قائداعظم کو کرکٹ سے زیادہ کنچے کھیلنا پسند تھا


گزشتہ مضمون میں ہیکٹر بولیتھو کی کتاب ”جناح: کری ایٹر آف پاکستان“ کا تذکرہ ہو رہا تھا جس میں قائداعظم کے بچپن کو دیکھنے والوں کے انٹرویو بھی شامل ہیں۔ اس کتاب میں سے دو واقعات ہماری درسی کتابوں کا حصہ رہے ہیں۔

پہلا وہ جس میں وہ رات کو لیمپ جلا جلا کر پڑھا کرتے تھے، اور دوسرا وہ جس میں انہوں نے گلی کے بچوں کو کنچے کھیلتے دیکھ کر کہا کہ کپڑے گندے مت کرو، اور کرکٹ کھیلو۔ ہماری قوم کے بچوں نے اس پر خوب غور و فکر کیا اور کرکٹ کھیلنے پر بھرپور توجہ مرکوز کر دی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کتاب میں یہ واقعہ کس طرح بیان ہوا ہے۔ واقعہ ہیکٹر بولیتھو کا بیان کردہ ہے اور انداز کچھ کچھ ہمارا۔

ہیکٹر بولیتھو انٹرویو لے رہے تھے کہ ایک بڑے میاں دروازے میں نمودار ہوئے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور سفید بال بکھرے ہوئے تھے۔ وہ آرام کرسی پر بیٹھے اور کہنے لگے کہ جہاں تک انہیں علم ہے، ان کی عمر اسی برس سے اوپر ہے۔ گو کہ وہ جناح کے ساتھ سکول میں پڑھتے تھے مگر ان کو صرف یہ یاد آ پایا کہ ”میں ان کے ساتھ گلی میں کنچے کھیلتا تھا“۔

ہیکٹر صاحب کی تشفی نہ ہوئی۔ کریدنے لگے ”کیا آپ کو کچھ اور یاد ہے جو انہوں نے آپ کو کہا ہو؟ “ بڑے میاں نے اپنی گھنی سفید بھنووں کی چھاؤں سے ہیکٹر صاحب کو دیکھا، خوب غور و فکر کیا اور پھر بڑے یقین سے فرمایا ”میں ان کے ساتھ گلی میں کنچے کھیلا کرتا تھا“۔

ہیکٹر صاحب نے انہیں آنکھیں بند کر کے ایک مرتبہ پھر غور کرنے کا مشورہ دیا۔ نانجی جعفر نامی بڑے میاں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنی یادداشت کریدنے لگے۔ پھر انہوں نے جناح کے بچپن کا وہ واحد قصہ سنایا جو انہیں یاد آیا تھا۔

ایک صبح جب جعفر نانجی گلی میں کھیل رہے تھے، تو جناح جن کی عمر اس وقت چودہ برس کے قریب تھی، پاس آئے اور انہیں کہنے لگے ”مٹی میں کنچے مت کھیلو۔ یہ تمہارے کپڑے میلے کر دیتے ہیں اور ہاتھ گندے۔ ہمیں کھڑے ہونا چاہیے اور کرکٹ کھیلنی چاہیے“۔

گلی کے بچے نہایت تابعدار تھے۔ انہوں نے کنچے کھیلنا چھوڑ دیا اور جناح کو موقعہ دیا کہ وہ انہیں گرد آلود گلی سے ایک روشن میدان میں لے جائیں جہاں وہ اپنے ساتھ بیٹ اور وکٹیں لے کر آئے تھے۔ جب وہ سولہ برس کی عمر میں انگلستان کے لئے روانہ ہوئے تو انہوں نے نانجی جعفر کو اپنا بیٹ دے دیا اور کہا ”جب تک میں باہر ہوں تم لڑکوں کو کرکٹ کھیلنا سکھاتے رہنا“۔

نہایت سبق آموز واقعہ ہے۔ لیکن ایک دلچسپ بات ہم دیکھتے ہیں۔ جعفر نانجی کو قائداعظم کی جو بات اچھی طرح یاد تھی وہ ان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کی نہیں تھی بلکہ قائداعظم کے بچپن کا تصور کرتے ہی ان کو ایک ساتھ گلی میں بیٹھ کر کنچے کھیلنا یاد آتا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد جب قائداعظم نے ڈان سے اپنی ابتدائی زندگی کا ذکر کیا تو جو پہلا جملہ انہوں نے کہا وہ یہ تھا کہ ”میں کراچی میں پیدا ہوا اور کراچی ہی کی ریت پر کہیں کنچے بھی کھیلے“۔

کیا یہ دلچسپ نہیں ہے کہ قائداعظم اور ان کے بچپن کے دوست نانجی جعفر کے ذہن میں قائد کے بچپن کی جو سب سے پہلی شبیہ اترتی ہے وہ کنچے کھیلنے کی ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بچپن کی سنہری ترین یاد کنچے کھیلنے سے وابستہ ہے جو سات دہائیوں کے بعد بھی ان کے ذہن پر نقش تھی جبکہ دوسری یادیں مٹ چکی تھیں یا بہت دھندلی پڑ گئی تھیں۔

کاش ہم اپنے بچوں کو بڑے آدمیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے یہ بھی بتایا کریں کہ وہ بھی خاکی انسان تھے۔ ان میں ایسی خوبیاں تھیں کہ وہ بڑے آدمی بنے۔ لیکن وہ بچپن میں مٹی میں بھی کھیلتے رہے اور خوب لطف اٹھاتے رہے۔ بڑے ہو کر بھی ان میں سو خوبیوں کے ساتھ ایک آدھ خامی بھی تھی جو ان کو ایک مکمل انسان بناتی تھی۔

یہ سبق دینے کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے بچے اپنے عہد کے انسانوں اور اپنے ہم عصروں کو ان کی خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کریں گے۔ وہ اپنے لیڈر کو مکمل فرشتہ اور مخالف لیڈر کو مکمل شیطان ثابت کرنے کی بجائے ان کی خوبیوں اور خامیوں کو تولا کریں گے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں گے۔

ہمارے لئے قائداعظم پچھلی صدی کے سب سے محترم لیڈر ٹھہرے ہیں۔ لیکن ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہو گا کہ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، باچا خان اور دیگر ایسے لیڈر جو کانگریس کے ساتھ کھڑے تھے، وہ مسلمانوں کے غدار نہیں تھے بلکہ اپنی فہم کے مطابق مسلمانوں کا بھلا کرنے کے ہی خواہاں تھے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ سکھانا ہو گا کہ آج بھی جو اچھے برے سیاسی لیڈر موجود ہیں، وہ بھی اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ملک کی بھلائی کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔


اسی بارے میں

جناح خاندان کا تعلق ملتان سے تھا

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar