ممتاز قادری اور اکرام اللہ میں کیا فرق ہے؟


ممتاز قادری کا مقدمہ جسٹس (ر)میاں نذیراختر لڑ رہے تھے۔ عدالتی کارروائی میں، عام خطبوں میں اور انٹرویوز میں انہوں نے ایک ہی بات کہی۔ فرمایا، ”ممتاز قادری نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو پہلے ہی واجب القتل تھا۔ عدالت نے کوتاہی کی تو عام شہری نے قتل کر دیا۔ عام شہری جب ایسے شخص کو قتل کردے جو پہلے ہی واجب القتل ہو تو اس کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی“۔

جسٹس صاحب کا یہ بیان دوبارہ پڑھیے۔ اس کا آسان ترین مفہوم یہ ہے کہ عدالت کے کسی بھی فیصلے سے پہلے جسٹس (ر) میاں نذیر احمد صاحب نے فیصلہ کرلیا کہ مقتول واجب القتل تھا۔ اس کا سادہ سا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ ملزم کو مجرم قرار دینے کا حق ہمارا ہے۔ عدالت نے صرف ہماری منشا کے مطابق پھانسی کا اہتمام کرنا تھا۔ اب جب عدالت نے پھانسی نہیں دی تو اس کے ذمے کا کام ممتاز قادری نے کردیا۔ عدالت کا ہاتھ بٹانے پر ممتاز قادری کو سزائے موت کیونکر ہوسکتی ہے۔ ٹھیک یہی مقدمہ شریعت کورٹ ہی کے سابق جج مفتی تقی عثمانی نے بھی پیش کیا تھا۔ دونوں بزرگوں کا موقف سامنے رکھیے۔

اب تصور کیجیے کہ آپ چنیوٹ کے اکرام اللہ ہیں۔ تبلیغی جماعت کے ایک مبلغ نے آپ کے سامنے ایک ایسی بات کہہ دی جو آپ کے عقیدے اور یقین کی رو سے گستاخی کے زمرے میں آتی تھی۔ جب آپ کو یہ یقین ہے کہ یہ مبلغ گستاخ ہے تو پھر اس بات کا بھی یقین ہوگا کہ مبلغ واجب القتل ہوچکا۔ جب واجب القتل ہوچکا تو اب عدالت کا کام یہ ہے کہ اس شخص کو بلا تاخیر پھانسی چڑھائے۔ مگر آپ کو یہ بھی یقین ہے کہ عدالت آپ کی منشا پر پورا نہیں اترے گی۔ اب جب عدالت آپ کے معیار پر پورا نہیں اتر رہی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عدالتیں اپنا کام نہیں کررہیں۔ جب عدالتیں (آپ کی خواہش کے مطابق) کام نہیں کر رہیں تو اب فیصلہ کون کرے گا؟ ظاہر ہے کہ آپ۔ تو انتظار کس بات کا۔ خنجر اٹھائیے اور اس بزرگ کے حلقوم پہ رکھ دیں جو آپ کی بارگاہِ عدالت میں گستاخ قرار پا چکا ہے۔ کردیا قتل؟ شاباش۔ اب چونکہ آپ نے اپنے خیال میں ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو ہمارے مطابق پہلے ہی واجب القتل تھا، تو کیا اب آپ کو سزائے موت ہونی چاہیے؟ اس سوال کا جواب جسٹس (ر) نذیر احمد اور جسٹس (ر) مفتی تقی عثمانی کے موقف میں تلاش کیجیے۔ کر لیا؟ اب دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ممتاز قادری اور اکرام اللہ کے کیس میں کیا فرق ہے۔

ممتاز قادری کے قتل پہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا تھا

”اگر کالا قانون سے سلمان تاثیر کی مراد یہ تھی کہ اس قانون کا استعمال غلط ہو رہا ہے تو پھر سلمان تاثیر گستاخیِ رسول کے مرتکب نہیں تھے۔ ایسے میں ممتاز قادری کے اقدام کی قانون اور شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ یہ ہے کہ ممتاز قادری کی نیت چونکہ ٹھیک تھی اور رسول اللہ کی محبت میں اس نے گورنر کو قتل کیا تھا اس لیے ہمیں ممتاز قادری کے حوالے سے اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ اللہ رب العزت خوش نیتی اور عشق رسول کے سبب ممتاز قادری کی بخشش کردیں گے“

مفتی صاحب نے جو بات ممتاز قادری کے لیے کہی تھی ٹھیک یہی بات مشال خان کے باب میں جمعیت علمائے اسلام (مولانا فضل الرحمن والی) کے رہنما مولانا شجا ع الملک نے کہی تھی۔ 5 جون 2017 کے اپنے کالم ”لیجیے جے آئی ٹی رپورٹ بھی آگئی، اور کوئی حکم؟ “ میں یہ تفصیل لکھ چکا ہوں۔ یہ موقف ان دو صاحبان کا موقف نہیں ہے۔ یہ ہماری مجموعی مذہبی سوچ اور رویے کا آئینہ دار موقف ہے۔ موقف کو سامنے رکھیے۔ اب تصور کیجیے کہ آپ چنیوٹ کے اکرام اللہ ہیں۔ تبلیغی جماعت کے ایک مبلغ نے آپ کے سامنے ایک ایسی بات کہہ دی جو آپ کے عقیدے اور یقین کی رو سے گستاخی کے زمرے میں آتی تھی۔ آپ رسول اکرم کی محبت میں اتنے سر شار تھے کہ داڑھ گرم ہوگئی۔

گھر گئے، خنجر کو دھار لگائی۔ اللہ کی بارگاہ میں دست دعا بلند کیا۔ الہی! مجھے اس اعزاز سے محروم مت رکھنا۔ رات گئے مسجد کی دیوار پھلانگ کر قلعہ آسیاں کی جامع مسجد میں داخل ہوئے۔ نصرمن اللہ و فتح قریب کا ورد کرتے ہوئے ستر سالہ بزرگ کی شہ رگ تک پہنچ گئے۔ آپ اپنے عقیدے میں اس قدر دور تک جا چکے ہیں کہ آپ بزرگ کی بزرگی بھی نہیں دیکھ پا رہے۔ محو استراحت بزرگ کے گلے پر خنجر رکھ دیا۔ کر دیا قتل؟ شاباش۔ اب چونکہ آپ نے ایک شخص کو نیک نیتی سے رسول اللہ کی محبت میں قتل کیا ہے تو اب آپ کا معاملہ بارگاہ ایزدی میں کیا ہونا چاہیے؟ اس سوال کا جواب مفتی تقی عثمانی اور مولانا شجاع الملک کے موقف میں تلاش کیجیے۔ کرلیا؟ اب دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ممتاز قادری اور اکرام اللہ کے کیس میں کیا فرق ہے؟

فرق ہم سمجھائے دیتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ممتاز قادری کے جنازے میں ایک خلقت امڈ آئی تھی۔ دو باتیں کہی گئیں۔ ایک یہ کہ اب ہمارے بیچ ٹھیک اور غلط کا فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے۔ دوسری یہ کہ ممتاز قادری کے مبارک خون نے تمام مسالک کو ایک صف میں کھڑا کردیا۔ جنازوں کی بات کی تو خیر کیا کہیں۔ حضرت یسوح مسیح اورحضرت عثمان غنی کے جنازوں میں پانچ اور چھ لوگ تھے۔ قاہرہ کی گلوکارہ ام کلثوم کے جنازے میں چھیالیس لاکھ لوگ تھے۔ اب کیا کیجیے گا۔ سوال یہ ہے کہ تمام مسالک کو کس چیز نے متحد کیا؟ ممتاز قادری نے؟ نہیں۔ پھر؟ سلمان تاثیر نے متحد کیا۔ کیوں؟ کیونکہ سلمان تاثیر کا کوئی مسلک نہیں تھا۔ فرض کیجیے سلمان تاثیر کا تعلق کسی بھی ایک مسلک سے ہوتا تو کیا ممتاز قادری کے جنازے میں سبھی فرزندانِ توحید اسی بانکپن سے چلے آتے؟

عامر لیاقت حسین نے پانچ برس قبل کچھ برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں کے کچھ ناشائستہ جملے کہے۔ دیوبندی علما نے سورج ہتھیلی پہ رکھ لیا۔ کیا بنا؟ یہی کہ پورا بریلوی مسلک عامر لیاقت حسین کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ پھراسی عامر لیاقت حسین کے ساتھ کھڑا ہوانے والا مسلک جنید جمشید کے ایک لائقِ تاویل جملے پر آتشِ زیرپا ہوگیا۔ کیا بنا؟ یہی کہ دیوبند مسلک جنید جمشید کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ فرض کیجیے جنید جمشید کا تعلق کسی مسلک سے نہ ہوتا اور عامر لیاقت حسین کی جڑیں شیعہ اور بریلوی مسلک میں نہ ہوتیں تو منظرنامہ کیا ہوتا؟ ابھی کل کی بات ہے کہ عامر لیاقت پرایک دینی جامعہ میں تشدد ہوا اور اختر منشی نے اسلام آباد آئیر پورٹ پر جنید جمشید کو زدو وکوب کیا۔

خدا عامر لیاقت کو زندگی دے، جنید جمشید کو کروٹ کروٹ راحت دے۔ مگر عامر لیاقت یا جنید جمشید میں سے کوئی ایک بھی اگر جان سے گزر جاتا تو کیا قاتل کو ممتاز قادری والا پروٹوکول مل پاتا؟ یا قاتل کا جنازہ تمام مسالک کو متحد ومتفق کر پاتا؟ بس یہی فرق ہے اکرام اللہ اور ممتاز قادری کا۔ دونوں کے پاس قتل کی بنیادیں یکساں ہیں۔ دونوں کی نیتیں اور جذبہ عشق یکساں ہیں۔ دونوں یکساں اجر کے مستحق بھی ہیں۔ مشکل مگر یہ آن پڑی ہے کہ مقتولوں کا اسٹیٹس یکساں نہیں ہے۔ لوگ بزرگ ولی الرحمن کے لیے ماتم کناں ہیں۔ مجھے اکرام اللہ کی بدنصیبی کھائے جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).