سندھ کے مور اب مرنے لگے


کراچی شہر میں کمال ہی کمال ہے، یہاں پی ایس پی کا مصطفٰی کمال بھی ہے ایم کیو ایم کا دھمال بھی، پیپلزپارٹی کا جمال بھی ہے، مگر اس سب کے باوجود اس شہر کو لاحق زوال بھی ہے،

ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں، کچرے کے انبار، دھول مٹی ٹھاٹھیں مارتی گاڑیوں کی قطاروں سے خارج ہونے والی آلودگی، فیکٹریوں کے دروازوں پر کھڑے لوگوں کے مایوس و منتظر چہرے، تاجروں کے خالی پن کی جمائیاں، بدحال بیمار عورتوں کا دروازوں پر اپنے ناتواں بچوں کو لئٹائے ہوا کھلانا، جوا کھیلتے لوگوں کی ٹولیاں، ٹرانسپورٹ کا بے ہنگم و بے ہودہ دقیانوسی نظام، ٹریفک اہلکاروں کا گاڑیوں میں جھانکنا، مڑ کر خاموشی سے ایک ہاتھ جیب میں لیجانا سب وہی کا وہی ہے، بچہ بے حال، ماں بے قرار، جوان بے روزگار و بدکار، بوڑھا بے یارو مددگار، چاروں جانب جھوٹے سیاسی غمخوار، ہر آدمی ہر انسان بدحالی میں گرفتار، سب کچھ ویسے کا ویسا ہیں، جیسا پیپلز پارٹی کی حکومت سے پہلے تھا، جیسا نواز شریف کے اقتدار میں آنے سے قبل تھا۔

بہت ترس آیا اس شہر کے لوگوں پر اس وقت جب پیپلزپارٹی کے ایک سیٹ جیتنے پر یہاں کے لوگ ناچنا شروع ہوئے۔

اتنا تو بمبینو سینما کا بھنگی بھی جانتا ہے کا زرداری ایک کرپٹ انسان ہے۔ پھر اس پڑھے لکھے شہر کے ان پڑھاکووں کو کیا ہوگیا، آنکھ بھی رکھتے شعور بھی، مگر پھر بھی تغافل کا مظاہرہ؟

کراچی کو چھوڑ دیں، اندرون سندھ کو دیکھ لیں۔

سندھ دھرتی کی ستائش پر لکھی نظمیں، داستانیں، سفر نامے، خوبصورت و زرخیز تاریخی پس منظر کی روداد، آج وہ ایک ایک لفظ شرمندہ ہے جن کو جوڑ کر سندھ دھرتی کے زینت کا ہار پرویا گیا تھا۔

ثقافت خوبصورت مگر وڈیروں و مقتدر حلقوں کے دل بدصورت ہے۔ مان لیتے ہیں سندھ میں زمین پر خشک سالی کا راج ہے۔ مگر یہ خشک سالی جب راہنماؤں کے دلوں میں اترتی ہے۔ تو دماغ دشت بن جاتے ہیں۔ اور دشت میں قانون صرف بھوک و پیاس کا رائج رہتا ہے۔

دریا سندھ بہہ رہا ہے جبکہ پیاسا پھر بھی خالی کٹورا پکڑے آہستہ آہستہ ان بے ضمیر حکمرانوں کے ہوس کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔ کتنا مجبور کردیا ہے لوگوں کو اب سندھی ٹوپی میں جڑیں نگینوں کی چمک پر چہروں کی ویرانی غالب ہے۔ اجرک کی اس پھولدار سرخی کو بے آب و گیاہ بنجر زمینوں کے گرم سنگ ریزوں نے زردی مائل کردیا۔ ویرانوں میں مردوں اونٹوں کی ہڈیوں ٹونکتے گدھ بتا رہے ہیں کہ یہ دور ہمارا دور ہے۔ یہاں کے موروں سے کہہ دو کہیں اور بسیرا کرلیں۔

انسان بہت سخت شے ہے ہر افت مصبیت و جدائی کو برداشت کرلیتا ہے مگر پرندے اساس ہوتے ہیں۔ گدھوں کی اکثریت کی تاب نا لاتے ہوئے ائے دن ان خوبصورت پرندوں کی جان نکل رہی ہے۔ وقت موجود انسانوں کی جان بڑی بے وقعت سی شے ٹھہری ہے۔ ان موروں کا رونا اس لئے بھی رو لیا، کہ مور پنکھ ہمارے ہاں مقدس مانے جاتے ہیں۔ ان کو جگہ کلام پاک کے صفحات کے بیچ عطا ہوتی ہے۔ شاید اس واسطے ہی کوئی نظر کرم کردے۔

زمین کو باغ و کھیت میں انسان ہی نے تو بدلا ہے۔ پانی کے قدرتی ذخائر سے مصنوعی نہری نظام کا اجرا اس انسان کے ہاتھوں تو ہوا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کونسی معذوری ہیں جس کے باعث یہ بھٹو خاندان، جتوئی خاندان، زرداری خاندان، نجانے کون کون سے خاندان یہاں تک کہ پاکستان کے وہ بیس خاندان بھی اس چھوٹے سے خطے کی پیاس نہ بجھا سکیں۔

نہ پاکستان بدلا نہ سندھ بدل سکا، اگر بدلا تو ڈانس کا طرز بدلا ہے۔ پہلے ہم ان کی جیت پر کرائے کے لوگ نچواتے تھے، اب کرایہ لے کر خود ناچتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).