دو صحافیوں کے جمہوریت کش مشورے


پاکستان میں صحافیوں کے حکمرانوں کو الٹے سیدھے مشورے دینے کی بھی ایک تاریخ ہے۔ آج دو صحافیوں کے ان مشوروں کا ذکر کرنا مقصود ہے جنھوں نے جمہوری نظام اور انتخابی عمل کو گہری زک پہنچائی۔ گورنر غلام محمد نے 1953میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کوبغیر کسی وجہ کے برطرف کردیا۔ اس اقدام سے پہلے انھیں بدنام کرنے کی منظم مہم چلی، جس میں ہمارے صحافی بھائی پیش پیش تھے۔ گندم کے مصنوعی بحران کا غوغا بلند کرکے اس طرح کی فضا بنائی گئی جیسے قحط آنے کو ہو۔ وزیر اعظم کو’’قائد قلت ‘‘کا خطاب دے کر خوب رسوا کیا گیا۔ اس کے بعد ان سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ ہونے لگا، اس کار خیر میں صحافتی محاذ پر’’ نوائے وقت‘‘ سب سے آگے تھا، جس کے ایڈیٹر حمید نظامی نے اداریے میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ سے استعفے کا مطالبہ کیا اور گورنر کو تجویز کیا کہ آئین معطل کرکے نئے انتخابات تک بیورو کریسی کے ذریعے کاروبار مملکت چلایا جائے۔ ان کے بقول ’’ ہم پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ عوام نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں کے مقابلے میں محنتی اور ایماندار سرکاری ملازمین کی حکومت کو ترجیح دیں گے۔ ‘‘

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو تو راولپنڈی میں قتل کردیا گیااور اب اس دوسرے کو ’گندہ‘ کرکے عہدے سے ہٹا دیا، صحافی بھائی اس کھیل میں آلہ کار بنے اور عدالت عظمیٰ نے اس غیر جمہوری اقدام پر ٹھپہ لگا دیا۔ سیاست دانوں کا نااہل اور بدعنوان قرارپانا نئی بات نہیں، یہ کہانی بہت پرانی ہے۔ ایمان دار ٹیکنوکریٹس کی حکومت بھی نیا شوشہ نہیں۔ یہ سب کچھ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ بعد میں بھی ہوتا رہا، سکرپٹ وہی رہا، کردارالبتہ بدلتے رہے۔

اب آتے ہیں ایک اور نامور صحافی کے تباہ کن مشورے کی طرف جس نے ہمارا انتخابی نظام گدلا کردیا۔ ذات برادری اور دھڑے بندی، یہ عوامل انتخابی سیاست میں خاص طور پر پنجاب میں، پہلے بھی کار فرما ہوتے لیکن انھیں فیصلہ کن حیثیت 1985کے غیر جماعتی انتخابات میں حاصل ہوئی۔ ضیاء الحق کو غیر جماعتی انتخابات کرانے کی پٹی مجیب الرحمٰن شامی نے پڑھائی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایم آر ڈی کے باعث ضیاء بہت پریشان تھے، لیکن مجیب الرحمٰن شامی نے ان سے کہا کہ پنجاب میں اس تحریک کی طرف کوئی متوجہ نہیں، اس لیے یہ ختم ہوجائے گی۔ یہ نویدِ جانفرا سن کر ضیا کے چہرے پر رونق آگئی اور انھوں نے گرم وسرد چشیدہ صحافی سے پوچھا الیکشن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس پر جو مکالمہ ہوا اس کے راوی مجیب الرحمٰن شامی خود ہیں۔ انھوں نے مظفر محمد علی کو انٹرویو میں بتایا:

