ذرا ہور اُوپر


Principal Street, Hyderabad, by Lala Deen Dayal, c. 1888

’’ہورے، میں کیا بول رئی ہو، تو کیا کر ریا؟‘‘ انہوں نے ذرا سر اٹھا کر غصے سے کہا…. وہاں ان کے سرہانے سنسناتا ہوا، جوان ہوتا ہوا، وہ چھوکرا بیٹھا تھا جسے انہوں نے اس لئے چنا تھا کہ انہیں چھوکریوں سے از حد نفرت ہو گئی تھی کہ…. کم بختیں ان کے میاں کو ہتھیا ہتھیا لیتی تھیں۔

انہوں نے غور سے اسے دیکھا۔ اسے نے بھی ڈرتے ڈرتے سہمی، مگر ذرا غور سے انہیں دیکھا اور اک دم سر جھکا لیا۔

ٹھیک اسی وقت نواب صاحب کمرے میں داخل ہو گئے۔ جانے کون سا نشہ چڑھا کر آئے تھے کہ جھولے ہی جا رہے تھے۔ آنکھیں چڑھی پڑ رہی تھیں۔ مگر اتنے نشے میں بھی بیگم کے قدموں میں اسے بیٹھا دیکھ کر چونک اٹھے۔

’’یہ انے حرام زادہ مسٹنڈا یہاں کیا کرنے کو آیا بول کے؟‘‘

رحمت تو نواب صاحب کو دیکھتے ہی دم دبا کر بھاگ گیا مگر پاشا دولہن بڑی رعونت سے بولیں ، ’’آپ کو میرے بیچ میں بولنے کا کیا حخ ہے؟‘‘

’’حخ؟ وہ گھور کر بولے، ’’تمہارا دھگڑا ہوں ، کوئی پالکڑا نئیں ، سمجھے۔ رہی حخ کی بات، سو یہ حخ اللہ اور اس کا رسول دیا…. کون تھا وہ مردود؟‘‘

’’آپ اتنے سالاں ہو گئے، آپ ایکو ایک چھوکری سے پاواں دبائے رئیں ، ہور اللہ معلوم ہور کیا کیا تماشے کر لے رئیں ، وہ سب کچھ نئیں ، ہور میں کبھی دکھ میں ، بیماری میں مالش کرانے ایک آدھ چھوکرے کو بٹھا لی تو اتے حساباں کائے کو؟‘‘

’’اس واسطے کی مرد بولے تو دالان میں بچھا خالین ہوتا کہ کتے بھی پاواں اس پہ پڑے تو کچھ فرخ نئیں پڑتا۔ ہور عورت بولے تو عزت کی سفید چدر ہوتی کہ ذرا بھی دھبا پڑا تو سب کی نظر پڑ جاتی….‘‘

دولہن پاشا بلبلا کر بولیں ، ’’ائی اماں ، بڑی تمہاری عزت جی، ہور تمہاری بڑی شان، اپنے دامن میں اتے داغاں رکھ کو دوسرے کو کیا نام رکھتے جی تمے، ہور کچھ نئیں تو اتے سے پوٹے کے اپر اتا واویلا کر لیتے بیٹھیں۔‘‘

اک دم نواب صاحب چلائے، تمنا وہ پوٹا اتا اتا سا دکھتا؟ ارے آج اس کی شادی کرو نو مہینے میں باپ بن کر دکھا دیں گا۔ میں جتا دیا آج سے اس کا پاؤں نئیں دکھنا تمہارے کمرے میں ….‘‘

پاشا دولہن تن کر بولیں ، ’’ہور دکھا تو؟‘‘
’’دکھا تو طلاخ….‘‘ وہ آخری فیصلہ سناتے ہوئے بولے۔
’’ابھی کھڑے کھڑے دے دیو۔‘‘ پاشا دولہن اسی تہئے سے بولیں۔

ایک دم نواب صاحب سٹ پٹا کر رہ گئے۔ بارہ تیرہ سال میں کتنی بار تو تو، میں میں ہوئی، کتنے رگڑے جھگڑے ہوئے…. با عزت، با وقار دو خاندانوں کے معزز میاں بیوی، جو پہلے ایک دوسرے کو آپ، آپ کہتے نہ تھکتے تھے اب تم تمار تک آ گئے تھے…. مگر یہ نوبت تو کبھی نہ آئی تھی، خود پاشا دولہن نے ہی کئی بار یہ پیشکش کی کہ ایسی زندگی سے تو اجاڑ میرے کو طلاخ دے دیو…. لیکن یہ کبھی نہ ہوا تھا کہ خود نواب صاحب نے یہ فال بدمنہ سے نکالی ہو…. اور اب منہ سے نکالی بھی تو یہ کہاں سوچا تھا کہ وہ کہیں گی کہ ’’ہاں …. ابھی کھڑے کھڑے دے دیو!!‘‘

