نااہل نہیں تو معاف کردیں جج صاحب


(پہلا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں)
دفاع کے وکیلوں کے دلائل مکمل ہوئے تو وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار عدالت کی معاونت کے لئے سامنے آئے اور مختصر گزاراشات پیش کرنے کی استدعا کی۔ رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ ایک مکمل اور شفاف سماعت کے بعد مکمل اعتماد ہے کہ عدالت فیصلے میں شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو مقدم رکھے گی، اس حوالے سے تحریری گزارشات عدالت میں آج ہی جمع کراؤں گا، جس کی ان کو اجازت دیدی گئی۔

قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے پراسیکوٹرجنرل کو بلایا گیا جن کی نمائندگی کے لئے سپیشل پراسیکیوٹر نیب اکبر تارڑ پیش ہوئے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ازراہ مذاق کہا کہ امید ہے کہ آپ کے پاس آج بھی کچھ کہنے کے لئے نیا نہیں ہوگا اور زیادہ وقت صرف نہیں کریں گے، تاہم اکبرتارڑ نے عدالت کو بتایا کہ نیب حکام حدیبیہ پیپرز ملز کیس پر لاہور ہائیکورٹ کے مقدمہ ختم کرنے کے فیصلے کو تین برس بعد سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا سوچ رہے ہیں، اور ہائیکورٹ کے فیصلے پر اپیل ایک ہفتے میں دائر کی جاسکتی ہے۔

اس کے بعد عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دفاع کے وکیلوں کے جواب میں اپنے دلائل کا آغازکیا، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عدالت اور قوم کے سامنے صادق و امین نہیں رہے، وزیراعظم نے ایف زیڈ ای کمپنی کو چھپایا، وہ کمپنی میں بورڈ چیئرمین تھے اور تنخواہ وصول کرتے رہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ تنخواہ کی وصولی کو وزیراعظم کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ وکیل بولے کہ اس کی دستاویز موجود ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اس موقع پر اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ وزیراعظم نے تنخواہ وصول کی یا نہیں۔ جسٹس اعجاز ا فضل نے اس دوران عدالت میں وہ آبزرویشن دی جس نے اس کیس کا ایک اور رخ بھی متعین کردیا، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر وزیراعظم نے اثاثے چھپائے یا کاغذات نامزدگی میں درست معلومات فراہم نہیں کیں جیسا کہ ایف زیڈ ای کمپنی کے عہدے اور تنخواہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے تو کیا اس پر عوامی نمائندگی کے قانون کی شق بارہ لاگو نہیں ہوتی، جو کہ صرف الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں ہے۔ اس طرح یہ معاملہ آرٹیکل باسٹھ کے تحت معیار پر اترنے کے لئے ہے جب کہ اس کا آرٹیکل تریسٹھ کے تحت نا اہلی سے تعلق نہیں؟

نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم نے الیکشن کے بعد بھی ایف زیڈ ای کمپنی ظاہر نہیں کی، وزیراعظم نے گلف اسٹیل مل 33 ملین میں فروخت ہونے کا بھی جھوٹ بولا، دبئی حکام نے تصدیق کی ہے کہ بارہ ملین درہم طارق شفیع کو نہیں ملے، عزیزیہ اسٹیل مل بھی تریسٹھ ملین ریال میں فروخت نہیں ہوئی، یہ تمام وزیراعظم سے منسلک ہیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ پہلے لندن فلیٹ قطری سرمایہ کاری سے خریدنے کا کہا گیاتھا، اس بار عدالت کو بتایا گیا ہے کہ میاں شریف کے سرمائے سے فلیٹ خریدے گئے، یہ بات ناقابل یقین ہے کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سے اٹھاسی کروڑ نواز شریف کو ملے، اس کے بعد مل کے پاس باقی کیا رہ گیا ہو گا؟ اسی طرح شیخ سعید نے بھی نواز شریف کو دس ملین دیے، سمجھ نہیں آتا کہ ایسے منافع بخش کاروبار بھی ہوتے ہیں، نواز شریف نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔

جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا کہ کیا وزیراعظم کے عہدے کے لئے آئین میں ایسی کوئی قدغن ہے کہ وہ کسی کمپنی میں عہدہ نہیں رکھ سکتے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کوبتایا کہ ایسی کوئی واضح پابندی آئین نے عائد نہیں کی۔ جسٹس اعجاز ا فضل نے ریمارکس دیے کہ آئین نے ایسی واضح پابندی ججوں پر عائد کی ہے۔ وکیل نے کہا کہ نواز شریف نے پارٹی کو دس کروڑ کے فنڈز دیے، اس کو بھی دیکھا جائے گا۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ بہت سی چیزیں بعد میں عدالتی کارروائی کے نتیجے میں سامنے آئی ہیں، یہ درخواستوں میں شامل نہ تھیں، کیا مدعا علیہان کو ایسی چیز سے سرپرائز دیا جا سکتا ہے؟ وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ اگر قطری شیخ کے خط کو نکال دیا جائے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قطری سرمائے کی ’سپریڈ شیٹ‘ واضح نہیں ہے۔ وکیل نے کہا کہ عدالت اس پر پہلے بھی سوال اٹھا چکی ہے۔ اسی طرح مریم کی ٹرسٹ ڈیڈ دو ہزار چھ کی ہے جب کہ فلیٹوں کی ملکیت کی دستاویز دو ہزار بارہ کی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر مریم کو مالک مان لیا جائے اور وہ وزیراعظم کے زیرکفالت ثابت نہ ہوتو اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ وکیل نے کہا کہ یہ عمل درآمد بنچ ہے، عدالت نے فیصلہ کرناہے کہ کیا اتنا ریکارڈ آنے کے بعد وزیراعظم اپنے عہدے پر رہ سکتے ہیں۔ اور اگر عدالت نیب کو ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرتی ہے تو کیا وزیراعظم اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جب جے آئی ٹی بنائی تو لوگوں نے سوال اٹھائے کہ کیا آزادانہ تفتیش ہوسکے گی؟ نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ارکان سے ہاتھ ملایا اور شکر ادا کیا کہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اس ملک میں اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے جو اپنا کام تندہی سے کرتے ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی جو دستاویزات و مواد ریکارڈ پر لائی ہے اس کو دیکھیں گے۔ وکیل نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اسحاق ڈار اتنی اہم وزارت پر برقرار کیسے رہ سکتے ہیں کیون کہ ان کے ماتحت محکموں کے ذریعے تفتیش ہونا ہے۔ اس لیے مسٹر ڈار کو بھی نا اہل کیا جائے۔

شیخ رشید نے اپنے جوابی دلائل کے موقع کو ایک بار پھر سیاسی تقریر کے لئے استعمال کیا اور تینوں جج پندرہ منٹ تک خاموشی سے سنتے رہے۔ شیخ رشید نے زیادہ تر پرانی باتیں دہرائیں اور عدالت بطور اسٹیج استعمال کیا اور شائقین (عدالت میں موجود تحریک انصاف کے حامیوں) سے بھرپور داد وصول کی۔ شیخ رشید نے کہا کہ قانون پڑھا ہے مگر بطور وکیل پریکٹس نہیں کی، زندگی کا سنہرا باب ہے کہ اس عدالت میں اتنے اہم مقدمے میں پیش ہو رہا ہوں، جے آئی ٹی کے سپر سکس نے بڑے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکام کیا، بعض لوگ اللہ کی طر ف سے بھیجے جاتے ہیں جو قوموں کی تاریخ بدل دیتے ہیں، جن لوگوں نے جے آئی ٹی کے بننے پر مٹھائی بانٹی تھی میری طرح ان کی بھی انگریزی کمزورتھی۔ عدالت نے صفائی پیش کرنے کے لئے ساٹھ دن کی مہلت دی، گزشتہ روزنواز شریف نے اپنی تقریر میں جے آئی ٹی ارکان کے لئے دھکی آمیز زبان استعمال کی، آج تک کبھی کوئی ملزم تفتیش سے مطمئن نہیں ہوا، صادق و امین عالمی اصطلاح ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص گوجرانوالہ میں صادق، لاہور میں امین ہو، مگر اسلام آباد میں کرپٹ ہو۔

کہنے لگے کہ اگر عوامی عہدیدار کے کوئی اور کام کرنے پر پابندی نہ ہوتی تو میں شیخ ہوکر ایسا نہ کرنے کی غلطی کبھی نہ کرتا، اس بات پر عدالت میں موجود صحافیوں نے جسٹس شیخ عظمت سعید کی طرف دیکھا۔ شریف پانامہ سے اقامہ تک پہنچ گئے ہیں، انہوں نے دبئی والوں کو بھی چونا لگایا، وہاں بھی نہیں بتایا کہ اسلام آباد میں وزیراعظم ہوں، ایک با رجب میں وزیرتھا تو آئی ایم ایف کے سامنے جھوٹ بولا جس پر چھ کروڑ ڈالر جرمانہ بھرا تھا۔ ڈار صاحب کے ٹیکس کا ڈبہ لائے ہیں، میں نے بھی اس میں مسجد کے لئے سو روپے کا چندہ ڈالا ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ وزیراعظم اور اسحاق ڈار کے پاس اقامہ ہے، اگر ان کو اقامے پسند ہیں تو وہاں ہی چلے جائیں، ایک سو چھبیس دنوں کی عدالتی سماعت کے بعد جے آئی ٹی کے سامنے ساٹھ دن میں بھی منی ٹریل نہ لاسکے، سعودی الراجی بنک کے اکاؤنٹس کاریکارڈ بھی منگوایا جائے، ان کو قطری خط کی عادت پڑ گئی ہے، الراجی بنک کے اکاؤنٹس چھپانے پر بھی باسٹھ تریسٹھ لگتا ہے، اگر مقدمے سے قطر ی کاخط نکال دیاجائے تو پیچھے کچھ نہیں بچتا، وزیراعظم جے آئی ٹی میں بھی پیش ہوئے مگر کچھ نہ بتایا۔ یہ جے آئی ٹی کے ارکان کو دھمکیاں دے رہے ہیں عدالت ان کا خیال رکھے۔ ایک آدھ نماز پڑھتا ہوں جس میں جسٹس عظمت سعید کی صحت کے لئے دعا کی کہ وہ سماعت کے دوران بیمار نہ ہوجائیں کیوں کہ یہ لوگ تعویذ شاویذ کرنے کے ماہر ہیں۔ اس موقع پر کافی دیرسے خاموش بنچ میں سے جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ ہمارے لیے بھی دعا مانگ لیا کریں۔

