ہماری ترقی کے راستے میں حائل تین رکاوٹیں


ویلہم رائخ نے ایک مزے کی کتاب لکھی تھی، ’فاشزم کی اجتماعی نفسیات‘ ۔ 1933 ءمیں شائع ہونے والی یہ کتاب بظاہر فاشزم کے خلاف فکری بنیادیں فراہم کرتی ہے لیکن اس کتاب کا ایک اہم حصہ نچلے متوسط طبقے کی نفسیات، خاص طور پر متوسط طبقے کی نجی اقدار اور سیاسی ترجیحات کے مابین تعلق بیان کرتا ہے۔ خوفناک غربت اور بے انتہا دولت کے درمیانی ایک سفید پوش منطقہ پایا جاتا ہے۔ یہاں دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہوتا ہے لیکن غربت کا خوف منڈلاتا رہتا ہے۔

کوئی بھی حادثہ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد یا گھرانے کو ایک بار پھر غربت میں دھکیل سکتا ہے۔ اس طبقے کی بنیادی خواہش ایک ہی ہوتی ہے کہ کسی طرح بالائی طبقے میں قدم رکھا جائے۔ خوف اور خواب چکی کے دو پاٹ ہیں جن میں درمیانہ طبقہ گھن کی طرح پستا ہے۔ وضع داری کے سراب کا پیچھا کرتے رہنے کے باعث معاشرتی اقدار کی پاس داری بھی اسی طبقے میں پائی جاتی ہے۔ اقدار اور رہن سہن کے سانچے مسلسل بدلتے رہتے ہیں لیکن متوسط طبقے کے لئے اقدار کا تصور بہت حد تک جامد ہوتا ہے۔

چنانچہ درجہ اول کی منافقت بھی اسی طبقے کا خاصا ہے۔ مذہبیت کے نمائشی مظاہر بھی اسی طبقے میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ انتہائی غربت میں بے بسی اور مایوسی پائی جاتی ہے۔ بے تحاشا دولت میں لاتعلقی کے پہلو ہوتے ہیں۔ آپ چاہیں تو اس لاتعلقی کو بے نیازی کا نام دے لیں۔ نا امیدی اور بے پروائی کے ان دو دریاؤں کے درمیان واقع متوسط طبقے کا دوآبہ آباد ہوتا ہے جہاں بے پناہ پہل کاری پائی جاتی ہے۔ کیونکہ گھر کی منڈیر پر امید کی کرن مسلسل پڑتی ہے۔

کبھی ایک بچے کی تعلیم سے امید باندھی جاتی ہے۔ کبھی صاحب خانہ کی پنشن اور پراویڈنٹ فنڈ سے آس لگائی جاتی ہے۔ کبھی بیٹی کو اونچے گھرانے میں بیاہنے کا خواب دیکھا جاتا ہے۔ یورپ کی تاریخ میں انیسویں صدی صنعت کاری کے پھیلاؤ کے باعث درمیانے طبقے کے ظہور سے منسوب کی جاتی ہے۔ آپ اس دور کا مغربی ادب پڑھ جائیے۔ ستاں دال سے لے کر فلابیئر تک اور موپساں سے لے کر شیخوف تک، اس ادب کا مرکزی موضوع درمیانہ طبقہ ہے۔

ویلہم رائخ نے اس طبقے کو منقسم نفسیات کا حامل قرار دیا ہے۔ موجودہ اقداری سانچوں میں اپنی جگہ بنانے کی بے پناہ خواہش اور دوسری طرف سیاسی اور معاشی ڈھانچوں میں تبدیلی کی تڑپ۔ سوچ اور خواہش کے اس تضاد کو جمہوری بندوبست مل جائے تو معاشرے کے ہموار ارتقا کی صورت نکل آتی ہے۔ جمہوریت متنوع مفادات میں مکالمے اور سمجھوتے کی راہ نکالتی ہے۔ تاہم بالادست طبقات جمہوری تبدیلی سے خوف زدہ ہو کر اپنی موجودہ مراعات یافتہ حیثیت کو برقرار رکھنے کا بیڑا اٹھا لیں تو درمیانہ طبقہ فسطائیت کے راستے پر نکل جاتا ہے۔

اپنی سوچ کو بدلے بغیر معیشت بدلنے کی خواہش سے فسطائیت جنم لیتی ہے۔ یورپ کی تاریخ میں آپ اسے فسطائیت کہتے ہیں۔ آج کے زمانے میں اسی کی ایک صورت مذہبی بنیاد پرستی ہے۔ ویلہم رائخ نے اشتراکیت کو ’سرخ فسطائیت‘ کہا تھا۔ افریقہ اور لاطینی امریکا کے ٹین پاٹ آمر بھی اسی خواب کا بیوپار کرتے تھے کہ روایت کو جامد رکھتے ہوئے مقامی نسخوں کی مدد سے ترقی یافتہ معیشت کے دروازے کھولے جائیں گے۔ معیشت میں تبدیلی کی کسی بھی حقیقت پسندانہ حکمت عملی میں یہ مفروضہ قبول کرنا پڑتا ہے کہ معاشی حقائق تبدیل ہوں گے تو اقداری منظر بھی تبدیل ہو گا۔

پاکستان کی سیاست اور معاشرت میں درمیانہ طبقہ ایک سے زائد اسباب کی بنا پر خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حالیہ اندازوں کے مطابق پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی دیہات میں آباد ہے۔ اگر دو ڈالر رروزانہ فی کس آمدنی کو معیار قرار دیا جائے تو پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ انتہائی غربت کا شکار آبادی کے ان اعداد و شمار سے غیر ضروری طور پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں 79 فی صد اور کچھ پرے بنگلہ دیش میں 81 µ فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندہ ہے۔ گویا تناسب کے اعتبار سے پاکستان میں متوسط طبقے کی تعداد حوصلہ افزا ہے۔ آبادی کی اوسط عمر 22 برس ہے۔ گویا افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ دیر تک پیداواری سرگرمیوں میں شرکت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف یہ اہم اشاریہ ذہن میں رکھئے کہ بھارت کی معیشت سالانہ چھ سے سات فیصد کی شرح سے

پھیل رہی ہے جب کہ ہم چالیس برس پہلے کی چھ فیصد شرح ترقی کے مقابلے میں 4 فیصد کے ہندسے کے اسیر ہو چکے ہیں۔ صرف توانائی کے بحران پر قابو پا لیا جائے تو ہماری صنعتی پیداوار شرح ترقی میں دو فیصد کا اضافہ دے سکتی ہے۔ صرف تجارتی پالیسی میں مناسب تبدیلیاں لائی جائیں تو ہماری معیشت کی سالانہ شرح میں مزید دو فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ مگر تجارتی پالیسی میں تبدیلی ایک پھسلواں ڈھلوان ہے جہاں سے ہم مسلسل منتخب حکومتوں کو پٹخنی دیتے آ رہے ہیں۔

اس کی تفصیل میں جانے کا یارا نہیں۔ اکبر نے کہا تھا ’شہر میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا‘ ۔ ہم نے اقتصادی راہداری پر امیدیں لگا رکھی ہیں جو کچھ ایسا ہوائی قلعہ بھی نہیں، ٹھوس زمینی حقیقت ہے۔ تاہم سمجھنا چاہیے کہ گوادار بندرگار سے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار صرف 170 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور ایران بھارت کو راہداری کی سہولت دینے کے لئے بے چین ہے۔ پاکستان کے ہاتھ سے یہ موقع نکل جاتا ہے تو اقتصادی ترقی ہی نہیں، ہماری سیاسی اہمیت کو بھی زک پہنچے گی۔

