پانامہ پانامہ کے ہنگاموں میں پارا چنار


پاکستان کا شیعہ ہو یا سنی یا کسی اور مسلک سے تعلق رکھنے والا۔ اپنے سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے ریاستی قوتوںسے مذاکرات وہ اپنے مذہبی ”رہ نماﺅں “ کے ذریعے ہرگز نہیں کرنا چاہتا۔ قیامِ پاکستان کا مقدمہ لڑنے کے لئے انتخاب ہمارے بزرگوں نے قائدِ اعظم کا کیاتھا اور محمد علی جناح مقامی زبانوں سے نابلد ایک ”سوٹڈ بوٹڈ“ انسان تھے۔ اس دور کے کئی جید علماءنے ان کے ایمان پر سوالات بھی اٹھائے۔ ان کی ذاتی زندگی کو رکیک حملوں کا نشانہ بنایا۔ جناح کی صداقت ودیانت پر لیکن برصغیر کے مسلمانوں کی بے پناہ اکثریت کو بھرپور ایمان تھا۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی ان کا ذاتی مسلک تک معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ صرف ان کے دئیے پیغام پر توجہ دی اور بالآخر بظاہر ایک ”ناممکن“ یعنی پاکستان کی صورت برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک جدا وطن کا قیام ممکن کردکھایا۔
ترکی کو عثمانی ملوکیت کو ”تحریک ِ خلاف“ کے نام پر بچانے کی جذباتی فضا نے قائد اعظم کو بہت پریشان کیا تھا۔ اس کے بعد ہوئے انتخابات میں مسلم لیگ کی جانب سے کھڑے کئے امیدواروں کو شکست سے بھی دو چار ہونا پڑا تھا۔ وہ مایوس ہوکر لندن چلے گئے تھے۔ لاہور میں بیٹھے اقبال جنہیں ”فی سبیل اللہ فساد“ والے ”دینِ ملا“ کی خوب سمجھ تھی، انہیں مسلسل خطوط لکھ کر وطن لوٹنے پر آمادہ کرتے رہے۔ بالآخر قائد اعظم مان گئے اور واقعتا قیام پاکستان کی صورت ایک معجزہ ہوگیا۔
قیام پاکستان کے چند ہی ماہ بعد قائد اعظم کی رحلت نے مگر جو خلاءپید کیا اسے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے بہت مہارت سے اپنے احیاءکے لئے استعمال کیا۔ لاہور میں جنرل اعظم کا لگایا ”مارشل لائ“ درحقیقت مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی پھیلاتی قوتوں کے سامنے روایتی انتظامیہ کی بے بسی کا ٹھوس اظہار تھا۔ اپنی قوت کے ایسے مظاہرے کے باوجودبھی لیکن مذہب کے نام پر سیاست گری میں مصروف قوتیں فیلڈ مارشل ایوب خان کو ”عائلی قوانین“ کے اطلاق سے روک نہیں پائیں۔
1970ءکے انتخابات میں ”اسلام خطرے میں ہے“ کی دہائی مچانے کے باوجود مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں ”روٹی،کپڑا اور مکان“ کا نعرہ لگاتی پیپلز پارٹی کو شکست نہ دے پائی تھیں۔ اس وقت کے نوزائیدہ صوبے بلوچستان اور صوبہ سرحد میں بھی ”قوم پرستوں“ کو واضح اکثریت ملی۔ خان عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ بھی ان صوبوں میں بہت قوت کے ساتھ موجود نظر آئی۔ مرحوم مشرقی پاکستان نے بنگالیوں کے احساسِ محرومی کا اظہار کرنے والی عوامی لیگ کو حیران کن اکثریت سے نوازا۔ پیپلزپارٹی کے ”روشن خیال“ اور عوامی لیگ ونیشنل عوامی پارٹی میں موجود ”قوم پرست“ مگر سیاسی سمجھوتوں کی بصیرت سے محروم رہے۔پاکستان ان کی اس محرومی کی وجہ سے دولخت ہوگیا۔ صرف ”مغربی“ حصہ ہی پاکستان رہ گیا۔ سبق ہمارے ”روشن خیالوں“ اور ”قوم پرستوں“ نے پھر بھی نہیں سیکھا۔ اپنے تعصبات اور اناﺅں کے مسلسل اسیر رہے اور یہ کرتے ہوئے اصغر خان کے گرد جمع ہوئے کئی ”روشن خیالوں“ اور ولی خان سے جڑے ”قوم پرستوں“ نے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے ساتھ یکجا ہوکر 1977ءکی ”تحریکِ نظام مصطفی“ میں بھرپور حصہ لیا ۔سیاسی سمجھوتوں کی بصیرت سے سفاکانہ حد تک محروم اور اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں بٹے سیاست دانوں ہی نے 5جولائی 1977ءکا مارشل لاءلگانے کی راہ بنائی تھی۔
مارشل لاءلگانے والا ”میرے عزیز ہم وطنو“ کہنے کے بعد کسی سیاست دان کے لئے اقتدار کی راہ ہرگز ہموار نہیں کرتا۔ اسے قوم کو ”صحیح راستے“ پر ڈالنے کا فریضہ خود ہی سرانجام دینا ہوتا ہے۔جنرل ضیاءاس فریضے کو ہمارے ”امیر المومنین“ بن کر ادا کرنا چاہ رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد مگر وہ خود کو سیاسی طورپر تنہا محسوس کررہے تھے۔ انہیں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کی ضرورت تھی۔ خود کو ”امیر المومنین“ ثابت کرنے کے لئے انہوں نے مگر ”نظام زکوة“ لاگو کیا تو اسلام آباد میں پہلی بار ”دھرنا“ ہوگیا۔ اس کے بعد سے یہ بدنصیب ملک”مسلکی شناخت“ کے روگ سے جان نہیں چھڑاپایا ہے۔ مسلکی تقسیم کی آگ کو 8سالہ ایران عراق جنگ اور نام نہاد ”افغان جہاد“ نے مزید بھڑکایا۔ ہماری سیاسی قیادت نے اس مسلکی تقسیم کو بردباری کے ساتھ سمجھ کردلیری سے ختم کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ مختلف مسالک کے ”علماءاور شیوخ“ کے ناز نخرے اٹھاکر ”ڈنگ ٹپانے“ اور اپنی حکومتوں کی ”آئینی مدت“ مکمل کرنے کے فروعی کام میں مبتلا رہے۔
آصف علی زرداری کے دورِ اقتدار کے آخری ایام میں بلوچستان کی ہزارہ کمیونٹی پر پے در پے دہشت گردانہ حملے ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ہزارہ کمیونٹی ایک مسلک سے یقینی طورپر دل وجان سے وابستہ ہے۔ اپنے روزمرہّ معمولات میں لیکن وہ ہرگز فرقہ وارانہ تعصبات کی غلام نہیں۔ اس کمیونٹی کے ذہین ترین نمائندے ہمیشہ ”روشن خیال“ کہلاتی سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں۔ یہ وابستگی اس کمیونٹی کو جب تحفظ فراہم نہ کرپائی تو ان کے مسلک کی بنیاد پر سیاست کرنے والے ملاﺅں نے ”قیادت کا خلاءپُرکردیا“۔
پارا چنار کے حالیہ سانحے کے بعد مسلک کے نام پر سیاست کرنے والوں کو اپنی اہمیت ثابت کرنے کا ایک اور موقعہ نصیب ہوگیا تھا۔ہم اخبار نویسوں نے مگر اس بات کا ادراک ہی نہیں کیا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے کمال مہارت سے اس قضیے کو نمٹانے کے لئے کسی ”علامہ“ کا سہارا ہرگز نہیں لیا ہے۔بہت انتظار کے بعد جب آرمی چیف پارا چنار پہنچے تو وہاں سات دنوں سے دئیے دھرنے کے کرتا دھرتا افراد سے براہِ راست روابط استوار ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد مقامی ملا نہیں بلکہ پیشہ وارانہ طورپر ڈاکٹر انجینئر یا متحرک سماجی کارکن تھے۔ نام نہاد ”مسلکی“ رہ نماﺅں کو نظرانداز کرتے ہوئے پارا چنار میں دئیے دھرنے کے حقیقی رہ نماﺅں سے ان کے ٹھوس مطالبات کے حوالے سے سنجیدہ اور پُرخلوص مذاکرات ہوئے اور بالآخر بہت ہی معقول بنیادوں پر ایک سمجھوتہ طے پاگیا۔
پانامہ-پانامہ کے ہنگاموں سے لطف اٹھاتے ہمارے میڈیا نے پارا چنار کے حوالے سے ابھرے اس پہلو کو مگر اجاگر ہی نہیں کیا جو میری ناقص رائے میں ہماری عسکری قیادت کی جانب سے دکھائی ایک اہم ترین Paradigm Shiftہے۔ خدا کرے کہ ہم اس Shiftپر قائم رہ سکیں اور اپنے ہاں خوفناک حد تک پھیلی فرقہ وارانہ منافرتوں کا علاج ان ہی ”عطاروں “ سے حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں جو اس بیماری کو پھیلانے کا اصل سبب ہیں۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).