جنگ ستمبر سے جڑی یادیں


ستمبر1965ءکی جنگ کے حوالے سے میری کچھ یادیں ہیں۔ میں ان کی جذباتی قوت وگہرائی کو تجزیے کی بھینٹ چڑھانے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔

6ستمبر کی صبح دس سے گیارہ بجے کے درمیان ایک ”رعد“ ایسی صدا لاہور کی فضاؤں میں گونجی تھی۔ میں اس وقت اپنے گھر کے قریبی بازار کے مشہور لال حلوائی کی دُکان پر پوریاں خرید رہا تھا۔ اس صدا کی دہشت سے میرے ہاتھ میں چنوں سے بھرا اور پتوں سے بنا ہوا ”دونا“ گرگیا تھا۔ ”انڈیانے حملہ کردیا ہے“یہ فقرہ پورے بازار میں ایک Refrainکی طرح گونجا۔ کئی لوگوں نے فوراََ واہگہ کی طرف چلنا شروع کردیا۔

میں بھی اس ہجوم میں شامل ہوگیا۔ ریلوے اسٹیشن کے قریب ہمارے ایک ہمسائے نے مجھے دیکھ کر ڈانٹا۔ بہت سختی سے سمجھایا کہ جنگیں عام شہری نہیں فوج لڑاکرتی ہے۔ میرا ہجوم کے ساتھ پاک، بھارت سرحد کی طرف سفر کرنا حماقت ہے۔ اس ہمسائے نے کڑی نگرانی میں مجھے میرے گھر پہنچاکر ماں کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد میرا گھر سے نکلنا محال ہوگیا تھا۔

6ستمبر1965کی جنگ کے دوران گزرے دنوں کے اجالے میں کیا ہوتا رہا مجھے اس کے بارے میں کچھ یاد نہیں۔ سورج غروب ہونے کے بعد کی یادیں البتہ مگر حافظے میں فلموں کے ڈرامائی مناظر کی صورت موجود ہیں۔ سورج ڈھلنے کے بعد ہمیں اپنے گھروں میں جلے بلبوں کی روشنی کو چھپانا ہوتا تھا تاکہ دشمن کے جہاز ہماری بستی کو نشانہ نہ بنائیں۔ گھروں کو باہر سے تاریک دِکھتا بنادینے کے بعد ہم ریڈیو کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔ شکیل احمد کی پڑھی خبریں اور ریڈیو کی ”گولڈن وائس“ یاسمین طاہر کے ”فوجی بھائیوںکے لئے“ ہوئے پروگرام آج بھی حرف بہ حرف یاد ہیں۔
اس ریڈیو کے ذریعے ”میرا ڈھول سپاہیا“ اور ”اے پتر ہٹاں تے نئی وکدے“ ملکہ ترنم نور جہاں سے پہلی بار سنے تھے۔ توپوں کی گھن گرج روزمرہّ زندگی کا معمول بن چکی تھی۔ بالآخر ایک ”رانی توپ“ سے بمباری شروع ہوئی۔ اس کے چند روز بعد سیز فائر ہوگیا۔

اس سیز فائر کے باوجود ہم نے اپنے محلے کے باہر موجود باغ میں فضائی حملوں سے بچنے کے لئے خندقیں کھودنا سیکھا۔ شہری دفاع کی شدبد حاصل کی۔ اس کے بعد اس زمانے کے بہت ہی مشہور اخبار ”مشرق“ میں غالباََ ریاض بٹالوی صاحب نے ایک فیچر لکھا اس کے ذریعے بتایا گیا کہ اگر قوم کا ہر فرد روزانہ ایک ”ٹیڈی پیسہ“ بچائے تو جمع ہوئی رقم سے ایک ٹینک خریدا جاسکتا ہے۔ میں کئی دنوں تک اپنے ہاتھ میں ”گلہ“ اٹھائے بھکاریوں کی طرح لوگوں سے یہ ”ٹیڈی پیسہ“ مانگتا رہا۔ وہ گلہ مگر جب پیسوں سے بھر گیا تو ”تاشقند معاہدہ“ ہوگیا۔

میرے محلے کی اکثریت کا خیال تھا کہ ایوب خان نے جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار دی ہے۔ اگرچہ چند سیانے ان محلے داروں کو یہ سمجھانے کی کوشش میں بھی مصروف رہتے کہ مذاکرات کی میز پر جنگ ایوب خان نے نہیں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے ہاری تھی۔ مذاکرات کی میز پر جنگ ہارجانے کی وجہ ہی سے وہ اپنے وطن لوٹنے سے گھبرارہا تھا۔ اسی گھبراہٹ میں اسے سوتے میں دل کا دورہ پڑا اور وہ ہلاک ہوگیا۔

ہمارے محلے میں جن لوگوں کے ہاں اخبارات آتے تھے ان کی اکثریت مگر اس بات پر بضد رہی کہ ایوب خان نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہاردی تھی۔ اپنے دعوے کے ثبوت میں وہ ”تاشقند مذاکرات“ کے اختتام پر ہوئے معاہدے کی تصویر کو کئی دنوں تک اپنے پاس رکھے رہے۔ اس تصویر میں ان دنوں کے وزیر خارجہ۔ ذوالفقار علی بھٹو۔ معاہدے کی تقریب سے ناراض ہوئے الگ تھلگ دِکھ رہے تھے۔

بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کی بنائی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ استعفیٰ دینے کے بعد وہ بذریعہ ریل لاہور آئے تو ان کے خیرمقدم کے لئے ایک بہت جذباتی ہجوم اکٹھا ہوگیا۔ اسے منتشر کرنے کے لئے ”ہلکالاٹھی چارج“ بھی ہوا۔ بھگدڑ میں ایک لاٹھی میرے دائیں کندھے پر بھی لگی تھی۔ کئی روز تک میری ماں کیتلی میں پانی اُبال کر اس میں آٹے کا ”چھان“ ڈالتی اور اس میں کپڑا ڈال کر میرے زخم پر ”ٹکور“ کرتی رہی۔ 6ستمبر1965ءکی جنگ سے وابستہ بہت کہانیاں ہیں۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں؟ میں بہرحال ان سے بہت جذباتی تسکین حاصل کرتا رہا ہوں۔

1975ءسے لیکن میں صحافی ہوگیا۔ بتدریج سیاست اور خارجہ امور میری Beatبن گئے۔ صحافتی سفر کے دوران اپنی تاریخ کے بہت سارے واقعات کو Revisitکرنا پڑا۔ اگرچہ میری نسل کے لئے سب سے پریشان کن واقعہ مشرقی پاکستان کی ہم سے علیحدگی تھی۔ کئی مہینوں تک میں اس کی وجوہات تلاش کرنے اور سمجھنے میں مصروف رہا۔ جب یہ وجوہات کافی سمجھ لیں تو جنرل ضیاءکا مارشل لاءلگ گیا۔

اس مارشل لاءکے دوران ایئرمارشل اصغر خان نے چند مضامین لکھے۔ ان کے ذریعے پاک فضائیہ کے سابق اور ایمان دار مانے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ 1965ءکی جنگ ایک غلطی تھی۔ ان کے دعوے کی تصدیق ایئرمارشل نور خان نے بھی چند مضامین لکھ کر فراہم کردی۔ ایمان داری کی بات ہے کہ مجھے ان کے لکھے مضامین 6ستمبر1965ءکی جنگ سے جڑی میری یادوں کو جھٹلانے کی کوشش لگے۔ میں نے شترمرغ کی طرح ریت میں سردے کر اپنی یادوں کو بچالیا۔

فیلڈ مارشل ایوب خان کے مگر ہٹلر کے گوئبلز جیسے ایک سیکرٹری اطلاعات ہوا کرتے تھے۔ الطاف گوہر ان کا نام تھا۔ انہوں نے ستمبر1965ءکے حوالے سے کافی تحقیق اور ذاتی تجربوں کی بنیاد پر ایک کتاب لکھی۔ اس میں دعویٰ ہوا کہ ”ہوس اقتدار“ میں مبتلا ”سازشی“ بھٹو نے فوج کے چند جرنیلوں کے ساتھ مل کر ”آپریشن جبرالٹر“ کے ذریعے کشمیر کو آزاد کروانے کی کوشش کی تو بھارت نے 6ستمبر1965ءکی صبح لاہور کا محاذ کھول دیا۔ اس جنگ کی وجہ سے ورلڈ بینک کی محبتوں سے بہت تیزی کے ساتھ خوش حالی کی طرف بڑھتے پاکستان میں ترقی کا سفر رک گیا۔ امریکہ ایوب خان سے ناراض ہوگیا۔ موصوف کے خلاف تحریک چلی تو یحییٰ خان آگئے۔ اس فوجی آمر نے ملک میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 1970ءکے انتخابات کروائے تو ”ہوس اقتدارمیں مبتلا“ ذوالفقار علی بھٹو نے ”اُدھر تم اِدھر ہم“کا نعرہ بلند کرکے ان کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یہ انکار بالآخر سقوط ڈھاکہ کا باعث ثابت ہوا۔

ستمبر1965ءکی جنگ سے جڑی میری تمام یادیں ایسی کتابوں نے گدلادی ہیں۔ تاریخ کو Revisitکرنا میرے خیال میں کبھی کبھار بہت ناخوش گوار سفر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسے سفر سے اجتناب ہی بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).