دیکھئے سامنے کی بات ہے کہ ہر ریاست اپنا فائدہ دیکھتی ہے، کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔ ہم نے اقتصادی معاملات پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا تو بہت خوب کیا۔ تاہم معاشی پالیسی کی یہ تبدیلی ہماری داخلی توانائی کا سرچشمہ تب بنے گی جب ہم اپنے معاشرتی ڈھانچوں کو معاشی ترجیحات سے ہم آہنگ کریں گے۔ ہم نے تین غیر ضروری اور نقصان دہ نکات پر پوری قوم کو مفلوج کر رکھا ہے۔ عورتوں کے ساتھ قانونی، معاشرتی اور معاشی سطح پر امتیازی سلوک ہمارے اجتماعی چہرے پر ایک دھبہ ہے۔

نصف آبادی کو پیداواری معیشت کا حصہ بنائے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ صنفی امتیاز کی قانونی اور معاشی صورتیں معاشرتی اقدار میں تبدیلی کا تقاضا کرتی ہیں۔ ہم نے پاکستا ن میں عورت اور مرد کی مساوات کو غیر سنجیدہ مباحث کی نذر کر رکھا ہے۔ ذات پات کی تقسیم غیر آئینی، غیر اخلاقی، غیر جمہوری اور غیر انسانی امتیاز ہے۔ ہم نے سیاست اور معاشرت کے پیروں میں ذات پات کا طوق ڈال رکھا ہے۔ ہم نے جمہوری عمل کو ذات پات کے غیر جمہوری تصور کا اسیر بنا رکھا ہے۔

تعلیم یافتہ شہری طبقے میں ذات پات کی تقسیم کی حمایت ناقابل فہم ہے۔ اس سے ہمارے انسانی سرمائے اور سیاسی مکالمے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ریاست کا ہر شہری عقیدے کی آزادی کا ناقابل تنسیخ حق رکھتا ہے۔ ہم نے مذہبی امتیاز کی مختلف صورتوں کو جگہ دے کر سیاست اور معیشت کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔ یہ تینوں معاملات ہماری داخلی پالیسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی بیرونی قوت اس ضمن میں ہم سے تعرض کرنا نہیں چاہے گی۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں ہماری بچیاں صبح سے شام تک اس تکلیف دہ احساس کے ساتھ زندگی گزاریں کہ عورت ہونا ایک سزا ہے چنانچہ انہیں نقل و حرکت کی آزادی سے لے کر تعلیم اور شادی تک اپنی زندگی دوسروں کے حوالے سے گزارنا ہو گی۔ جہاں ہمارے ان گنت بچے اس احساس کے ساتھ زندہ رہیں کہ جوتا بنانے والے، کپڑا بننے والے یا کسی موسیقار کے گھر میں پیدا ہونا گویا ایک ادھورا انسان ہونے کے مترادف ہے۔

جہاں ہمارے لاکھوں ہم وطن سڑک پر، تعلیمی ادارے میں اور دفتر میں اپنی مذہبی شناخت بیان کرنے سے خوف زدہ ہوتے ہوں کیونکہ انہیں غیر رواداری اور امتیازی سلوک کا خدشہ ہو۔ پیدائش کے ساتھ ملنے والی ہر شناخت (صنف، زبان، نسل، عقیدہ اور ثقافت وغیرہ) انسانوں کا اثاثہ ہے۔ اس اثاثے کو بوجھ میں بدلنے والی قومیں اپنے معاشی، معاشرتی اور سیاسی امکان کو بروئے کار لانے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں اچھی تبدیلیوں کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ بہتری کے ان امکانات کو پائیدار زاویہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ جنس، عقیدے اور ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کی تمام صورتوں کو ختم کیا جائے۔ جنس، نسل اور عقیدے سے قطع نظر تمام انسان ایک جیسی عقل اور صلاحیت رکھتے ہیں، ان کا قانونی درجہ، سماجی رتبہ اور سیاسی امکان بھی مساوی ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments