ذرا ہور اُوپر


نواب صاحب نوکر خانے سے جھومتے جھامتے نکلے تو اصلی چنبیلی کے تیل کی خوشبو سے ان کا سارا بدن مہکا جا رہا تھا۔

اپنے شاندار کمرے کی بے پناہ شاندار مسہری پر آ کر وہ دھپ سے گرے تو سارا کمرہ معطر ہو گیا…. پاشا دولہن نے ناک اٹھا کر فضا میں کچھ سونگھتے ہی خطرہ محسوس کیا۔ اگلے ہی لمحے وہ نواب صاحب کے پاس پہنچ چکی تھیں …. سراپا انگارہ بنی ہوئی۔

’’سچی سچی بول دیو، آپ کاں سے آرئیں …. جھوٹ بولنے کی کوشش نکو کرو….‘‘
نواب صاحب ایک شاندار ہنسی ہنسے۔
’’ہمنا جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ جو تمے سمجھے وہ ہیچ سچ ہے۔‘‘

’’گل بدن کے پاس سے آرئیں نا آپ؟‘‘
’’معلوم ہے تو پھر پوچھنا کائے کو؟‘‘

جیسے آگ کو کسی نے بارود دکھا دی ہو۔ پاشا دولہن نے دھنا دھن پہلے تو تکیہ کوٹ ڈالا، پھر ایک ایک چیز اٹھا اٹھا کر کمرے میں پھینکنی شروع کر دی، ساتھ ہی ساتھ ان کی زبان بھی چلتی جا رہی تھی۔

’’اجاڑ انے ابا جان اور امنی جان کیسے مردوئے کے حوالے میرے کو دیئے غیرت شرم تو چھوکر بھی نئیں گئی۔ دنیا کے مردوئے ادھر ادھر تانک جھانک کرتے نہیں کیا، پر انے تو میرے سامنے کے سامنے اودھم مچائے رہئیں۔ ہور اجاگری تو دیکھو، کتے مزے سے بولتیں ، معلوم ہے تو پھر پوچھنا کائے کو؟ میں بولتیوں اجاڑ یہ آگ ہے کیسی کی بجھتی اچ نئیں۔ کتے عورتوں انے ایک مردوئے کو ہونا جی‘‘…. اب وہ ساتھ ساتھ پھپھک پھپھک کر رونے بھی لگی تھیں …. ’’اجاڑ میرے کو یہ زندگی نکو۔ اپنا راج محل تمچ سنبھالو…. میرے کو آجچ طلاخ دے دیو، میں ایسی کال کونڈی میں نئیں رہنے والی….‘‘

مگر جو پیاسا زور کی پیاس میں پانی چھوڑ شراب پی کر آیا ہو، وہ بھلا کہیں اتنی دیر تک جاگتا ہے؟ اور عورت کی گرمی ملے تو یوں بھی اچھا بھلا مرد پٹ کر کے سو جاتا ہے…. نواب صاحب بھی اس وقت اس تمام ہنگامے سے بے خبر گہری نیند سو چکے تھے۔

کیسی زندگی پاشا دولہن گزار رہی تھیں۔ بیاہ کر آئیں تو بیس سے ادھر ہی تھیں۔ اچھے برے کی اتنی بھی تمیز نہ تھی کہ میاں کے پیر دکھیں تو رات بے رات خود ہی دبا دیں۔ جوانی کی نیند یوں بھی کیسی ہوتی ہے کہ کوئی گھر لوٹ کر لے جائے اور آنکھ تک نہ پھڑکے۔ جب بھی راتوں میں نواب صاحب نے درد کی شکایت کی، انہوں نے ایک کروٹ لے کر اپنے ساتھ آئی باندیوں میں سے ایک آدھ کو میاں کی پائنتی بٹھا دیا اور اسے ہدایت کر دی، ’’لے ذرا سرکار کے پاؤں دبا دے، میرے کو تو نیند آرئی۔‘‘

صبح کو یہ خود بھی خوش باش اٹھتیں اور نواب صاحب بھی…. کبھی کبھار نواب صاحب لگاوٹ سے شکایت بھی کرتے۔
’’بیگم آپ بھی تو ہمارے پاواں دبا دیو، آپ کے ہاتھاں میں جو لذت ملے گی، وہ انے حرام زادیاں کاں سے لائیں گے۔‘‘

مگر یہ بلبلا جاتیں …. ’’ہور یہ ایک نوی بات سنو، میں بھلا پاواں دبانے کے لاخ ہوں کیا، اس واسطے تو امنی جان باندیاں کی ایک فوج میرے ساتھ کر کو دیئے کہ بیٹی کو تخلیف نئیں ہونا بول کے۔‘‘

اور نواب صاحب دل میں بولتے…. خدا کرے تمے ہور گہری نیند سو…. تمہارے سوتے اچ ہمارے واسطے تو جنت کے دروازے کھل جا تئیں۔

مگر دھیرے دھیرے پاشا دولہن پر یہ بھید یوں کھلا کہ نواب صاحب نئی نویلی دولہن سے ایک سر بے گانہ ہوتے چلے گئے…. اب بیاہی بھری تھیں اتنا تو معلوم ہی تھا کہ جس طرح پیٹ کی ایک بھوک ہوتی ہے اور بھوک لگنے پر کھانا کھایا جاتا ہے اسی طرح جسم کی ایک بھوک ہوتی ہے اور اس بھوک کو بھی بہرطور مٹایا ہی جاتا ہے۔ پھر نواب صاحب ایسے کیسے مرد تھے کہ برابر میں خوشبوؤں میں بسی دولہن ہوتی اور وہ ہاتھ تک نہ لگاتے…. اور اب تو یہ بھی ہونے لگا تھا کہ رات بے رات کبھی ان کی آنکھ کھلتی…. تو دیکھتیں کہ نواب صاحب مسہری سے غائب ہیں ….

اب غائب ہیں تو کہاں ڈھونڈیں ؟ حویلی بھی تو کوئی ایسی ویسی حویلی نہ تھی۔ حیدرآباد کن کے مشہور نواب ریاست یار جنگ کی حویلی تھی کہ پوری حویلی کا ایک ہی چکر لگانے بیٹھو تو موئی ٹانگیں ٹوٹ کے چورا ہو جائیں۔ پھر رفتہ رفتہ آنکھیں کھلنی شروع ہوئیں۔ کچھ ساتھ کی بیاہی سہیلیوں کے تجربوں سے پتہ چلا کہ مرد پندرہ پندرہ بیس بیس دن ہاتھ تک نہ لگائے، راتوں کو مسہری سے غائب ہو جائے تو دراصل معاملہ کیا ہوتا ہے…. لیکن یہ ایسی بات تھی کہ کسی سے کچھ بولتے بنتی نہ بتاتے…. مشورہ بھی کرتیں تو کس سے؟ اور کرتیں بھی تو کیا کہہ کر؟ کیا یہ کہہ کر میرا میاں عورتوں کے پھیر میں پڑ گیا ہے، اسے بچاؤں کیسے؟ اور صاف سیدھی بات تو یہ تھی کہ مرد وہی بھٹکتے ہیں جن کی بیویوں میں انہیں اپنے گھٹنے سے باندھ کر رکھنے کا سلیقہ نہیں ہوتا…. وہ بھی تو آخر مرد ہی ہوتے ہیں جو اپنی ادھیڑ ادھیڑ عمر کی بیویوں سے گوند کی طرح چپکے رہتے ہیں۔

غرض ہر طرف سے اپنی ہاری اپنی ماری تھی، لیکن کر بھی کیا سکتی تھیں ؟ خود میاں سے بولنے کی تو کبھی ہمت ہی نہ پڑی۔ مرد جب تک چوری چھپے منہ کالا کرتا ہے، ڈرا سہما ہی رہتا ہے اور جہاں بات کھل گئی وہیں اس کا منہ بھی کھل گیا۔ پھر تو ڈنکے کی چوٹ کچھ کرتے نہیں ڈرتا۔ لیکن ضبط کی بھی ایک حد ہوتی ہے…. ایک دن آدھی رات کو یہ تاک میں بیٹھی ہوئی تھیں ، آخر شادی کے اتنے سال گزار چکی تھیں ، دو تین بچوں کی ماں بھی بن چکی تھیں ، اتنا حق تو رکھتی ہی تھیں ، اور عقل بھی کہ آدھی رات کو جب مرد کہیں سے آئے اور یوں آئے کہ چہرے پر یہاں وہاں کالک ہو تو وہ سوا پرائی عورت کے کاجل کے اور کاہے کی کالک ہو سکتی ہے؟ کیونکہ بہرحال دنیا میں اب تک یہ تو نہیں ہوا ہے کہ کسی کے گناہوں سے منہ کالا ہو جائے۔

جیسے ہی نواب صاحب کمرے میں داخل ہوئے کہ چیل کی طرح جھپٹیں اور ان کے چہرے کے سامنے انگلیاں نچا کر بولیں ، ’’یہ کالک کاں سے تھوپ کو لائے؟

اور نواب صاحب بھی آخر نواب ہی تھے، کسی حرام کا تخم تو تھے نہیں ، اپنے ہی باپ کی عقد خوانی کے بعد والی حلال کی اولاد تھے، ڈرتا ان کا جوتا۔ بڑے رسان سے بولے ’’یہ مہرو کم بخت بہت کاجل بھرتی ہے اپنے آنکھاں میں ، لگ گیا ہوئیں گا، اسی کا….‘‘

ایسے تہئے سے تو پاشا دولہن اٹھی تھیں مگر یہ سن کر وہیں ڈھیر ہو گئیں …. اگر مرد ذرا بھی آناکانی کرے تو عورت کو گالیاں دینے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو صاف سیدھی طرح انہوں نے گویا اعلان کر دیا کہ…. ’’ہاں ، ہاں …. میں نے بھاڑ جھونکا…. اب بولو….!‘‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

واجدہ تبسم
Latest posts by واجدہ تبسم (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3