میر شکیل الرحمان سپریم کورٹ میں


سپریم کورٹ نے جنگ گروپ کے مالک میرشکیل الرحمان، پرنٹر میرجاوید رحمان اور دی نیوز کے رپورٹر احمد نورانی کے خلاف توہین عدالت کے اظہار وجوہ نوٹس کی سماعت کی۔ تین رکنی بنچ کی سربراہی جسٹس اعجاز افضل نے کی جن کے دائیں جسٹس عظمت سعید اور بائیں جسٹس اعجاز الاحسن موجود تھے۔ عدالتی کارروائی کے آغاز پر جسٹس عظمت سعید نے پوچھا کہ میر شکیل، میر جاوید اور احمد نورانی کہاں ہیں۔ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے بتایا کہ عدالت میں موجود ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے پوچھا کہ کیا کوئی جواب آیا ہے؟

ایڈووکیٹ نے بتایا کہ تحریری جواب جمع کرایا جا چکا ہے۔ عدالت کی ہدایت پر تینوں افراد کی جانب سے دیا گیا جواب پڑھ کر سنایا گیا۔ جس کے بعد عدالت نے حکم لکھوایا کہ جواب پر مزید دلائل کے لئے کیس بائیس اگست تک ملتوی کیا جاتاہے۔ اس مرحلے پر جنگ گروپ کے مالک میرشکیل الرحمان نے عدالت سے کچھ کہنے کی اجازت طلب کی اور پھر کہا کہ تمام ایڈیٹرز اور رپورٹرز کی جانب سے عدالت سے درخواست کرتا ہوں کہ ہمارے باے میں جو ریمارکس دیے گئے اور یہ کہا گیا کہ ہمیں پتہ ہے کہ یہ کس کی ایما پر ہو رہا ہے، ان ریمارکس پر ہمیں شدید صدمہ پہنچا ہے، میں معذرت چاہتا ہوں مگر مجھ سے اگر ہم عصروں میں سے کوئی پوچھے کہ کس کے کہنے پر شائع کر رہے ہیں تو میں بھی ان سے پوچھوں گا کہ کس کے کہنے پر یہ سوال کر رہے ہو۔

اسی طرح اخبارات کو جاری اشتہارات کی تفصیل بھی مانگی گئی، عدالت نے صرف تین ماہ کے اشتہارات کی تفصیل طلب کی ہے، اللہ کے فضل سے ہمارا میڈیا گروپ سب سے زیادہ پڑھا جانے والاہے، پختون خوا میں عمران خان کی حکومت ہے مگر جنگ گروپ کو سب سے زیادہ اشتہارات ملتے ہیں، اس وجہ یہ ہے کہ جو میڈیا گروپ بڑا ہوتا ہے اس کے اشہارات کا نرخ بھی زیادہ ہوتا ہے اور اشتہارات میں اس کا حصہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ عدالت سے درخواست ہے کہ صرف تین ماہ نہیں بلکہ پانچ سال کا ریکارڈ منگوائیں اور گزشتہ حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے اشتہارات کی تفصیل طلب کرکے اس کا بھی جائزہ لیا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے میر شکیل کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ یہاں یہ ایشو نہیں ہے، ایشو یہ ہے کہ غلط خبر شائع کی گئی، غلط رپورٹنگ ہوئی، عدالتی حکم کو غلط انداز میں شائع کیا گیا، غلط معلومات پھیلائی گئیں، جان بوجھ کر جے آئی ٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی ہی نہیں بلکہ اس عدالت کو بھی نشانہ بنایا گیا، بہتر ہو گا کہ آپ وکیل کے ذریعے اپنا دفاع کریں، آپ پاکستان کے شہری ہیں، آپ کے بنیادی حقوق ہیں ان کا تحفظ بھی کرنا ہے۔

میر شکیل الرحمان نے دوبارہ اپنی بات شروع کی تو جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم نے نوٹ کیا ہے کہ آپ کے اخبارات جان بوجھ کر ایک تسلسل کے ساتھ خبریں شائع کرتے ہیں، کچھ رپورٹس میں عدالت کو بدنام کیا گیا، آپ کو دفاع کا پورا موقع دیا جائے گا۔ میر شکیل نے کہا کہ اپنے ادارے کی تمام خبروں کو درست سمجھتا ہوں، ہمارے ایڈیٹرز کہتے ہیں کہ شائع کی گئی تمام خبریں درست ہیں، اگر غلط ہوتیں تو عدالت نوٹس لیتی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اب آپ کو مثال دیتا ہوں، جے آئی ٹی کی رپورٹ ہمارے پاس بعد میں آئی، آپ کے ادارے نے پہلے چھاپ دی اور جب بری طرح باؤنس ہوئی تو اگلے دن معافی مانگی۔ میر شکیل نے کہا کہ ایک خبر غلط ہوئی اور ہم نے معافی مانگی، باقی تمام خبریں درست نکلیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ صرف ایک خبرغلط ہونے کی بات نہیں، لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی غلط خبر چلانے پر بھی آپ کو معافی مانگنا پڑی تھی، معافی وہ ہوتی ہے جو آپ نے دن میں پانچ بارٹی وی پر چلائی۔ میر شکیل نے کہا کہ اگر میرے ادارے نے غلط خبریں شائع کی ہیں تو عدالت آئی ایس آئی اور واٹس ایپ کال والی خبروں پر بھی نوٹس لے تاکہ اس پر اپنے رپورٹروں اور ایڈیٹرز کی سرزنش کرسکوں، امید کرتا ہوں کہ ان خبروں کا بھی نوٹس لیں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ وکیل کے ذریعے بات کریں۔ ہم بہت سی باتوں پر چپ اس لیے ہوتے ہیں کیون کہ فریڈم آف پریس ہمیں بہت مقدم ہے، اپنے کئی فیصلوں میں بھی لکھ چکا ہوں، فیئر کیا ان فیئر (غیرمنصفانہ) تنقید بھی برداشت کرلیں گے۔

میر شکیل نے کہا کہ میری ایک گزارش ہے کہ آپ صاحبان جو ریمارکس دیتے ہیں وہ آرڈر شیٹ میں بھی لکھ دیا کریں تا کہ ریکارڈ پر آ سکے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ کے مقدمے میں لکھ بھی دیں گے پھر ان کو حذف کرنے کے لئے درخواست مت دیجیے گا۔ میر شکیل نے کہا کہ عدالت کا بیس جون کا حکم زیادہ تر اخبارات اور ٹی وی چینلز نے غلط رپورٹ کیا، ان پر کیوں ایکشن نہیں لیا گیا؟ رپورٹر بھی انسان ہیں ان سے بھی غلطی ہو جاتی ہے، یہاں عدالت میں تو دیکھ رہاہوں کہ ججوں کی بات سننے اور سمجھنے میں بہت دشواری ہے۔ غلطی کی معافی کے لئے عدالت سے کہا ہے لیکن ہماری اب تک کی زیادہ تر خبریں درست ہی سمجھی جائیں گی کیونکہ سپریم کورٹ نے ان پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فریڈم آف پریس ضروری ہے، تنقید کریں، جتنی مرضی ہے کریں مگر گند اور کیچڑ نہ اچھالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).