کچھ سویلین سیلوٹوں کی مذمت میں


محترمہ مریم نواز شریف کی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر ایس پی ارسلا سلیم صاحبہ ان کی طرف تیزی سے جھپٹیں اور اپنا ہاتھ فضا میں بلند کیا۔ اپنے ساتھ ہونے والے ممکنہ سلوک کے بارے میں میڈیا رپورٹس پڑھنے کے بعد جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر مریم صاحبہ پہلے ہی شدید پریشان ہوں گی اسی لئے جب ایک باوردی ایس پی کو انہوں نے اپنی طرف بڑھتے پایا اور یکلخت اس کا ہاتھ فضا میں بلند ہوتے دیکھا تو گھبرا کر ان کے ہاتھوں میں پکڑی پینسل چھوٹ کر زمین پر گر گئی۔ مگر ارسلا سلیم نے تو انہیں سیلوٹ کیا تھا۔ ارسلا سلیم نے غالباً انہیں تسلی دینے کی خاطر زمین سے پینسل اٹھائی اور مریم کو تھما دی جو انہوں نے پریشان ہو کر ایسے گاڑی میں واپس اچھالی جیسے ڈر کر کہہ رہی ہوں کہ ’یہ میری نہیں ہے، مجھ پر غلط الزام لگایا گیا ہے‘۔

اب آپ خود ہی دیکھیں۔ ایک باوردی پولیس افسر کی شان تو یہی ہے کہ مشکوک شخص، ملزم یا تفتیش کی غرض سے تھانے آئے شخص کو دیکھتے ہی اس کو دو چار لگا دے تاکہ اگر وہ جھوٹ بولنے کا ارادہ رکھتا ہو تو بدل دے۔ اس کے بعد اسے اپنے حوالداروں کے حوالے کر دے تاکہ وہ اس پر اتنا تشدد کریں کہ وہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کا الزام بھی قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ لیکن اگر ایک اعلی پولیس افسر اتنا خوش اخلاق ہو کہ شہریوں کو سیلوٹ کرنے لگے، یا غریب کے کھوکھے سے سرعام چائے پیے، یا کمہار کی جھونپڑی پر بیٹھ کر اس کا حال چال پوچھے، تو یہ تو ہماری پولیس کے نام کو بٹا لگانے والی بات ہوئی۔ بھلا ایک پولیس افسر بھی کبھی خوش اخلاق ہو سکتا ہے؟ پولیس کا کام تو ڈرانا دھمکانا ہے، شہریوں کو سلام یا سیلوٹ کرنا یا ان سے عزت سے پیش آنا نہیں۔

اس موقعے پر تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان صاحب اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکے اور انہوں نے فوراً ٹویٹ کی ”پاکستانی قوم کو ایک مرتبہ ہی ہمیشہ کے لئے یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہم ایک بادشاہت ہیں یا جمہوریت۔ یہ چیز ناقابل وضاحت ہے کہ ایک عام شہری مریم کیوں آفیشل پروٹوکول پا رہی ہے اور پولیس اسے سیلوٹ کر رہی ہے جب کہ وہ مجرمانہ تفتیش کے لئے جا رہی ہے“۔

عمران خان صاحب کی پولیس کے سیلوٹوں اور عام شہریوں کو پروٹوکول وغیرہ نہ دینے کے بارے میں رائے کو ہم حتمی سمجھتے ہیں کیونکہ وہ اکثر پختونخوا کے پولیس والوں سے عام شہریوں کو پروٹوکول دینے والے ایسے رویوں کے بارے میں تفتیش کرتے ہیں۔ ان کی ایسی کئی تصاویر ہم نے خود دیکھی ہیں جن میں وہ ایک عام شہری ہوتے ہوئے بھی نہایت دلیری سے صوبائی پولیس کے اعلی افسران پر گرفت کر رہے ہیں جبکہ صوبائی وزیراعلی تک پولیس سے خوف کھا کر پیچھے پیچھے ہو کر چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔

بہرحال جب عمران خان صاحب نے تنقید کی تو بی بی مریم نواز گھبرا گئیں۔ انہوں نے جھٹ ایک ایسی تصویر ٹویٹر پر ڈالی جس میں وہ اسلام آباد کی خواتین پولیس اہلکاروں کو سیلوٹ کر رہی ہیں۔ ساتھ یہ لکھ دیا کہ ”ہم بیٹیوں کو سلام کرتے ہیں، رینکس کو نہیں۔ اگر وہ آپ کی عزت کرتی ہیں تو جواب میں ان کی عزت کریں۔ تمام سیلوٹ پروٹوکول نہیں ہوتے۔ عزت دل سے کی جاتی ہے“۔ یہ تصویر غالباً پرانی ہے کیونکہ وہ ویڈیو میں تفتیشی کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے ہوئے سیلوٹ کرتی دکھائی نہیں دیں۔ وہ غالباً یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ پولیس والیوں کو سیلوٹ کرنے کی ریت انہوں نے ڈالی ہے اور اسی ریت کے تحت ایس پی ارسلا سلیم صاحبہ نے بھی ان کو سیلوٹ واجب نہ ہونے کے باوجود اخلاقاً سیلوٹ کیا ہے۔ ہم اس تصویر کے بارے میں یہی کہیں گے کہ یہ ضرور فوٹوشاپ کی گئی ہے کیونکہ بھلا مریم نواز شریف بھی کسی کو سلام کر سکتی ہیں؟ ویسے بھی ایسی غلط روایات جو خواتین سرکاری ملازمین کو عزت دیں، کیسے برداشت کی جا سکتی ہیں۔ وہ بھی اس خاتون کی جانب سے جو مستقبل میں وزیراعظم بن سکتی ہے۔

مریم نواز کے چند حامی یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ اگر ایس پی ارسلا سلیم اتنی ہی خوشامدی ہوتیں تو وہ مریم نواز کے دائیں بائیں پھرنے والے حسن و حسین نواز اور کیپٹن صفدر کو بھی سیلوٹ کرتیں اور صرف مریم نواز کو نہ کرتیں۔ ان تین کی طرف تو انہوں نے کوئی توجہ نہیں کی بلکہ صرف مریم کو ہی سیلوٹ کیا ہے اس لئے مریم کا موقف درست ہے کہ سیلوٹ کرنے کی روایت انہوں نے ڈالی ہے۔ ہماری رائے میں پولیس والوں نے آپس میں ڈیوٹی بانٹی ہوئی ہو گی اس لئے شریف خاندان کے مردوں کو مردانہ پولیس نے سیلوٹ کیا ہو گا صرف اسی وجہ سے ارسلا سلیم نے انہیں سیلوٹ نہیں کیا اور ان ڈھائی شریف مردوں کو سیلوٹ نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ارسلا سلیم نے مریم بی بی کو خوشامد میں سیلوٹ نہیں کیا تھا۔

کچھ افراد یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری یہ روایت ہے کہ آداب کہتے وقت پیشانی تک ہاتھ کو یوں اٹھایا جاتا ہے کہ ہتھیلی چہرے کی طرف ہوتی ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ یہ افراد جھوٹے ہیں مگر ہم نے شاعروں کو تو آداب کہتے دیکھا ہے مگر کسی نارمل شخص یا پولیس والے کو یہ حرکت کرتے کبھی نہیں پایا۔

چند افراد یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ پولیس کے ضابطے میں یہ تو درج ہے کہ کسے لازمی سیلوٹ کرنا ہے، مگر ایسی کوئی شے نہیں ہے جو یہ بتائے کہ کسے سیلوٹ نہیں کرنا ہے اور اپنی مرضی سے ایک باوردی شخص کسی بھی شہری کو سیلوٹ کر سکتا ہے۔ ان لوگوں کی رائے کو کچھ وزن دیا جا سکتا ہے کیونکہ لاہور میں کینٹ کو جانے والی چیک پوسٹوں پر تعینات فوجیوں سے ہم نے خود بارہا یہ سیلوٹ وصول کیے ہیں۔ کوئی ایک برس تک ہمارے بچے شرارت کے طور پر گزرتی گاڑی کے اندر سے ہی انہیں سیلوٹ کرتے تھے اور عام جوان سے لے کر افسر تک ان کو جواب میں فل سیلوٹ کیا کرتے تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان جوانوں کو ضرور سزا ملتی ہو گی کہ تم نے سویلین کو سیلوٹ کیوں کیا جبکہ ضابطے میں تو یہ کہیں درج نہیں ہے کہ تم ایسا کرو۔

فوجیوں کو ایسی ہی حرکت کرتے ہم نے ایک عام شہری عبدالستار ایدھی مرحوم کے جنازے پر بھی پایا ہے۔ نہ صرف یہ کہ آرمی چیف تک نے جنازے کو سیلوٹ کیا تھا بلکہ جنازے کو توپوں کی سلامی بھی دی گئی تھی۔ ہم جیسے کچھ لوگوں کے لئے یقین کرنا مشکل ہو گا مگر شبہ یہی ہوتا ہے کہ وردی والوں کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے اور وہ بھی انسان ہوتے ہیں۔ خواہ سیلوٹ کرنے کے ضابطے کچھ بھی کہیں مگر وہ انسانوں کو کتاب میں لکھے سے ہٹ کر بھی عزت و احترام دے سکتے ہیں۔

بہرحال ایس پی ارسلا سلیم کے خلاف چلنے والی مہم سے ہم اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ عام شہریوں کو عزت دینے کے اس مذموم رجحان کا سدباب کیا جانا چاہیے۔ ہم پولیس فورس کی نئی پود کے ایسے کئی افسران سے مل چکے ہیں جو عام افراد سے عزت سے پیش آتے ہیں اور ہم اس رجحان پر پریشان ہیں۔ اگر پولیس کا رعب داب نہیں ہو گا اور اسے دیکھتے ہی عام شہری خوف سے کانپنے نہیں لگیں گے تو قانون کی حکمرانی کیسے قائم ہو گی۔ ہماری رائے میں ایسے نئے ضوابط بنانے چاہئیں جو پولیس والوں کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ کسی بھی عام شہری کی عزت نہ کریں اور جو پولیس والا ایسا کرے اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔

7 جولائی 2017

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar