غامدی صاحب اور حاسدین کے اعتراضات


غامدی صاحب کے بارے میں شور و غوغا تو لگا ہی رہتا ہے مگر حال ہی میں روزوں کے بارے میں ان کی کچھ تعبیرات پر کچھ لوگوں نے وہ طعن و تشنیع کا بازار گرم کیا ہے جیسے خدا نخواستہ غامدی صاحب نے ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر روزہ نہیں رکھنے دیا۔ ہم نے مان لیا کہ آپ کے فہم دین کے تحت غامدی صاحب کی مشقت کی تعریف میں جھول ہے اور ان کا یہ اجتہاد غلط ہے، تو اس میں قیامت برپا کرنے کیا کیا ضرورت ہے۔ غامدی صاحب بھی ایک انسان ہیں اور ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے جیسے کسی بھی فقہی و عالم سے ہو سکتی ہے، اس میں اتنا تماشا لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ آ پ کا صرف یہ منصب ہے کہ دلائل کے ساتھ غامدی صاحب کی غلطی واضح کر دیں ، اللہ اللہ خیر سلا۔ آپ کو داروغہ کس نے بنایا ہے کہ آپ غامدی صاحب کے لتے لیتے ہوئے اخلاقیات کے تحت الثریٰ میں گرجائیں۔

غامدی صاحب پر متانت سے تنقید اس حد تک کم ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ تنقید سے تو کوئی بھی ماورا نہیں اور علمی تنقید کی گنجائش غامدی صاحب کے نظریات میں بھی بہت ہے، مگر جو حق تھا تنقید کرنے کا وہ ادا نہیں کیا گیا۔ کبھی غامدی صاحب کے نظریات کو ’فتنہ غامدیت‘ کے نام سے منسوب کیا گیا، کبھی انتہائی ثولیدہ الفاظ میں ان کی کردار کشی کی گئی، کبھی اجماع کا مخالف بتا کر بات ہی گنوا دی، کبھی تفسیر بالرائے کا طعنہ دے کر وعیدیں سنائی گئیں، کبھی کفر کے فتوے دے کر اپنی بے بسی کی لاج رکھی۔ جوراستہ نہیں اپنایا گیا وہ علم کی دنیا میں رہتے ہوئے صحتمندانہ تنقید کا سیدھا سادہ سا راستہ تھا۔

سب سے بڑا اعتراض جو ابھی تک میں نے غامدی صاحب پر لوگوں کو کرتے دیکھا ہے وہ منکر حدیث ہونے کا ہے۔ جنہوں نے غامدی صاحب کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور جنہوں نے ان کے لیکچر سنے ہیں ان سب کے نزدیک یہ اعتراض انتہائی لغو اور حقیقت سے کوسوں دور ہے ۔ غامدی صاحب کی کتاب میزان جس میں انہوں نے اسلام کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے اس میں سیکڑوں کے حساب سے احادیث نہ صرف بیان کی ہیں بلکہ ان پر بحث کا مدار رکھا ہے۔ اب اتنے صاف فیصلے کے بعد بھی کوئی غامدی صاحب کو منکر حدیث کہے تو اس کی عقل پر ماتم کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ غامدی صاحب عام علماء کی طرح احادیث کے معاملے میں زیادہ سخت واقع ہوئے ہیں۔ غامدی صاحب کے نزدیک جو حدیث ظاہراً قران کی تعلیم کے مخالف ہے تو اس حدیث کو چھوڑ دینا مناسب ہے نہ کہ اس حدیث کی بناء پر قران کے ظاہری مطلب کی تاویل کر دینا۔ اب اس میں روائتی قسم کے علماء کے تقلیدی مباحث کو کیونکہ زد پہنچتی ہے تو وہ اس معیار پر علمی بحث کرنے کی بجائے لٹھ لے کر غامدی صاحب کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ حالانکہ سیرت النبی از شبلی نعمانی جلد اول کے صفحہ 42 اور 43 پر درایت کے اصول کے تحت قران کے مخالف نہ ہونا بھی ایک معیار بتایا گیا ہے، مگر یہ بات کیونکہ غامدی صاحب نے کر دی ہے تو علماء کے ہاں عجیب بے چینی پھیل جاتی ہے جیسے کہ غامدی صاحب نے کوئی بہت ہی غلط بات کہہ دی ہو۔

دوسرا بڑا اعتراض غامدی صاحب پر توہین رسالت کی سزا قتل پر ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک توہین رسالت کی سزا قتل نہیں ہے جبکہ جمہور علماء آج کل توہین رسالت کی سزا موت کے علاوہ کوئی اور سزا تجویز کرنا بھی توہین رسالت ہی سمجھتے ہیں۔ اس مضمون کی تفصیل میں جائے بغیر غامدی صاحب اور دیگر علماء کے ٹی وی پر مباحث ہی اس بات کو واضح کرنے میں کافی ہیں کہ علما ء کے پاس کیا دلائل ہیں اور غامدی صاحب کے پاس کیا دلائل ہیں۔ جب غامدی صاحب کہتے ہیں کہ علمائے پاکستان کو چاہیئے کہ توہین رسالت کے معاملے میں وہ کم از کم فقہ حنفیہ کی ہی پیروی کر لیں تو فقہ حنفیہ کے ہی عالم اپنے فقہ کی بجائے دوسرے فقہ کی پناہ لینے لگ جاتے ہیں۔

اسی طرح کے اور فقہ کے چھوٹے موٹے مسائل پر بھی غامدی صاحب کے اجتہادات پر وہ رونا رویا جاتا ہے کہ جیسے آسمان ہی پھٹ پڑا ہو۔ کیا ان علماء کو اپنے اسلاف کے اختلاف بھول گئے ہیں۔ زیادہ دور نہیں جاتے، کیا آج تک مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی حسام الحرمین دیوبند علماء کے گلے میں نہیں پھنسی ہوئی جس میں دیوبند کے بانی مبانی علماء پر گستاخ رسول ہونے پر کفر کے فتوے موجود ہیں جن کو مکہ اور مدینہ کے مفتیوں کے فتاوی سے بھی مزین کیا گیا ہے۔ کیا یہ لوگ بھول گئے کہ مولانا مودودی پر کس کس قسم کے رکیک حملے کئے گئے تھے، اور وہ حملے کرنے والے گلی محلے والے علماء نہیں تھے بلکہ بڑے بڑے جبہ دار مولانا حضرات تھے۔ عالم اسلام کا کونسا ایسا عالم اور فقیہ ایسا ہے جس پر اس کے مخالف علماء نے کوئی اعتراض نہ کیا ہویا اس کے علم کو لوگوں کیلئے گمراہ کن نہ بتایا ہو۔ جس طرح کے اختلافات غامدی صاحب کے ساتھ جتائے جاتے ہیں ان سے بہت خطرناک اور بہت بڑے بڑے اختلافات سے علماء اور فقہا ء کی کتب بھری پڑی ہیں، پھر کیا بات ہے کہ غامدی صاحب کی دفعہ پھر ویسے ہی اعتراضات اٹھا کر لے آتے ہیں۔ غامدی صاحب سے اختلاف رکھیں اور ضرور رکھیں مگر تہذیب اور علم کے دائرے میں رہ کر۔ کیونکہ جب اس دائرے سے باہر نکلیں گے تو جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ بھی گنوا دیں گے۔

ان علماء کا مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو محسوس ہو گیا ہے کہ اب نئی پود روائیتی علماء کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔ اب لوگوں نے سوال بھی پوچھنا ہے اور خود گوگل بھی کر لینا ہے، اب یہ علماء لوگوں کو زیادہ دیر تک سوالات سے نہیں روک سکتے، جنکہ دوسری طرف غامدی صاحب کے ہاں سوال پوچھنے ہر کوئی قدغن نہیں ہے۔ سخت سے سخت سوال پوچھیں، جواب مانگیں۔ جواب سے متفق ہونا یا نہ ہونا الگ بات ہے مگر سوال کرنے پر کوئی روک نہیں ہے۔ ملحدین کے کوئی سے بڑے دس سوالات لیں اور غامدی صاحب کو اور اپنے کسی مرضی کے روائتی عالم کو دے دیں۔ دونوں کے جوابات سے معلوم ہو جائے گا کہ کون ملحدین کا راستہ روک رہا ہے اور کون اس راستے پر لوگوں کو اپنے جوابات سے بھیج رہا ہے۔


اسی بارے میں
مذہب مخالف افراد اصل خطرہ غامدی جیسوں کو سمجھتے ہیں
روزہ کے استطاعت کی بحث، فقہا اور غامدی صاحب

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).