عبدالولی خان یونیورسٹی میں باچا خان سے بغاوت کیوں؟  


 جب سے باچا خان کے فرزند عبدالولی خان کے نامِ نامی سے موسوم مردان یونیورٹی میں مشال خان کے وحشیانہ قتل کے آس پاس اس دانش گاہ میں وحشت و بربریت کے انسانیت سوز مناظر دیکھے ہیں۔ تب سے لے کے اب تک اس معصوم طالب علم کے خاندان پر جو گزررہی ہے اُس کی روح فرسا خبریں پڑھتے وقت مجھے رہ رہ کرباچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک کی مےراث یاد آنے لگی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ آج آپ کو اپنی اس یاد میں شریک کر لوں تاکہ آپ کو یہ اندازہ ہو سکے کہ باچا خان کی زندگی کا مسلک کیا تھا اور اُن کے مشن پر قائم یونیورسٹی اس مسلک کی نفی میں کیونکر سرگرمِ عمل ہے؟

آئیے، ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے 1930ء میں جا پہنچیں۔ یہ وہ وقت ہے جب باچا خان نے خدائی خدمتگار تحریک کے آغاز کا اعلان کیا تھا اور خدائی خدمتگاروں کے سب سے پہلے گروہ سے حلف لیا تھا۔ اتمان زئی میں ”انجمن اصلاح الافغانہ“ کے سالانہ اجلاس میں سب سے پہلی مرتبہ خدائی خدمتگاروں نے درج ذیل حلف اٹھایا تھا :

میں خدا کو حاضر ،ناظر اور شاہد گردانتا ہوں اور اس کی ذات پاک پر یقین کرتے ہوئے حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ مندرجہ ذیل اصولوں پر کاربند رہوں گا:

1۔  میں اپنا نام خدائی خدمتگاری کے لیے صداقت اور ایمان داری سے پیش کرتا ہوں۔

2۔  میں اپنی جان، مال اور آرام ایمانداری کے ساتھ اپنی قوم کی خدمت اور وطن کی آزادی کے لیے قربان کر دوں گا۔

3۔ میں خدائی خدمتگاری میں ایسے حیلے بہانے جو تحریک کے لیے نقصان یا کمزوری کا باعث ہوں نہیں بناﺅں گا۔

4۔ میں کسی دوسری جماعت کا ممبر نہیں بنوں گا اور جنگِ آزادی میں معافی نہیں مانگوں گا نہ ہی میں ضمانت دوں گا۔

5۔ میں اپنے افسر کا ہر جائز حکم ہر وقت ماننے کو تیار رہوں گا۔

6۔ میں عدم تشدد کے اصول پر ہمیشہ کاربند رہوں گا۔

7۔ میں تمام مخلوقِ خدا کی ایک ہی طرح خدمت کروں گا۔ میرا نصب العین وطن کو آزاد کرانا ہوگا۔

8۔ میں ہمیشہ نیک اور اچھے عمل پر کاربند رہوں گا۔

9۔ میں اپنی خدمت کے بدلے کسی چیز کی طمع یا لالچ نہیں کروں گا۔

10۔ میری تمام کوششیں خدا کی رضا کے لیے ہوں گی نمائش کے لیے نہیں ہوں گی۔

اس حلف نامے کا ایک ایک لفظ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ میں ایک ایماندار، ایثار پیشہ اور خلق خدا کے خادم مسلمان کی زبان سے نکلا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ خان عبدالغفار خان اصلاح قوم کے جذبات میں سرشار ہو کر تعلیمی میدان میں اُترے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خالص اصلاحی اور تعلیمی سرگرمیوں کو بھی برطانوی سامراج اپنے استعماری مقاصد کے لیے زبردست خطرہ سمجھتا تھا۔ اس لیے حاجی صاحب ترنگ زئی کی قیادت میں جب خان عبدالغفار خان نے اپنی تعلیمی اصلاحی تحریک کا آغاز کیا تو برطانوی حکومت کے کارندوں نے قدم قدم پر ان کے لیے مشکلات پیدا کیں اور رُکاوٹیں کھڑی کیں۔ انگریز افغانوں کی بیداری اور تعلیمی ترقی سے خائف تھا۔ اس لیے انہیں پسماندہ رکھنا چاہتا تھا۔ خان عبدالغفار خان انگریز کی اس استعماری پالیسی کو خاطر میں نہ لائے اور اپنا کام کرتے چلے گئے۔ جلد ہی وہ وقت آ گیا جب پورا برصغیر خلافت تحریک کے آتشیں نعروں سے گونجنے لگا۔ 1927ءمیں مولانا محمد علی جوہر کا پشاور میں زبردست خیرمقدم کیا گیا۔ افغانوں کا خیرمقدمی جلوس واقعتا فقید المثال تھا۔ اسی موقع پر پشاور میں جمعیت العلمائے اسلام کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا محمد علی جوہر کے اسی جلسہ میں نوجوان عبدالولی خان اور عبدالغنی خان نے تحریکِ خلافت کے حق میں اپنی پشتو نظمیں پڑھی تھیں۔

