ببلو کا بیف بن گیا


ہمارے دو نونہال ہیں۔ برخوردار خان کو جانور بہت زیادہ پسند ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ دنیا کا ہر جانور ہمیں پال لینا چاہیے۔ بکرا عید پر وہ بچپن سے ہی پرجوش ہو جاتا تھا۔ اس وقت تک کاغذ کی بوٹیاں بناتا رہتا تھا جب تک بکرے کی بوٹیاں بننے کا عمل ختم نہیں ہو جاتا تھا۔ مگر اسے جانور پالنے کا شوق تو ہے، رکھنے کا نہیں۔ اور وہ جلدی جلدی ماڈل تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں عید پر اسے موقع ملتا ہے کہ جانور کو دو چار دن رکھ کر ایک بہترین انداز میں فارغ کر دے یعنی اس کے تکے کباب بنا ڈالے جس میں ایک دن کا موج میلہ مزید مل جاتا ہے۔

ہم تو ذاتی طور پر ایسی خونریزی میں شامل ہونے سے احتراز کرتے ہیں، مگر ہمارے گھر میں بکرا خود قربان کرنے کی روایت چلی آتی ہے۔ کئی دہائیاں پہلے جب بکرے کی کھال اتارتے ہوئے ایک قصائی کے انٹرویو کے دوران بزرگوں پر انکشاف ہوا کہ وہ ایک پروفیشنل قصائی نہیں ہے بلکہ موچی ہے تو لٹکے بکرے کو ادھر ہی چھوڑ کر اس موسمی قصائی کو کھڑے گھاٹ گھر بدر کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے گھر کے لڑکوں کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ خود بکرے سے نمٹا کریں۔ اب اتنا وقت گزر گیا ہے کہ وہ لڑکے خود بزرگ ہو گئے ہیں اور بکرا ان کو ہاتھی جیسا لگنے لگا ہے۔ ہاتھی کو کون قربان کر سکتا ہے، وہ بھی انکاری ہو گئے۔ اس لئے پچھلی عید پر ترک دوستوں سے سالم گائے کی بات کر لی۔ لیکن برخوردار خان اور اس کے نصف درجن کزنوں کو یہ پسند نہ آیا کہ وہ جانور پالنے اور کاٹنے سے محروم رہیں۔ اس عید پر بزرگوں نے ان کو کلی اختیارات دے دیے کہ جو مرضی کرو۔

برخوردار خان کا ٹولہ ان اختیارات سے لیس ہو کر رات دس بجے مویشی منڈی پہنچا کیونکہ ان کو ملنے والی خفیہ اطلاعات کے مطابق اس وقت جانور نہایت سستا ہو جاتا تھا۔ خوب تلاش اور بھاؤ تاؤ کرنے کے بعد ایک فربہ قسم کا بچھیرا انہوں نے نہایت مناسب داموں پر خرید لیا۔ اس بچھیرے کو خریدنے کے لئے برخوردار خان کی ٹیم کے ساتھ فرمانبردار خان کو بھی زبردستی بھیجا گیا تھا۔

فرمانبردار خان کا زندگی میں یہ فلسفہ ہے کہ اگر ایک کام کو کوئی دوسرا شخص کر سکتا ہے تو خود زحمت کرنے کی بجائے اسے ہی وہ کام کرنے کی سعادت دی جانی چاہیے۔ اسے جانوروں سے ایک ہی صورت میں دلچسپی ہے یعنی وہ تکے کباب یا کڑاہی کی شکل میں ہوں۔ اسے ہر وقت کھانا یاد آتا رہتا ہے۔ فرمانبردار خان کو گوشت سے لدا موٹا موٹا نرم نرم سا بچھیرا نہایت پیارا لگا۔ اتنا پیارا کہ اس کا نام اس نے سودا ہوتے ہی ببلو رکھ دیا۔ ببلو کی ران اور پٹھ میں اسے بہترین سٹیک اور تکوں کی موجودگی صاف دکھائی دے رہی تھی۔

ببلو کو لے کر گھر پہنچے۔ ساتھ ڈرائیور بھی تھا۔ ببلو گھر اترتے ہی فرار ہو گیا۔ ڈرائیور نے نہایت تیزی سے اس کا تعاقب کر کے پکڑا اور اسے نکیل سے کھینچا۔ ببلو نہایت طاقتور تھا مگر نکیل کے آگے اس کی بس نہ چلی۔ گھر آ گیا اور پھر اس نے ڈرائیور کو اپنے پاس نہ لگنے دیا۔ دیکھتے ہی اس پر حملہ کر دیتا تھا۔ لڑکوں سے اس کے نہایت خوشگوار تعلقات قائم ہو گئے۔ انہوں نے رات تین تین بجے تک جاگ کر اس کی خدمت بھی تو بہت کی تھی۔ ان کو یقین تھا کہ تین دن میں وہ ببلو کو ڈبل موٹا کر سکتے ہیں۔

اس کے بعد برخوردار خان کی ٹیم کے سامنے اگلا مرحلہ قصائی تلاش کرنے کا تھا۔ گائے والے قصائی کے پاس وقت نہیں تھا اور ویسے بھی پتہ چلا تھا کہ وہ اپنی جگہ کسی اناڑی کو بھیج دیتے ہیں۔ بکرے والے قصائی سے بات کی۔ اس کا ریٹ ایسا تھا کہ لگتا تھا کہ ہاتھی کی قربانی کے پیسے لگا رہا ہے۔ تیسرے نمبر پر برخوردار خان کی ٹیم اگلے قصائی کے پاس گئی جو محلے میں مرغیاں حلال کر کے بیچتا ہے۔ مرغی والے کے پاس وقت تھا مگر گائے کا نام سننے کے بعد وہ انکاری ہو گیا۔ وہ بکرے سے بڑے لیول کا جانور حلال نہیں کرتا تھا۔ ایک آفر ڈرائیور کی طرف سے آئی جس کے واقف کچھ ایسے باکمال حضرات تھے جو عام دنوں میں شو روم پر گاڑیاں چمکاتے تھے مگر عید کے دن کے لئے ان کے پاس پوری کٹ موجود تھی اور وہ چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک ہر جانور ذبح کر سکتے تھے۔ بہرحال برخوردار خان کو گائے کا گھاس فراہم کرنے والے نے نہایت تجربہ کار قصابوں کی ٹیم فراہم کرنے کا یقین دلا دیا۔

ٹیم نے دو بجے کا وقت دیا تھا۔ ہم نے برخوردار خان کو بتایا کہ شام چھے بجے تک بھی آ گئے تو بڑی بات ہے۔ مگر وہ تو بارہ بجے ہی آن کھڑے ہوئے۔ ہم نے برخوردار خان کو خبردار کیا کہ ببلو ان گھسیاروں کے بس کا نہیں ہے۔ خوب مار پیٹ ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ ببلو گردن کٹنے کے بعد بھی حملہ آور ہو جائے اس لئے دور رہنا۔

ببلو ہمارے اعتماد پر پورا اترا۔ اس نے گھسیارے قصابوں کا کامل ڈیڑھ گھنٹے بھرپور مقابلہ کیا۔ کئی کو ٹکریں ماریں۔ ایک کو سینگوں پر اٹھا کر پٹخ دیا۔ مگر ایک گھسیارے نے آئین جوانمرداں کی خلاف ورزی کی۔ دھوکے سے ببلو کے عقب میں پہنچا اور پھر بہادر ببلو بے خبری میں مارا گیا۔ پشت سے کیے گئے بزدلانہ وار کو تو رستم نہیں روک سکتا، ببلو کی کیا حیثیت تھی۔ ببلو زمین پر گر گیا۔ اب ببلو کا بیف بن گیا ہے اور بقر عید میں فرمانبردار خان کی دلچسپی شروع ہو چکی ہے۔
Sep 2, 2017

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1548 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments