طاقت کے نشے میں کہیں وہ تنہا نہ رہ جائے!


نواز شریف کا ووٹر روایتی دائیں بازو کا ووٹر رہا ہے۔ اس ووٹر کو بھارت دشمنی مرغوب، پاک فوج سے محبت، لبرل اور سیکولر نظریات سے نفرت اور ضیائی سوچ سے عقیدت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے سیاسی کیرئیر کے شروع کے انتخابات میں نواز شریف اپنی الیکشن مہم میں نعرے لگاتے تھے کہ وہ جنرل ضیا کے مشن کو پورا کریں گے۔ بھٹو اور پیپلز پارٹی کو یہ مسلم لیگی ووٹر لبرل سوچ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویے کی وجہ سے دین و وطن کا غدار سمجھتا تھا۔

پھر ایسا ہوا کہ وحید کاکڑ فارمولے کے نتیجے میں میاں نواز شریف نے خود کو جنرل ضیا کے سائے سے نکال لیا۔ وہ اب اسٹیبشلمنٹ کے آگے ڈٹ جانے والے ایک مشہور لیڈر بن چکے تھے۔ جب وہ دو تہائی اکثریت سے دوبارہ وزیر اعظم بنے تو ان کے ایجنڈے کا ایک اہم جزو امیر المومنین بننا قرار پایا۔ ان کا خواب ادھورا رہ گیا۔ بہرحال وہ دو تہائی اکثریت کے نشے میں چور تھے۔ انہوں نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے سپریم کورٹ سے ٹکر لی اور اپنی سیاسی زندگی کا سب سے نمایاں داغ اس وقت وصول کیا جب مسلم لیگی کارکنان نے نومبر 1997 میں سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا۔ اس داغ کے باوجود نواز شریف اپنے مشن میں کامیاب رہے اور سپریم کورٹ کے ججوں نے چیف جسٹس کے خلاف میاں نواز شریف کا ساتھ دیا۔ ان کا اگلا معرکہ شریف النفس آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے تھا۔ جنرل جہانگیر کرامت نے استعفی دے دیا اور جنرل مشرف چیف بنے۔

نواز شریف نے اس وقت پہلی مرتبہ بھارت سے دوستی کی سنجیدہ کوشش کی۔ اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے اور پھر کارگل ہو گیا۔ نواز شریف طاقت کے نشے میں چور تھے۔ انہوں نے جنرل مشرف کو بھی جنرل جہانگیر کرامت سمجھ لیا مگر اس مرتبہ ان کا مقدر جیل اور جلاوطنی بنے۔ بے نظیر بھٹو سے میثاق جمہوریت کے بعد ان کا ایک نیا امیج بننا شروع ہوا۔

نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد 2013 کی الیکشن کمپین شروع کی تو سب سے پہلے ہندوستان سے دوستی کا نعرہ لگایا۔ جنرل ضیا کے دور میں وی سی آر پر بھارتی فلموں کے نظارے اور جنرل مشرف کے دور میں سیٹلائٹ چینل پر بھارتی ڈراموں کی یلغار کے بعد روایتی طور پر بھارت دشمنی میں پنجاب کو بھی اس زمانے میں کوئی خاص کشش محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہندوستان دوستی کے نعرے کے باوجود نواز شریف بھارتی اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔ اب ان کو نظریات کی بجائے اپنی شخصی کشش کے ووٹ ملتے تھے۔ لیکن ان اقدامات کے نتیجے میں وہ بھارت سے مستقل دشمنی رکھنے والے اور فوج سے اندھی عقیدت رکھنے والے ووٹر کو خود سے دور دھکیلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

