس کی ٹھنڈک کو محسوس کریں، کسی لینڈ مافیا کی نظر سے بچ جانے والے پارک میں جاکر کوئل کی کوک، پرندوں کی چہچہاہٹ کو آنکھیں بند کر کے سنیں، کچھ نہ سہی تو باغ میں کسی بینچ پر بیٹھ کر باغ میں آنے والوں کے رویوں اور تاثرات پرغور ہی کریں تو شاید آپ اپنی آنے والی نسلوں کے لئے بہتر ماحول کی تیاری آج سے ہی شروع کردیں گے۔ جس طرح حد نظر ٹھاٹھے مارتا سمندر آپ میں امید جگاتا ہے اسی طرح خود کو اور آنے والی نسلوں کو اچھا تندرست ماحول دینے کی ذمہ داری بھی ہم ہی پر عائد ہوتی ہے۔ وہ کیا ہے ناں کہ ہمیں واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام، ٹوئٹر کو اپ گریڈ کرنا تو یاد رہتا ہے لیکن ماحول کو اپ گریڈ کرنا ہم بھول جاتے ہیں، چلئے آج سے ہی اس کا ریمائنڈر لگاتے ہیں تاکہ اگلے برس تک ہمارے درخت کی پہلی سالگرہ آجائے۔

سدرہ ڈار، کراچی
(نیو نیوز میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہوں، موسم، موحولیات اور سماجی مسائل پر فیچر اسٹوریز پر کام کر رہی ہوں)

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar