ذرا ہور اُوپر


پاشا دولہن کچھ بول ہی نہ سکیں ، بولنے کو تھا بھی کیا؟ جو چپکی ہوئیں تو بس چپ ہی لگ گئی۔ اب محل کے سارے ہنگامے، ساری چہل پہل، ساری دھوم دھام ان کے لئے بے معنی تھی۔ ورنہ وہی پاشا دولہن تھیں کہ ہر کام میں گھسی پڑتی تھیں …. پہلے تو دل میں آیا کہ جتنی بھی یہ جوان جوان حرام خورنیاں ہیں انہیں سب کو ایک سرے سے برطرف کر دیں ، لیکن روایت سے اتنی بڑی بغاوت کر بھی کیسے سکتی تھیں ؟ پھر اپنے مقابل کی حیثیت والیوں میں یہ مشہور ہو جاتا کہ اللہ مارے کیسے نواباں ہیں کہ کام کاج کو چھوکریاں نہیں رکھے۔ بس ہر طرف سے ہار ہی ہار تھی۔ دل پر دکھ کی مار پڑی تو جیسے ڈھیر ہی ہو گئیں۔ نئی نئی بیماریاں بھی سر اٹھانے لگیں ، کمر میں درد، سر میں درد، پیروں میں درد، ایک اینٹھن تھی کہ جان لئے ڈالتی۔ حکیم صاحب بلوائے گئے، اس زمانے کے حیدرآباد میں مجال نہ تھی کہ حکیم صاحب محل والیوں کی جھپک تک دیکھ سکیں۔ بس پردے کے پیچھے سے ہاتھ دکھا دیا جاتا۔ پھر ساتھ میں ایک بی بی ہوتیں جو حکیمن اماں کہلاتی تھیں …. وہ سارے معائنے کرتیں اور یوں دوا تجویز ہوتی بس حکیم صاحب نبض دیکھنے کے گناہگار ہوتے۔

پاشا دولہن کی کیفیت سن کر حکیم صاحب کچھ دیر کے لئے خاموش رہ گئے انہوں نے بظاہر غیر متعلق سی باتیں پوچھیں جس کا دراصل اس بیماری سے بڑا گہرا تعلق تھا۔

’’نواب صاحب کہاں سوتے ہیں ؟‘‘

حکیمن اماں نے پاشا دولہن سے پوچھ کر بات آگے بڑھائی…. ’’جی انوں تو مردانے میں اچ سوتے ہیں۔‘‘

اب حکیم صاحب بالکل خاموش رہ گئے۔ سوئے ادب! کچھ کہتے تو مشکل نہ کہتے تو مشکل۔ بہرحال ایک تیل مالش کے لئے دے گئے۔

پاشا دلہن کو ان کم بخت باندیوں سے نفرت ہو گئی تھی۔ بس نہ چلتا کہ سامنے آتیں اور یہ کچا چبا جاتیں۔ باندیوں میں سے کسی کو انہوں نے اپنے کام کے لئے نہ چنا۔ حویلی کا ہی پالا ہوا چھوٹا سا چھوکرا تھا۔انہوں نے طے کر لیا کہ مالش اسی سے کرائیں گے۔ چودہ پندرہ برس کے چھوکرے سے کیا شرم؟

اسی بیچ میں دو تین بار نواب صاحب اور دولہن پاشا کی خوب زور دار لڑائی ہوئی۔ شکر ہے کہ جو نوبت طلاق تک نہ پہنچی۔ اب تو نواب صاحب کھلم کھلا کہتے تھے…. ہاں میں آج اس کے ساتھ رات گزارا۔ اس کے ساتھ مستی کیا، تم نا کچھ بولنا ہے؟‘‘

پاشا دولہن بھی جی کھول کر کوستیں کاٹتیں۔ ایک دن دبے الفاظ میں جب انہوں نے اپنی ’’بھوک‘‘ کا ذکر کیا تو نواب صاحب ذرا حیرت سے انہیں دیکھ کر بولے، ’’دیکھو اللہ میاں کو معلوم تھا کہ مرد کو کچھ زیادہ ہونا پڑتا اس واسطے اچ اللہ میاں مردوں چار، چار شادیوں کی اجازت دیا۔ ایسا ہوتا تو عورتاں کو کیوں نئیں دے دیتا تھا۔‘‘

یہ ایک ایسا نکتہ نواب صاحب نے پکڑا کہ پاشا دولہن تو بالکل ہی لاجواب ہو کر رہ گئیں اور یوں رہی سہی جو بھی پردہ داری تھی بالکل ہی ختم ہو کر رہ گئی۔ اس صبح ہی کی بات تھی کہ انہوں نے سر میں تیل ڈالنے کو چنبیلی کے تیل کی شیشی اٹھائی اور وہ کم بخت ہاتھ سے ایسی چھوٹی کہ ندی سی بہہ اٹھی۔ گھبرا کر انہوں نے پاس کھڑی گل بدن کو پکارا ’’بیکار بہہ کو جارا تو اچ اپنے سر میں چپڑ لے۔‘‘