اب وہ اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی تقاریب میں بھی جانے لگے۔ انہوں نے فرمایا کہ پاکستان کا مستقبل لبرل ہونے میں ہی ہے۔ احمدی عبادت گاہ پر حملے کے بعد انہوں نے احمدیوں کو اپنا بھائی قرار دیا۔ ہندو تقاریب میں وہ شریک ہوئے اور ہولی دیوالی میں شرکت کی خواہش ظاہر کی۔ امور خارجہ انہوں نے اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔ نواز شریف نے ان اقدامات کے ذریعے ملک کے لبرل اور سیکولر طبقات کو تو اپنا حامی کر لیا مگر سخت گیر مذہبی نظریات رکھنے والے اکثریتی ووٹروں کو خود سے دور دھکیل دیا۔

پاناما کیس میں لبرل، سیکولر اور جمہوریت پسند افراد نے میاں نواز شریف کی بھرپور حمایت کی۔ وہ اسے میاں نواز شریف نہیں بلکہ جمہوریت کے خلاف جنگ سمجھ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ معزولی کے بعد جب میاں نواز شریف نے جی ٹی روڈ سے واپسی کا سفر شروع کیا تو پیپلز پارٹی کے بعض ڈائی ہارڈ ازلی جیالے بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔

پھر الیکشن اصلاحات کے بل کا معاملہ آیا۔ امیدواروں کے فارموں کو سادہ کرنے کی کوشش کی گئی جو پارلیمان کی اکثریت نے منظور کر لی۔ بعد میں اس پر اعتراضات اٹھے۔ فارموں کو دوبارہ پرانی شکل میں بحال کیا گیا۔ یاد رہے کہ دونوں فارموں میں ختم نبوت کی شق موجود تھی مگر اس کی زبان پر اعتراضات آئے۔ اس معاملے نے ان سے مذہبی سوچ رکھنے والوں کو بھی دور کیا اور لبرل سیکولر کو بھی۔

نیب عدالت میں جب پہلی مرتبہ پیشی ہوئی اور اچانک کہیں سے رینجرز آ گئے اور وزیر داخلہ احسن اقبال کو بھی داخلے کی اجازت دینے یا اپنے کمانڈر سے بات کرنے سے روک دیا، تو جمہوریت پسند طبقات ایک مرتبہ پھر اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ کر جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے۔

مگر اب میڈیا رپورٹس کے مطابق نیب عدالت میں مسلم لیگ نون کے وکلا کی ہنگامہ آرائی اور اپنی ڈیوٹی ادا کرنے والے پولیس افسر کو تھپڑ مارنے کا منظر دیکھنے کے بعد، جمہوریت کی بالادستی کے حامی افراد یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ 28 نومبر 1997 کے دن چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والی مسلم لیگ نون کی لیڈر شپ نے وقت سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ اگر پولیس نے مسلم لیگ نون کے وکلا کے ساتھ مار پیٹ کی ہے، تو وہ پولیس کیا حکومتی احکامات پر عمل نہیں کر رہی تھی؟ اگر مسلم لیگ نون کے وکلا نے اشتعال انگیزی کی تھی، تو کیا وہ مسلم لیگی قیادت کی آشیر باد کے بغیر یہ کر رہے تھے؟ وکلا یا پولیس اہلکار، جو بھی اس قابل مذمت واقعے کو جنم دینے کا باعث بنے ہوں، اصل ذمہ داری مسلم لیگ نون کی قیادت ہی کی قرار پائے گی۔ ایسی حرکات سے مسلم لیگ نون یہ ثابت کر رہی ہے کہ وہ جہموریت کی نہیں بلکہ محض اپنی ذات کی سیاست کر رہی ہے۔

دائیں بازو کے ووٹر کو دور دھکیلنے کے بعد اب مسلم لیگ نون کی حکومت جمہوریت پسند لبرل اور سیکولر طبقات کو بھی خود سے دور دھکیل رہی ہے۔ نواز شریف کی خود ساختہ جبری تنہائیاں کہیں ان کو دوبارہ ایسے مقام پر نہ کھڑا کر دیں جہاں ان کا ہمدرد و غمگسار کوئی نہ ہو۔ ”طاقت کے نشے میں کہیں وہ تنہا نہ رہ جائے!“ (ختم شد)

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar