گاڈ فادر، سسیلین مافیا اور بے نظیر کے کینگرو کورٹس


جب شہادتیں ناکافی ہوں تو کہاوتیں نکال لی جاتی ہیں دلائل کم پڑ جائیں تو رسائل اور ناول حوالے بنا لئے جاتے ہیں۔ واقعی انصاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ استغاثہ کا کام شھادتیں اور ثبوت دینا ہوتا ہے اور عدالت کا ان کو پرکھ کر فیصلہ۔ ہمیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ یہاں تو یوسف کا کرتہ خود ”آگے“ سے پھاڑا جارہا ہے۔ اختیارات سے متجاوز ہوکر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیئے جا سکتے، ہاں مخصوص طبقے کی نظر میں قد بڑھایا جاسکتا ہے۔

جس خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی کی کارروائی کی نگرانی کرنی تھی اس کی تشکیل سے پہلے رجسٹرار سپریم کورٹ نے آخر کس کے احکامات کی بجا آوری میں وٹس ایپ کالز کے ذریعے اداروں ( اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی ) کے سربراہوں کو حکم دے کر بلال رسول اور عامر عزیز کے نام شامل کرواتے ہیں؟

اگر بینچ کے کہنے پہ کیا تو بینچ تو ابھی تشکیل ہی نہیں پایا تھا تو وہ حکم کیسے دے سکتے تھے؟ اگر یہ جائز تھا تو سرکاری حکم نامے یا فیکس کے ذریعے کیوں نہیں کیا گیا؟ اگر جائز تھا تو سرکاری نمبر سے کیوں نہیں بتایا گیا؟

تنقید سے کیوں گبھراتے ہیں جناب، جب اپنے اختیار سے تجاوز کیا جائے تو اخلاقی حیثیت کمزور ہو جاتی ہے۔

معزز عدالت نے عوامی منتخب حکومت کو سسیلین مافیا قرار دے کر جہاں عوام کے رائے کی توہین کی ہے وہیں دنیا میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا ہے۔ جو بین الاقوامی کمپنیاں اور ادارے اس حکومت سے مختلف مالیاتی معاہدے تشکیل دے رہے ہیں وہ کیسے نہیں ان معاہدوں میں پس و پیش سے کام لیں گے؟

میں بہر طور عدالت کا مشکور ہوں جنہوں نے عوام الناس کے بہت سے غلط نظریات کو باطل ثابت کرکے اپنی عظیم بصارت سے راہنمائی فرمائی۔ ہم سب اب تک سمجھتے تھے گاڈ فادر اور سسیلین مافیا اس ملک میں کوئی اور ہے۔

کاش یہی گاڈ فادر کے ریمارکس عدالت نے اس شخص کے بارے میں بھی دیے ہوتے جس نے بارہ مئی کو دن دیہاڑے وکیلوں کو اسی عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑنے کے پاداش میں زندہ جلا دیا تھا۔ جس نے چار سال ان عدالتوں کو اپنے بیٹ مین سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ جن کے بارہا بلانا پر بھی درخور اعتناء نہ سمجھا۔ جسے گھر بیٹھے نہ صرف ضمانتیں ملیں بلکہ اکبر بگٹی قتل کیس میں بغیر پیش ہوئے بریت کی نظیر بھی انھی عدالتوں نے قائم کی۔ پھر درد کمر دور کرنے دوبئی روانہ ہوگیا۔

کاش عدالتوں نے یہ مثال اس شخص کے بارے میں بھی دی ہوتی جس نے کھلے بندوں میڈیا کے سامنے حاضر سروس چیف جسٹس کے بیٹے کو کروڑوں روپے دینے کا اعتراف کیا اور ایک معروف ( ڈالر فیم) ماڈل کیساتھ بیرون ملک ”دوروں“ اور ان کے ”اخراجات“ کا ریکارڈ دکھایا اور یہ دعوی کیا کہ یہ پیسے اس کے خلاف لوگوں کی اربوں روپے کی زمین قبضوں کے ذریعے ہتھیانے کے کیسز میں کیسوں کو لٹکائے رکھنے اور اس کے حق میں فیصلے دینے کے عوض دیے گئے۔ کیا یہ اعتراف بذات خود کافی جرم نہیں تھا اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے مگر افسوس مفادات کے تصادم کی روایت بھی وہاں پس پشت پھینک دی گئی۔

یہ وہی شخص ہے جس کے خلاف جسٹس جواد ایس خواجہ کے جانے کے ڈیڑھ سال بعد کیس کی سماعت کی باری آئی اور اعتزاز احسن ایسے بیسیوں وکیل قطار اندر قطار وہاں موجود تھے اور جج صاحب نے کیس سننے سے انکار کر دیا۔ بے اختیار منہ سے سبحان اللّٰہ نکلتا ہے۔ ایک عام سوجھ بوجھ والا شخص بھی یہ سمجھتا ہے کہ اربوں روپے اب تک ری انویسٹ ہو کہ کھربوں میں بدل چکے ہیں اور وہ غریب جو انصاف کی امید لگائے عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں ان کے دلوں پہ کیا گزرتی ہوگی۔

کیسی عجیب بات ہو اگر کوئی دوسرا ادارہ عدلیہ کے ادارے پہ تنقید کا در کھول دے اور انصاف میں تاخیر، اصلی مجرموں کو سزا دینے میں ناکامی، مُردوں کو بری کرنے اور بیس سال کی سزا کے بعد کسی کو بیگناہ قرار دینے، ہر آمریت کو جواز بخشنے، نظریہ ضرورت کی ایجاد و بے دریغ استعمال، بھٹو کے عدالتی قتل، عدالتوں میں پینڈنگ کیسز جیسے معاملات کو سامنے رکھ کے عدالتوں کو مجرم اور ماورائے آئین اقدام کا باعث قرار دے دے۔

اداروں کو ایسے ایک دوسرے پہ تنقید کی بجائے اور اختیارات سے تجاوز کی بجائے اپنا اصلی کام بہتر انداز میں سر انجام دینا چاہیے۔

کسی بھی ادارے کا نہ ماضی شاندار ہے نہ ہی حال قابل رشک۔ سو بہتر یہی ہوگا اپنا اپنا گریبان جھانکا جائے۔ دوسرے کی تادیب آپ کو تنقید سے بالا نہیں کردیتی نہ ہی اپ کی کارکردگی پہ پردہ ڈال دیتی ہے۔ ایوب کی آمریت کو جواز بخشنے سے لیکر، بھٹو کے عدالتی قتل، مشرف کے پی سی آؤ کی وفاداری کا حلف اٹھانے تک بہت سے تمغے پہلے ہی عدالت کے گلے میں سجے ہیں۔

بالخصوص موجودہ حالات کے تناظر میں اس عدالتی بینچ کا عامر عزیز جیسے شخص کو جو خود اپنے پس منظر کے باعث متنازعہ اور متعصب ہے کو ایک غیر مروجہ طریقے سے شامل کرنا انصاف کے تقاضوں پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے جبکہ کٹہرے میں کھڑا شخص عدم اعتماد کا اظہار بھی کر چکا ہو اور گواہوں کو خائف کرکے منحرف کرنے کی کوشش بھی کر چکا ہو۔ اس پہ مستزاد یہ کہ جوڈیشل اکیڈمی کی عمارت میں پیش ہوئے حسین نواز کی تصویر کو تضحیک کے پہلو کے تحت نشر کیا جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ خفیہ اداروں سے جے آئی ٹی ممبران کی تصدیق کی گئی۔ بھئی یہ بتایا جائے کس نے اور کب یہ تصدیق کروائی۔ کس حکم نامے اور ضابطے کے تحت؟ کیا ان سے بھی رابطہ وٹس ایپ پہ ہی کیا گیا یا کوئی مروجہ قانونی طریقہ استعمال کیا گیا؟

سسیلین مافیا تو وہ ہوتا ہے جو اپنے لوگوں کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جاکے انہیں بچاتا ہے۔ یہ اچھا مافیا ہے کہ پیشیاں بھی بھگت رہا ہے، تضحیک آمیز ریمارکس بھی اور میڈیا ٹرائل بھی۔ سسیلین مافیا تو وہ ہے جس کے سامنے اختیارات کے پر جلتے ہیں۔

صرف القابات سے نوازنے سے اگر سوائے توہین کے کچھ اور حاصل ہوتا تو ان عدالتوں کو محترمہ بے نظیر بھٹو کینگرو کورٹس کہتی رہیں ہیں۔

جنرل باجوہ کے بیٹے نےاپنے باپ کے دو فیصلوں پہ کیا خوبصورت تبصرہ کیا۔

ایک طبقے میں پاپولر فیصلے کرنے کی بجائے درست فیصلے کرنا ہی بہتر ہوگا۔ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں اور ظاہری بات ہے اگر ٹرائل کورٹ تو ماتحت عدالتیں ہوتی ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ عدالت عالیہ کے بارے میں ”ماتحت عدلیہ“ ہونے کا تاثر پیدا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).