مگر پاشا دولہن کی بات پوری نہیں ہوئی تھی۔ ایک ایک لفظ پہ زور دیتے ہوئے وہ تمتماتے چہرے کے ساتھ بولیں …. ’’ہور طلاخ لئے بعد سارے حیدرآباد کو سناتی پھروں گی کہ تمے عورت کے لائخ مرد نئیں تھے۔ یہ بچے تمہارے نئیں۔ اب چھوڑو میرے کو…. ہور دیو میرے کو طلاخ!‘‘

یہ عورت چاہتی کیا ہے آخر؟…. نواب صاحب نے سر پکڑ لیا…. انہوں نے ذرا شک بھری نظروں سے بی بی کو دیکھا…. کہیں دماغی حالت مشتبہ تو نہیں وہ سنا رہی تھیں۔

’’اس حویلی میں دکھ اٹھائی نا میں …. تمہارے ہوتے اب سکھ میں بھی اٹھاؤں گی…. تمہارے اچ ہوتے سن لیو۔‘‘

دوسری رات پاشا دولہن نے سرسراتی ریشمی ساڑھی اور لہنگا پہنا۔ خود بھی تو ریشم کی بنی ہوئی تھیں۔ اپنے آپ میں پھسلی پڑ رہی تھیں۔ پھر جب رحمت مالش کرنے بیٹھا تو بس بیٹھا ہی رہ گیا۔

دیکھتا کیا ہے رے؟ ہاتھوں میں دم نئیں کیا؟
اس نے سرسراتا لہنگا ڈرتے ڈرتے ذرا اوپر کیا۔

اس کو مالش بولتے کیا رے نکمے! ان کی ڈانٹ میں لگاوٹ بھی تھی۔
رحمت نے سرخ ہوتی کانوں سے پھر اور سنا…. ’’ذرا ہور اوپر۔‘‘

’’ذرا ہور اوپر….‘‘
گہرے اودے رنگ کا لہنگا اور گہرے رنگ کی ساڑھی ذرا اوپر ہوئی اور جیسے بادلوں میں بجلیاں کوندیں۔

’’ذرا ہور اوپر….‘‘
’’ذرا ہور اوپر….‘‘
’’ذرا ہور اوپر….‘‘
’’ذرا ہور اوپر….‘‘

تلملا کر صندل کے تیل سے بھری کٹوری اٹھا کر رحمت نے دور پھینک دی، اور اس ’’بلندی‘‘ پر پہنچ گیا جہاں تک ایک مرد پہنچ سکتا ہے اور جس کے بعد ’’ذرا ہور اوپر‘‘ کہنے سننے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔

دوسرے دن پاشا دولہن پھول کی طرح کھلی ہوئی تھیں۔ صندل ان کی من پسند خوشبو تھی۔ صندل کی مہک سے ان کا جسم لدا ہوا تھا…. نواب صاحب نے رحمت سے پانی مانگا تو وہ بڑے ادب سے چاندی کی طشتری میں چاندی کا گلاس رکھ کر لایا…. جھک کر پانی پیش کیا تو نہیں ایسا لگا کہ وہ صندل کی خوشبو میں ڈوبے جا رہے ہیں۔ گلاس اٹھاتے اٹھاتے انہوں نے مڑ کر بیگم کو دیکھا جو ریشمی گدگدے بستر میں اپنے بالوں کا سیاہ آبشار پھیلائے کھلی جا رہی تھیں …. ایک فاتح مسکراہٹ ان کے چہرے پر تھی۔

وہ انہیں سنانے کو رحمت کی طرف دیکھتے ہوئے زور سے بولے ’’کل تیرے کو گاؤں جانے کا ہے، وہاں پر ایک منشی کی ضرورت ہے بول کے۔‘‘

رحمت نے سر جھکا کر کہا، ’’جو حکم سرکار….‘‘
نواب صاحب نے پاشا دولہن کی طرف مسکرا کر دیکھا…. ایک فاتح کی مسکراہٹ۔

دو گھنٹے بعد پاشا دولہن اپنی شاندار حویلی کے بے پناہ شان دار باورچی خانے میں کھڑی ماما کو ہدایت دے رہی تھیں۔

’’دیکھو ماما بی، انے یہ اپنی زبیدہ کا چھوکرا ہے نا شرفو…. اس کو ذرا اچھا کھانا دیا کرنا…. آج سے یہ میرے پاواں دبایا کریں گا…. مالش کرنے کو ذرا ہاتھاں پاواں میں دم ہونے کو ہونا نا؟‘‘

’’بروبر بولتے بی پاشا آپ۔‘‘ ماما بی نے اصلی گھی ٹپکتا انڈوں کا حلوہ شرفو کے سامنے رکھتے ہوئے پاشا دولہن کے حکم کی تعمیل اسی گھڑی سے شروع کر دی۔

واجدہ تبسم
Latest posts by واجدہ تبسم (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3