شیخ رشید نے کہا کہ وزیراعظم عہدہ چھوڑ دیتے تو معاملہ ان کے والد کی قبر تک نہ جاتا، کیس طویل ہونے سے ہمیں عوام میں فائدہ ملا۔ اگر سپریم کورٹ وزیراعظم کو نا اہل نہیں کرتی تو پھر ان کو معاف کر دیا جائے کیون کہ ماتحت عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی ہمت نہیں۔ اس کے بعد شیخ رشید نے مقدمے میں مختلف قوانین کے حوالے دیے، حوالے زیادہ ہوگئے تو جسٹس عظمت سعید موڈ میں آگئے اور کہا کہ شیخ صاحب، اب موٹربوہیکل آرڈی ننس کا حوالہ نہ دیدیں کہ اس کے تحت بھی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ پہلے سے تھیٹر بنے کمرہ عدالت میں اس ریمارک سے بلند آہنگ قہقہے ابل پڑے۔ شیخ رشید بولے کہ یہ وہیل کپ، پانے اور موٹر سائیکل والے ہی تھے، اگر ان کا ٹرائل بھی کرنا ہے تو پہلے نا اہل کریں۔

جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل کا آغاز کیا تو جج کمرہ عدالت سے اٹھنے لگے جو اس بات کا اشارہ تھا کہ دن کے بارہ بجنے میں سات منٹ رہ گئے تھے۔ وکیل نے کہا کہ عدالت اس مقدمے میں آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین یعنی عوامی مفاد کے تحت فیصلہ دے سکتی ہے۔ وکیل نے جب تیسری بار یہی بات دہرائی تو جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم آپ سے کہہ رہے ہیں کہ اس معاملے کو دیکھیں گے، آپ کو گارنٹی دیتے ہیں کہ اسی آرٹیکل کے تحت فیصلہ دیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ درخواستیں اسی آرٹیکل کے تحت سنی تھیں اورجے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ بھی اسی آرٹیکل کے مطابق دیا تھا۔ وکیل توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کے بچوں نے اس پانامہ فیصلے اور جے آئی ٹی بنانے پر نظر ثانی درخواست بھی دائر نہیں کی تھی۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ اچھا کیا، جو نظرثانی نہیں کی۔ وکیل نے کہا کہ پانامہ پیپرز فیصلے میں جو ججوں کی نا اہلی پر دی گئی رائے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ تمام باتیں عدالتی کے فیصلے میں تحریر ہیں، کوئی نئی بات ہے تو کرلیں۔ وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کاروبار بھی کرتے رہے اور اس حوالے سے نئی کمپنی بھی سامنے آئی ہے۔ عدالت اس کو دیکھے اور فیصلہ دے۔ وکیل نے دوسری بار یہ بات دہرائی تو جسٹس عظمت سعید سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے ریمارکس دیے کہ شیخ رشید اور نعیم بخاری تو کہتے ہیں کہ وزیراعظم اگر کاروبار کرے تو نا اہلی بنتی ہے مگر آپ کہہ رہے ہیں کہ کاروبار کرنے سے وزیراعظم کی نا اہلی نہیں ہوتی۔

اس بات پر عدالت میں کافی دیر تک قہقہے گونجتے رہے اور کمرہ عدالت ایک تھیٹر کا منظر پیش کرتارہا۔ وکیل توفیق آصف نے ججوں سے گلہ کیا کہ پہلے بھی میرے بارے میں اس طرح کی آبزرویشن دی گئی تھی جس میں مجھے کافی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، میڈیا نے اس بات کو بہت اچھالا، اور مجھے وضاحتیں دینا پڑیں۔ اس پر عدالت میں پھر قہقہے گونجے۔ ججوں نے وکیل کا دلائل کے لئے شکریہ ادا کرکے رخصت ہونا چاہا تو جماعت اسلامی کے وکیل نے وزیراعظم کی نا اہلی کی ایک بار پھر استدعا کر دی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ مدعا علیہان کے وکلاء کے دلائل کے جواب میں دلائل کے لئے آئے ہیں لیکن وہی پرانے دلائل دہرارہے ہیں، جوابی دلائل میں دفاع کے وکیلوں کا جواب دیا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ مائی لارڈ، آئین کے تحت صادق و امین کا معاملہ دیکھا جا سکتا ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ بات لکھ چکے ہیں۔ آپ سب کا بہت شکریہ، تمام وکلاءنے عدالت کی معاونت کی، ہم فیصلہ محفوظ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جج اٹھ کرچلے گئے۔ عدالت میں موجود وکیلوں اور ٹی وی رپورٹروں نے بیرونی دروازے کی جانب دوڑ لگائی تا کہ بریکنگ نیوز دی جاسکے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).