بھنڈی اور جوانی آنجہانی کی کچھ یادیں


اللہ تعالیٰ چھ دن اور چھ رات مسلسل اپنی خلاقی کا اظہار کرتے رہے حتی کہ رنگ و بو سے سجی کائنات تیار ہو گئی۔ طرح طرح کے گل بوٹے، انواع و اقسام کے چرند پرند، ان گنت رویے، جذبات، محبت، نفرت، دوستی، تعلق، واسطہ۔ یہ منظر اس قدر خوش نما تھا کہ اللہ تعالیٰ کو اندیشہ پیدا ہوا کہ ایسی خوب صورت دنیا میں بسنے والے انسانوں کی عادتیں خراب ہو جائیں گی۔ چنانچہ ہفتہ وار چھٹی کے دن میں کچھ وقت نکال کر اللہ نے ڈاکٹر اور وکیل پیدا کیے۔ قانون اور طبی اصولوں کی مدد سے انسانی زندگی میں عیش اور مسرت کا بہت سا حصہ کاٹ کر عذاب بھر دیے۔

ڈاکٹر لبنی مرزا نے بھنڈی کا سالن بنانے کا نسخہ لکھا ہے۔ بھنڈی سے اس درویش کو بھی ایک خاص تعلق ہے۔ بہت برس تک دوری کے بعد والدہ مرحومہ سے ملاقات کی سبیل پیدا ہوئی۔ انہوں نے لاڈ سے پوچھا کہ کھانے میں کیا پسند کرتے ہو۔ عرض کی “بھنڈی”۔ اس کے بعد کئی برس اس تواتر سے بھنڈی کھانا پڑی کہ کبھی کبھی خوف آ لیتا تھا کہ دونوں کانوں سے بھنڈی کی شاخیں نہ نکل آئیں۔

کچھ عرصہ بیرون ملک اکیلے رہنے کا موقع ملا تو پکانے میں سب سے آسان بھنڈی معلوم ہوئی۔ کاٹنا بھی آسان، ایک ٹماٹر، آدھی پیاز، تین چار ہری مرچیں اور دو چمچے آم کا اچار۔ بنی بنائی روٹی کو توے پر ترتراتے تیل میں گرم کر لیا تو گویا پراٹھے کی شکل بن گئی۔

اب جو ڈاکٹر لبنی مرزا کا بتایا ہوا نسخہ دیکھتا ہوں تو واللہ یوں محسوس ہوتا ہے گویا کوئی کن رس ذاکر حسین خان صاحب کا طبلہ سننے کی بجائے ماترے گن رہا ہے۔ اس نسخے میں تبدیلی چاہتا ہوں، اگرچہ تصویر میں نظر آنے والی چپاتی پر خالص سندھی ثقافت کی چھاپ نظر آ رہی ہے لیکن یہ چپاتی سکھر کے شاہی بازار میں بہت کھائی۔ لاہور کا پانی پینے سے انسان کی طبیعت میں ایک تبدیلی یہ آتی ہے کہ چپاتی کی بجائے پراٹھے سے لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے اور پراٹھا کھاتے ہوئے گنتی کرنا فقہ کے ہر مکتب میں مکروہ قرار دیا گیا ہے۔ جب کھاتے کھاتے اندازہ ہو جائے کہ چلنا پھرنا دشوار ہو جائے گا تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔ نمک والی لسی کے چار بڑے گلاس بھنڈی اور پراٹھے کے ساتھ بہت لطف دیتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ نے فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک پاؤنڈ بھنڈی میں ایک ہری مرچ رکھی ہے۔ یہ ہم اہل لاہور کو قطعی قبول نہیں۔ ایک سیر بھنڈی میں کم از کم آدھ سیر ہری مرچ تو ہو۔ اور دیکھیے۔۔۔ زیتون کے تیل سے ہمارے تعلقات بالکل اچھے نہیں ہیں۔ مونگ پھلی کے تیل کی شکل میں سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔

جہاں تک کیلوری کا تعلق ہے، ہمیں بالکل معلوم نہیں کہ یہ کس بلا کو کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں دل جلانے، خون خشک کرنے اور دوسروں کا جینا دوبھر کرنے کے لیے فرقہ وارانہ اختلاف، گھریلو جھگڑوں اور نسلی تعصب سے کام لیا جاتا ہے۔

بھنڈی بازار کی ثقافت میں پلنے بڑھنے والوں کا ڈاکٹر لبنی مرزا کے پڑھے لکھے دستر خوان سے واسطہ پڑ گیا تو وہی حال ہو گا جو وزیر آباد میں نودولتیے جمیل اصغر چیمہ کا ہوا تھا۔ وہ بے چارہ باکس کا ٹکٹ لے کر فلم دیکھنے بیٹھا تھا۔ نیچے ہال میں اس کے پرانے ہم جولی، جو تاحال غریب تھے، فلم پر باآواز بلند ناقابل اشاعت تبصرے کر رہے تھے، من پسند منظر دیکھ کر سکرین پر سکے بھی پھینکتے تھے۔ ادھر چیمہ صاحب پرفیوم اور لوینڈر کے جھونکوں میں یوں سکڑے سمٹے بیٹھے تھے جیسے روز قیامت سچ مچ کے دین داروں کے درمیان ملا، پنڈت اور پادری شرمسار ہوں گے۔

بالاخر تنگ آ کر چوہدری جمیل اصغر نے ہال میں بیٹھے اپنے پرانے دوست مجید سے اونچی آواز میں منت کرتے ہوئے کہا کہ بھائی مجید، ایک مٹھی چار آنے کے سکوں کی میری طرف سے بھی سکرین پر مار دو۔ میں ادھر جینٹری میں پھنس گیا ہوں۔

میں نے بھی ڈاکٹر لبنی مرزا کا مضمون پڑھ کر باجی عظمیٰ سے گذارش کی ہے کہ ایک بڑا ڈونگہ بھنڈی گوشت کا اور چار پانچ پراٹھے تیار کر دیں۔ جس مقدار میں ڈاکٹر صاحبہ چار افراد کو بھنڈی کھلانا چاہتی ہیں، اس میں لاہور کا ایک آدمی کماحقہ طور پر بھوکا رہ سکتا ہے۔

اشاعت مکرر: Jul 24, 2017


بھنڈی کھاؤ وزن اور شوگر گھٹاؤ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).