یہ تھی وہ سامراج دشمن فضا جس میں خان عبدالغفار خان کی شروع کی ہوئی تعلیمی اور معاشرتی اصلاح کی تحریک رفتہ رفتہ ایک باغیانہ سیاسی تحریک میں ڈھلنے لگی تھی۔ اس تحریک پر برطانوی حکومت کا تشدد جوں جوں بڑھتا گیا تحریک سیاسی مزاحمت کا رنگ و آہنگ اپناتی چلی گئی۔ خان عبدالغفار خان سیاسی تشدد اور اسیری کے مصائب کو بہادری سے برداشت کرتے ہوئے اپنے اصلاحی پروگرام کو کبھی نہ بھولے۔ کانگرس کے ساتھ الحاق اور مہاتما گاندھی کے ساتھ اتحاد عمل درحقیقت برطانوی استعمار کے خلاف ایک متحدہ محاذ تھا۔ مسلمان اقلیت پر ہندو اکثریت کے استبداد سے وہ ہمیشہ باخبر بھی رہے اور پریشان بھی۔ جس زمانے میں کلکتہ، بہار اور یوپی کے ایک مقام گڑھ مکتیشر میں مسلمانوں کو انتہائی سفاکی کے ساتھ شہید کیا گیا عین اسی زمانے میں میرٹھ میں آل انڈیا کانگریس کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ پروفیسر محمد سرور نے لکھا ہے:

ڈاکٹر اشرف مرحوم نے مجھے بتایا کہ اجلاس کے دوران میں نے ایک دن خان عبدالغفار خان کو دیکھا کہ وہ گڑھ مکتیشر سے واپس آئے ہیں۔ وہ گرد و غبار سے اٹے ہوئے ہیں۔ چہرے پر غم و رنج کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں اور ان کی زبان سے بات نہیں نکلتی۔ کہنے لگے کہ گڑھ مکتیشر میں جو کچھ ہوا، میں دیکھ کر آ رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب! بتائیے ۔ اب کیا ہو؟ ڈاکٹر اشرف نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے ان سے کہا کہ بادشاہ خان! خود اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو جائیے۔ اور کانگریس کا سہارا چھوڑیئے۔ اگر آپ نے یہ کر لیا تو کوئی آپ کو شکست نہیں دے سکے گا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کہتے تھے کہ خان عبدالغفار خان کا جواب یہ تھا کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔

خان عبدالغفار خان ایک مدت سے جس وقت کے انتظار میں تھے وہ بالآخر قیام پاکستان کے جلو میں آ پہنچا۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کے ساتھ اپنی ملاقات میں انہوں نے اس ارادے کا اظہار کیا تھا کہ اب جبکہ انگریز یہاں سے چلا گیا ہے میں چاہتا ہوں کہ اب پھر سیاست چھوڑ کر اصلاحی سرگرمیوں کو اپنا مرکز و محور بناﺅں۔ اس پر قائداعظم نے انہیں اپنے بس سے بڑھ کر تعاون کا یقین دلایا مگر خان عبدالقیوم خان اور ان کے ہم سفروں کو قائداعظم اور باچا خان کے درمیان محبت و رفاقت کی گرمی پسند نہ آئی اور انہوں نے بہتان طرازی اور کذب بیانی سے پاکستان کو اس رفاقت کے ثمرات سے محروم کر دیا۔ خان عبدالغفار خان کے سوانح نگار فارغ بخاری نے اپنی کتاب ”باچا خان“ میں خوب روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ” باچا خان کی نظروں میں خدائی خدمتگار کا تصور اقبال کے مرد مومن سے بہت حد تک مشابہ ہے۔ خود باچا خان نے اپنی ایک تقریر کے دوران خدائی خدمتگار تحریک کے مقاصد پر روشنی ڈالتے وقت کہا تھا کہ یہ ایک روحانی تحریک ہے اس میں تھوڑے سپاہی ہوں لیکن نیک اور ایماندار ہوں اور اپنے نفس کے تابع نہ ہوں۔

باچا خان نے درج بالا اصول و اقدارکی ترویج و اشاعت کی خاطر مصائب و الائم برداشت کیے، افسوس صد افسوس کہ باچا خان کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد، ان کی سیاسی جماعت نے بھی خدائی خدمت گاری کا مسلک ترک کرکے فقط خاندان کی خدمت گاری کا سیاسی مسلک اپنا لیا۔ نتیجہ یہ کہ مشال خان، عبدالولی خان یونی ورسٹی میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا اور آج اُس کا خاندان باچا خان کے علاقے سے ہجرت پر مجبور ہے۔ ہمیں آج اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا زوال پسند علمی و سیاسی کلچر باچا خان کی میراث کو دریابرد کرنے پر کیوں مجبور کر رہا ہے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).