’’ میں نے کہا کہ الیکشن تو آپ ایک ہی طرح کا کرا سکتے ہیں، کہنے لگے کہ کون سا؟ میں نے کہا کہ غیر جماعتی۔ آپ جماعتی الیکشن تو کرا ہی نہیں سکتے آپ تو غیر جماعتی کرا سکتے ہیں، اس لیے غیر جماعتی ہی کی بات ہونی چاہیے۔ کہنے لگے کہ وہ کس طرح؟ میں نے کہا کہ جس دن آپ نے جماعتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا تو گیند جماعتوں کی کورٹ میں چلی جائے گی۔ اور وہ اپنی شرائط لگائیں گی، اور جب آپ ان کی شرائط پوری نہیں کرسکیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے، جب وہ یہ کہیں گے تو آپ خالی ہاتھ ہو جائیں گے کیونکہ آپ کے الیکشن نہیں ہوسکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ پھر کیا کیا جائے، میں نے کہا کہ غیر جماعتی الیکشن کرائے جائیں، انھوں نے کہا کہ کون سپورٹ کرے گا، میں نے کہا سارے کریں گے، کہنے لگے مثلاً کون؟ میں نے کہا کہ مسلم لیگ پیر پگاڑا کی ہے، وہ سپورٹ کریں گے۔ جماعت اسلامی سپورٹ کرے گی، باقی بھی جو بہت سے امیدوار کھڑے ہو جائیں گے، سپورٹ کریں گے۔ کہنے لگے کہ اخبار والوں میں سے کون سپورٹ کرے گا، صلاح الدین بھی ہمارے خلاف لکھ رہے ہیں، میں نے کہا کہ صلاح الدین سے بات کرلیں گے، وہ سپورٹ کریں گے، دوسرے دوستوں سے بھی بات کریں گے وہ بھی سپورٹ کریں گے، وہ کہنے لگے کہ پھر تو بڑی خوشی کی بات ہے‘‘۔

اس سارے بیانیے میں سب سے بڑی پارٹی پیپلز پارٹی کا ذکر سرے سے غائب ہے۔ بات ہو رہی ہے تو اس مسلم لیگ کی جس کے سربراہ پیر پگاڑا تھے۔ اس کی پاکستانی تاریخ میں کیا حیثیت رہی ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ کس قدر یقین ہے کہ جماعت اسلامی غیرجماعتی الیکشن کو قبول کرلے گی۔ یہ ایک اور ’’ مقبول ‘‘ پارٹی تھی۔ صحافیوں کو اپنی طلاقت لسانی سے قائل کرنے کا مینڈیٹ بھی خود سے حاصل کرلیا۔ اگلے مرحلے میں ضیا نے مشورت کے لیے زیڈ اے سلہری، محمد صلاح الدین، ضیا الاسلام انصاری اور ابن حسن کو بلایا اوربات چیت کی۔ ساتھ اس کارواں کے ظاہر ہے جناب شامی بھی تھے، جنھوں نے بتایا: ’’ اب میں یہ نہیں کہتا کہ یہ فیصلہ میں نے کرایا لیکن تب ابھی تک وہ گومگو کی کیفیت میں تھے، ان کی خواہش تھی کہ غیر جماعتی انتخابات کرائے جائیں اور کوشش تھی کہ انھیں اس کی سپورٹ مل جائے، میرے ساتھ ان کی گفتگو نے انھیں ایک کلیرٹی دے دی اور وہ اس راستے پر چل پڑے۔ ‘‘

اوراقِ ماضی سے دو ایسی مثالیں چھانٹ کر ہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہیں، جن میں دو نامور قلم کار حکمرانوں کو ایسا مشورہ دے رہے ہیں، جس پر عمل سے بدقسمتی کی بات ہے ملک کا نقصان ہوا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اتار چڑھاؤ کا تجزیہ کرتے ہوئے ان باتوں سے صرف نظر کرکے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ بات یہ ہے کہ جس طرح جمہوری عمل کے توانا ہونے کے لیے سیاست دانوں کا کردار اساسی حیثیت رکھتا ہے بالکل اسی طرح رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے حلقوں کا نقطہ نظربھی اہم ہے۔ انھیں بھی جمہوری سیاست سے متعلق مباحثوں کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ تجزیے کے اس عمل میں تلخ سوالات ضرورسر اٹھاتے ہیں لیکن ان کی کوکھ سے برآمد ہونے والے جوابات کی روشنی میں مستقبل کی راہ متعین کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).