گلاب جامن اور سانولی لڑکیاں


خشونت سنگھ سے ملاقات؟ کیا پاگل ہوگئے ہو؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا؟ ہم یہاں دلی میں رہتے ہوئے ان سے نہیں مل سکتے تو آپ کیسے مل پائیں گے؟

آج کل وہ اپنی پوتی کے قبضے میں ہیں جس نے 94 سالہ سردار جی ( مئی 2009 ) پر مارشل لا لگا رکھا ہے۔ اس عمر میں بچارے سردار جی کو چوبیس گھنٹے کی لیفٹ رائٹ کروا رکھی ہے۔

’بابا یہ کھاؤ گے وہ نہیں۔ وہسکی دو پیگ سے زیادہ نہیں۔ ملاقاتی صرف ایک دفعہ۔ وہ بھی شام سات سے آٹھ بجے تک بس۔ چیخ کے بات نہیں کرنی۔ غصے میں نہیں آنا۔ کھل کے قہقہہ نہیں لگانا ورنہ اچھو (کھانسی کا دورہ) آ جائے گا۔ مٹھائی صرف چکھنی ہے کھانی نہیں۔ لکھنے کے اوقات یہ ہیں اور پڑھنے کے یہ اور چہل قدمی کا یہ وقت ہے‘ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

غرض بی بی سی دہلی بیورو کے ہندی اور اردو سروس کے دوستوں اور دوستنیوں نے میری حوصلہ شکنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صرف ایک امید دلائی گئی کہ اگر پوتی کے بجائے سردار جی نے فون اٹھا لیا جو کہ تقریباً ناممکنات میں سے ہے تب شاید ملاقات ہوسکے۔۔۔ مجھے ذرا دیر کے لیے لگا کہ میرے یہ سب دوست ہی دراصل خشونت سنگھ کی پوتی ہیں۔

بہرحال میں نے سردار جی سے ملاقات پر اناللہ پڑھ لی اور دلائی لامہ سے ملنے دھرم شالہ چلا گیا۔ دھرم شالے کی پہاڑیوں سے ترائی میں آتے سمے ڈرائیور نے ایک قصباتی بازار میں گاڑی روکی اور جانے مجھے کیا سوجھی کہ سامنے نظر آنے والے پی سی او میں گھس کے خشونت سنگھ کا نمبر ملا دیا۔

ہلو۔۔۔۔ ایک بھاری سا جوابی ہیلو سنتے ہی میں ریسیور سے تقریباً لٹک گیا۔ خشونت سنگھ جی بات کر رہے ہیں؟

جی۔
میں پاکستان سے آیا ہوں؟
تو؟
آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔
کیوں؟ نام تو بتاؤ کون ہو۔

پرسوں میری لاہور کی فلائٹ ہے۔ ویزا صرف چار دن کا رہ گیا ہے۔ آپ سے نہیں ملا تو واپس نہیں جاؤں گا۔ بھلے گرفتار ہی ہوجاؤں۔

فلمی ڈائیلاگ مت بولو نام بتاؤ۔
جی میں وسعت اللہ خان ہوں بی بی سی کے لیے کام کرتا ہوں۔
کہاں ٹھہرے ہوئے ہو۔
آپ کی حویلی سے صرف پانچ سو گز دور گالف لنک میں۔

یار پاکستانی تم کل شام سات بجے آ تو جاؤ لیکن صرف گپ شپ کے لیے آ سکتے ہو بس۔
جی جی میں بالکل سمجھ گیا۔
اور پھر فون لائن ڈیڈ ہوگئی۔

نئی دہلی کے صاف ستھرے جدید علاقے گالف لنک میں خان مارکیٹ کے بالکل سامنے انگریز دور کی بنی ایک وسیع رہائشی عمارت کے گیٹ پر حویلی سجان سنگھ (خشونت سنگھ کے والد) کی سنگی تختی پیوست ہے۔گیٹ کے اندر دو باوردی چوکیدار اونگھ رہے ہیں۔

کہاں؟
خشونت سنگھ کے پاس۔
وہ کون ہے؟
دوسرے چوکیدار نے فوراً اسے ٹوکا ابے یہ اپنے سجان سنگھ کے ابا کو پوچھ رہیا ہے۔ ہے نا جی؟
جی جی سجان سنگھ کے ابا ۔۔۔۔کہاں رہتے ہیں۔
وہ سامنے نو لمبر میں چلے جاؤ جی۔ بس ایک ہی گھنٹی بجانا۔

