رویتا مینگھواڑ، کمزور قانون اور مضبوط خانقاہیں


سندھ میں ایک اور ہندو لڑکی کے مبینہ اغوا اور جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کا واقعہ رپورٹ ہوا ہے۔ رویتا مینگھواڑ کے مبینہ اغوا پر سوشل میڈیا میں بڑی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ تھرپارکر کے ھیڈکوارٹر مٹھی میں اس مبینہ اغوا کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔

ننگرپارکر تھانے پر رویتا کے اغوا کی ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ رویتا کونواز علی شاہ نامی شخص نے رات کے اندھیرے میں اغوا کیا ہے۔ لیکن ابھی تک نہ اس کی کوئی بازیابی ہوئی ہے نہ ملزم کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ لڑکی کی واپسی کے تمام راستے بند کردیے گیے ہیں۔

سندہ شاید پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی ہے، لیکن عملاً ایسا نہیں،اور رویتا جیسے واقعات میں تو بالکل بھی نہیں۔ آئے دن ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جن میں ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے ان کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 15 جولائی 2015ء کو عورت فائونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار خواتین کوجبری طور پر مذہب تبدیل کروا لیا جاتا ہے۔ اکثر واقعات میں جبری طور پر مذہب تبدیلی کا شکار ہونے والی خواتین کا مبینہ طور پر ان اغواکار افراد کے ساتھ ہی نکاح پڑھوا لیا جاتا ہے۔

اس سے انکار نہیں کہ کچھ واقعات میں ہندو لڑکیاں اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر مسلمان ہوجاتی ہیں لیکن اکثر و بیشتر اغوا اور اس کے بعد جبری طور پر مسلمان کرنے اور پھر ان اغواکاروں سے شادی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ مبینہ اغواکار ان ہندو لڑکیوں کو گھروں سے نکال کر مذہب تبدیل کرنے کے لیے ایسی خانقاہوں پر پہنچ جاتے ہیں جہاں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کا پہنچنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔

سندھ میں ڈھرکی کے نزدیک بھرچونڈی پیروں کی گدی سے لیکر سامارو کے سرھندی پیروں تک کئی گدی نشین ایسے ہیں جومذہب تبدیل کروانے پر تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ یہاں مذہب تبدیل کرنے کے سرٹفیکیٹ بھی آسانی سے دستیاب ہیں، ان دکانوں سے مذہب تبدیل کرنے کی یہ ایسی سندیں ملتی ہیں کہ جن کو کوئی تبدیل تو کیا کوئی چیلنج بھی نہیں کرسکتا، مجھے کچھ برس پہلے افتخار چودھری جیسا بااختیار چیف جسٹس بھی ایسے ہی ایک مقدمے میں کمزور اور لاچار لگا۔ بھرچونڈی پیروں کی خانقاہ میں رینکل کماری کا مذہب تبدیل ہوا اوراسے ایک مسلمان کے نکاح میں دے دیا گیا سپریم کورٹ میں اس مقمدمے کو کور کرنے کا مجھے بھی موقع ملا۔ بھرچونڈی کے پیروں نے نہ صرف اس ہندو لڑکی کو مسلمان کیا بلکہ ایک دن پہلے شھر میں اپنے ہتھیاربندوں کا بڑا جلوس نکالا تاکہ اس معاملے پر کسی کو بات کرنے کی جرات نہ ہو،