اور رات کو وہ ساری خوشبو نواب صاحب کے بدن میں منتقل ہو گئی، جس کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے انہیں ذرا سی جھجک یا شرم محسوس نہیں ہوئی۔

پتہ نہیں یہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں عورت بیسی اور گھیسی۔ عورت تو تیس کی ہو کر کچھ اور ہی چیز ہو جاتی ہے۔ ان دنوں کوئی پاشا دولہن کا روپ دیکھتا۔

چڑھتے چاند کی سی جوانی، پور پور چٹخا پڑتا۔ برسات کی راتوں میں ان کے جسم میں وہ تناؤ پیدا ہو جاتا جو کسی استاد کے کسے ہوئے ستار میں کیا ہو گا۔ اتنا سا چھوکرا کیا اور اس کی بساط کیا۔ سر اور کمر سے نپٹ کر وہ پیروں کے پاس آ کر بیٹھتا تو اس کے ہاتھ دکھ دکھ جاتے۔ پنڈلیوں کو جتنی زور سے دباتا، وہ یہی کہے جاتی۔

’’کتے! ہلو ہلو دباتا رے تو…. ذرا تو طاقت لگا۔‘‘
چودہ پندرہ سال کا چھوکرا، ڈر ڈر کے سہم سہم کر دبائے جاتا کہ کہیں زور سے دبا دینے پر پاشا ڈانٹ نہ دیں ، اتنی بڑی حویلی کی مالک جو تھیں۔

حویلی میں ان دنوں خواتین میں کلی دار کرتوں پر چوڑی دار پاجامے پہننے کا رواج تھا۔ لڑکیاں بالیاں غرارے بھی پہن لیتیں …. اور بڑے ہنگاموں کے بعد اب ساڑھی کا بھی نزول ہوا تھا، مگر بہت ہی کم پیمانے پر….

چوڑی دار پاجامے میں پنڈلیاں صرف دبائی جا سکتی تھیں ، تیل مالش کیا خاک ہوتی؟ پاشا دولہن نے ماما کو بلوا کر اپنے پاس کھڑا کیا، یہ حویلی کے کسی بھی نوکر کے لئے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ پھر پاشا بولیں۔

’’دیکھو یہ انے چھوکرا رحمت ہے نا؟ اس کو کھانے پینے کو اچھا اچھا دیو…. ناشتے میں اصلی گھی کے پراٹھے بھی دیو۔ انے میرے پیراں کی مالش کرتا، مگر ذرا بھی اس میں طاخت نئیں۔ اب میں جتا کو دی۔‘‘

پھر خود انہوں نے غرارہ پہننا شروع کر دیا تاکہ پنڈلیوں کی اچھی طرح مالش ہو سکے اور انہیں درد سے نجات ملے۔
اب جو دوپہر کو مالش شروع ہوتی تو ایک ہی مکالمے کی گردان رحمت کے کانوں سے ٹکراتی۔

’’ذرا ہور اوپر!‘‘
وہ سہم سہم کر مالش کرتا، ڈر ڈر کر پاشا کا منہ تکتا۔ تیل میں انگلیاں چپڑ کر وہ غرارہ ڈرتے ڈرتے ذرا اوپر کھسکاتا کہ کہیں سجر، اطلاس یا کمخواب کے غرارے کو تیل کے دھبے بدنما نہ بنا دیں۔ چم چماتی پنڈلیاں تیل کی مالش سے آئینہ بنتی جا رہی تھیں۔ رحمت غور سے دیکھتے دیکھتے گھبرا گھبرا کر اٹھتا کہ کہیں ان میں اس کا چہرہ نہ دکھائی دے جائے۔

ایک رات دولہن پاشا کے پیروں میں کچھ زیادہ ہی درد اور اینٹھن تھی۔ رحمت مالش کرنے بیٹھا تو سہمتے سہمتے اس نے پنڈلیوں تک غرارہ کھسکایا۔

’’ذرا ہور اوپر‘‘ دولہن پاشا کسمسا کر بولیں ، ’’آج اجاڑ اتا درد ہو ریا کہ میرے کو بخار جیسا لگ ریا۔ گھنٹوں تک مالش کر ذرا، تو تو خالی بس پنڈلیاں اچ دبا ریا۔‘‘

رحمت نے بخار کی سی کیفیت اپنے اندر محسوس کی۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے غرارہ اور ’’اوپر‘‘ کھسکایا اور ایک دم ناریل کی طرح چکنے چکنے اور سفید مدور گھٹنے دیکھ کر بوکھلا سا گیا۔ ترتراتے گھی کے پراٹھوں ، دن رات کے میوؤں اور مرغن کھانوں نے اسے وقت سے پہلے ہی اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا، جہاں نیند کی بجائے جاگتے میں ایسے ویسے خواب دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس نے ہڑبڑا کر غرارہ ٹخنوں تک کھینچ دیا تو اونگھتی ہوئی پاشا دولہن بھنا گئیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

واجدہ تبسم
Latest posts by واجدہ تبسم (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3