جی بہت شکریہ۔۔اور پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے میں نے نو لمبر اپارٹمنٹ کی صرف ایک ہی گھنٹی بجائی۔ دورازہ بند نہیں تھا بس بھڑا ہوا تھا۔ کسی ملازم نے دروازہ کھولا یہ پوچھے بغیر کہ کس سے ملنا ہے۔ ایک بڑا سا ایڈورڈین انداز کا کمرہ، شطرنج کے سفید اور سیاہ خانوں کی بساط جیسا فرش‘ کھڑکیوں پر سفید پردے جن پر خطِ نستعلیق میں تکرار کے ساتھ اسلام و علیکم لکھا ہوا تھا۔

خشونت سنگھ جی گلے میں چاندی کا خلال لٹکائے بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے پڑی تپائی پر مٹھائی کے دو کھلے ڈبے رکھے تھے اور کچھ ادھیڑ عمر خواتین و حضرات اپنے ہی لائے گلاب جامن کھا رہے تھے۔ سردار جی کبھی کبھی سرہانے پڑے گلاس سے بس چسکی سی لے لیتے۔

آؤ بھئی آؤ ۔۔۔ کیا نام بتایا تھا سم اللہ خان ہے نا۔۔۔

جی وسعت اللہ خان۔

’یار یہ تمہارے سوات میں کیا ہو رہا ہے۔ (ان دنوں سوات میں آرمی آپریشن ہورہا تھا)۔ ان بےوقوفوں کو کچھ سمجھاؤ۔ مسئلے ایسے حل نہیں ہوتے، اور مسئلے پیدا ہوجاتے ہیں۔‘

بھٹو سے میں کہتا تھا کہ تم داؤد (افغان صدر) کی ایسی تیسی کرنے کے لیے افغانی مولویوں کی مہمانی مت کرو تمہارے گلے پڑ جائیں گے۔ اب دیکھو کیا ہورہا ہے۔

کیا میں آپ کی یہ بات ریکارڈ کر لوں؟ میں نے لجلجاتے ہوئے پوچھا۔

یار وہی تم اندر سے سستے صحافی ہی نکلے نا۔ میں نے تمہیں صرف گپ شپ کے لیے بلایا ہے۔ لو یہ گلاب جامن کھاؤ۔۔۔ اور یہ سب ہمارے دوست ہیں روزانہ شام کو مجھے بوڑھا سمجھ کے دل بہلانے اکھٹے ہو جاتے ہیں یہ فلاں۔۔ یہ فلاں۔۔۔ یہ مسز فلاں اور یہ مسٹر فلاں۔۔۔ اچھے ہیں نہ گلاب جامن ۔۔۔

جی بہت مزے کے ہیں۔

گلاب جامن اور سانولی لڑکیاں۔۔۔ ہا ہا ہا ہا۔۔۔ سردار جی کے سب ہی درباریوں نے قہقہے میں ان کا ساتھ دیا۔

ابھی ایک دو دن پہلے پتہ نہیں میں نے کس بے دھیانی میں فون اٹھا لیا۔ کوئی خاتون تھیں۔ عجیب سی ہی بات کی انہوں نے۔ کہنے لگیں خشونت جی آپ نے اتنی کتابیں لکھیں۔ سینکڑوں مضمون لکھ لیے۔ آپ اتنا کیسے لکھ لیتے ہیں؟؟

میں نے کہا اس لیے لکھ لیتا ہوں کیونکہ ابھی تک قلم کے لیے کنڈوم ایجاد نہیں ہوا۔۔۔ دیکھو یار اس دنیا میں کیسے کیسے چ۔۔۔ پڑے ہوئے ہیں۔۔۔ اور بتاؤ تمہارے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ دل تو بڑا کرتا ہے مگر اب جسم ساتھ نہیں دیتا۔

میں بس انہیں سنتا رہا سنتا رہا سنتا رہا۔۔۔

اور پھر آٹھ بج گئے اور پھر ان کی پوتی کمرے میں داخل ہوئی اور پھر اس نے ان کے دونوں بازؤں میں ہاتھ ڈال کر انہیں کھڑا کیا اور سردار جی ایک چھوٹے سے بچے کی طرح فرمانبرداری کے ساتھ قدم بھرنے لگے۔ پلٹ کر انہوں نے ہم سب کو شرارتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا یہ لڑکی بڑی جلاد ہے اور میں اس کے رحم و کرم پر ہوں۔ تم لوگ جب تک چاہے بیٹھو۔ ابھی چائے آ رہی ہے۔ اوئے پاکستانی چائے پیے بغیر مت جانا۔ خدا حافظ۔

اور پھر وہ دروازے کے پیچھے غائب ہوگئے۔ میری تیرتھ یاترا مکمل ہوچکی تھی۔۔۔
Oct 24, 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).