آخر میں ملک کی سب سے بڑی عدلیہ نے بھی وہی فیصلہ دیا جو بھرچونڈی کی خانقاہ نے ایک ماہ پہلے کردیا تھا۔ مذہب کو نجی معاملات میں ایسا گڈمڈ کردیا گیا ہے کہ مبینہ طور پر اغوا ہونے والی ہندو لڑکیوں کے لیے مذہب کی تبدیلی کے بعد واپسی کے تمام راستے اسی طرح بند ہوجاتے ہیں جس طرح اب تک کے کیسز میں ہو چکا ہے۔ جب چیف جسٹس کے مسند پر بیٹھا ہوا کوئی شخص یہ کہہ دے کہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا تو اس کے بعد کون سی عدالت، ادارہ یا شخص یہ جرات کرسکتا ہے کہ اس لڑکی کو ورثا کے حوالے کرے؟ یہاں تک کہ ملک کا قانون بھی خانقاہوں کی چوکھٹوں پر ایڑیاں رگڑ کر مفلوج بن جاتا ہے، جب ریاست کا قانون ہی کوئی راستہ نہ دے تو مغوی بننے والی بچیاں واپسی کی جرات کیا کریں گی؟

رویتا اغوا کیس میں عمرکا تنازعہ اہم ہے،لڑکی کے ورثا اس کی عمر سولہ سال بتاتے ہیں جو بات رویتا کے پرائمری اسکول کے سرٹفکیٹ سے بھی ثابت شدہ ہے، لیکن خانقاہ کا پیر اس لڑکی کی عمر اٹھارہ سال بتا رہا ہے، اس کی سند کو ہر ایک حرف آخر مانا جا رہا ہے۔سامارو سندہ کا چھوٹا سا شھر ہے جس کی وجہ مشہوری وہ سرھندی پیر ہیں جن کے پاس کسی بھی مذہب کا بندہ یا بندی پہنچ جائے تو مذہب تبدیل ہونے کے بعد ہی واپس آتا ہے۔ ایسی خانقاہیں اور مدارس اغوا کے ملزموں کے لیے صرف محفوظ ٹھکانہ ہی نہیں بلکہ وہ ریاستی قوانیں کو مذہب کی آڑ میں زمین دوز کرنے کا کام بھی کرتی ہیں۔خانقاہوں کے ان پیروں کے اختیارات پر کوئی مائی کا لال انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ صوبائی چیف ایگزیکٹیو کے پاس سرکاری محکموں میں ملازمت کے لیے عمر کی حد بڑھانے کا اختیار ہے لیکن کسی امیدوار کی عمر بڑھانے کاایسا اختیار اس کے پاس بھی نہیں جو کسی ملا یا پیر کے پاس ہے۔

مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات اور متعدد شکایات پر سندہ اسمبلی نے گذشتہ سال مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف ایک قانون منظور کرکے قرار دیا کہ اٹھارہ سال سے کم کسی بھی لڑکی کا مذہب تبدیل کرنے کا دعویٰ نہیں مانا جائے گا، اگر کسی ملزم پر جبری بنیادوں پر مذہب تبدیل کرنے کا الزام ثابت ہوجاتا ہے تو اسے پانچ برس قید اور جرمانے کی سزا ہے۔

سندہ اسمبلی سے وہ قانون کیا پاس ہوا مذہب کے دکانداروں کو روزگار کے لالے پڑگئے،اوران کو مذہب خطرے میں نظر آنے لگا۔سراج الحق اور مولانا فضل الرحمان سے لیکر جہادی مائنڈ سیٹ نے اس قانون سازی پر ایسا طوفان برپا کردیا کہ لبرل کہلانے والی پیپلز پارٹی نے یہ قانون ہی واپس لینے کا اعلان کردیا۔

 ہمارا ریاستی ڈھانچہ اتنا کمزور ہے کہ مذہب کے ٹھیکیداروں کو آئینہ نہیں دکھا سکتا۔ آج کا ملا، مدرسہ اور خانقاہ کسی بھی منتخب پارلیامنٹ اور حکومت سے زیادہ طاقتور ہے،جب تک طاقت ان کےاور ان کو شہ دینے والوں کے پاس تب تک ان کی جاری کردہ سندوں کی ہی اجارہ داری رہے گئی، سندہ میں قانون ہوتے ہوئے اس پر عمل نہیں ہو سکتا تو پھر حکومت بھی ایسے خانقاہوں کے مجاورں اور متولیوں کے حوالے کردینی چاہیے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar