قائداعظم یونیورسٹی میں پھر احتجاج: 100 سے زائد طلبا گرفتار


اسلام آباد میں پولیس نے دو ہفتے سے زیادہ عرصے بند رہنے کے بعد پیر کو کھلنے والی قائداعظم یونیورسٹی سے 100 سے زیادہ طلبا کو احتجاج کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا ہے۔ ادھر طلبا کا موقف ہے کہ ان کا احتجاج پرامن تھا اور پولیس نے بلاوجہ لاٹھی چارج کر کے بڑی تعداد میں طلبا کو زخمی بھی کیا ہے۔

سیکریٹیریٹ سرکل کے سب ڈویژنل پولیس افسر عبدالرزاق نے بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ ابھی تک ان طلبا کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ نقص امن اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔ طلبا کی گرفتاری کے خلاف ان کے ساتھیوں نے اسلام آباد کے پریس کلب کے باہر مظاہرہ بھی کیا ہے۔ مظاہرے میں شریک طلبا نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور وہ پولیس کے اقدامات کے خلاف نعرے بازی بھی کر رہے تھے۔

اسلام آباد کی سب سے بڑی یونیورسٹی اور حالیہ دنوں میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی درجہ بندی میں تحقیق کے لیے بہترین قرار دی گئی اس درس گاہ میں حالات گذشتہ چند ماہ سے خراب ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ نے گذشتہ جمعرات بظاہر طلبا کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد درس گاہ کو سوموار سے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ حالیہ کشیدگی کی وجہ اس سال مئی میں دو لسانی طلبا تنظیموں کی درمیان تصادم تھا جس کے بعد تقریباً 40 طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دیا تھا۔

اس تازہ احتجاجی مظاہرے میں طلبا نے انتظامیہ کے سامنے 13 مطالبات رکھے جن میں یونیورسٹی سے نکالے جانے والے طلبا کی جامعہ میں واپسی، طلبا کے لیے سفری سہولیات کے نظام کو بہتر کیا جانا، پیرامیڈکس سمیت دیگر غیر رجسٹرڈ شعبہ جات کی رجسٹریشن اور فیسوں میں ہونے والے اضافے کو واپس لیے جانے کے مطالبات شامل ہیں۔ انتظامیہ نے فیسوں میں کمی کا مطالبہ تو مان لیا لیکن وہ 40 طلبا کو بحال نہ کرنے پر مصر ہے۔ بعض طلبہ اس فیصلے سے خوش نہیں تھے اور انھوں نے اپنا پرامن احتجاج پیر کے روز بھی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

ایک طالب علم نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ‘پیر کی صبح کئی ٹرکوں میں پولیس اور انسداد دہشت گردی کی فورس کے اہلکار یونیورسٹی آئے اور احتجاج کرنے والے طلبا کو زبردستی گرفتار کر کے ساتھ لے گئے۔ پولیس نے طالبات کے ساتھ بھی زیادتی کی اور انھیں مارا۔

عینی شاہد طالب علم نے یونیورسٹی انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ وہ ملک کے اس بہترین تعلیمی ادارے کی زبوں حالی پر توجہ نہیں دے رہی اور طلبہ اگر شکایت کرتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

طلبہ کی بحالی کی مخالفت صرف انتظامیہ نہیں کر رہی بلکہ حکومت اور اساتذہ بھی اس کے مخالف ہیں۔ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کمیٹی کے سابق رُکن اور سینیئر لیکچرار وحید احمد نے کہا کہ ‘اگر جامعہ کے قوانین کو توڑنے والے طلبا کو واپس یونیورسٹی میں داخل کیا گیا تو اگلا احتجاج اساتذہ کریں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp