شاداں۔۔۔ منٹو افسانے سے مسواک نہیں کرتا تھا (2)


عمل: جمال خورشید

پہلا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

شاداں کو کام پر لگے، دو مہینے ہو گئے تھے۔ یہ گزرے تو خان بہادر کی بیوی نے ایک دن یوں محسوس کیا کہ شاداں میں کچھ تبدیلی آگئی ہے۔ اس نے سرسری غور کیا تو یہی بات ذہن میں آئی کہ محلے کے کسی نوجوان سے آنکھ لڑ گئی ہوگی۔

اب وہ زیادہ بن ٹھن کے رہتی تھی۔ اگر وہ پہلے کوری ململ تھی۔ تو اب ایسا لگتاتھا کہ اسے کلف لگا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر یہ کلف بھی کچھ ایسا تھا جو ململ کے ساتھ انگلیوں میں چنا نہیں گیا تھا۔

شادان دن بدن تبدیل ہو رہی تھی۔ پہلے وہ اترن پہنتی تھی، پر اب اس کے بدن پر نئے جوڑے نظر آتے تھے۔۔۔۔۔۔ بڑے اچھے فیشن کے بڑے عمدہ سلے ہوئے۔ ایک دن جب وہ سفید لٹھے کی شلوار اور پھولوں والی جارجٹ کی قمیض پہن کر آئی تو فریدہ کو باریک کپڑے کے نیچے سفید سفید گول چیزیں نظر آئیں۔

لکن میٹی ہورہی تھی۔ شاداں نے دیوار کے ساتھ منہ لگا کر زور سے اپنی آنکھیں میچی ہوئی تھیں۔ فریدہ نے اس کی قمیض کے نیچے سفید سفید گول چیزیں دیکھی تھیں۔ وہ بوکھلائی ہوئی تھی۔ جب شاداں نے پکارا’’چھپ گئے؟‘‘ تو فریدہ نے سعیدہ کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹ کر ایک کمرے میں لے گئی اور دھڑکتے ہوئے دل سے اس کے کان میں کہا۔’’سعیدہ۔۔۔تم نے دیکھا، اس نے کیا پہنا ہوا تھا؟‘‘

سعیدہ نے پوچھا۔’’کس نے؟‘‘

فریدہ نے اس کے کان ہی میں کہا۔’’شاداں نے؟‘‘

’’کیا پہنا ہوا تھا؟‘‘

فریدہ کی جوابی سرگوشی سعیدہ کے کان میں غڑاپ سے غوطہ لگا گئی۔ جب ابھری تو سعیدہ نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا اور ایک بھنچی بھنچی حیرت کی’’میں‘‘ اس کے لبوں سے خود کو گھسیٹتی ہوئی باہر نکلی۔

دونوں بہنیں کچھ دیر کھسر پھسر کرتی رہیں۔۔۔۔۔۔ اتنے میں دھماکا سا ہوا اور شاداں نے ان کو ڈھونڈ لیا۔۔۔۔۔۔ اس پر سعیدہ اور فریدہ کی طرف سے قاعدے کے مطابق چخم ڈھاڑ ہونا چاہیے تھی مگر وہ چپ رہیں۔ شاداں کی خوشی کی مزید چیخیں اس کے حلق میں رک گئیں۔

فریدہ اور سعیدہ کمرے کے اندھیرے کونے میں کچھ سہمی سہمی کھڑی تھیں شاداں بھی قدرے خوفزدہ ہوگئی۔ ماحول کے مطابق اس نے اپنی آواز دبا کر ان سے پوچھا۔’’کیا بات ہے؟‘‘

فریدہ نے سعیدہ کے کان میں کچھ کہا، سعیدہ نے فریدہ کے کان میں۔

دونوں نے ایک دوسری کو کہنیوں سے ٹھوکے دیے۔ آخر فریدہ نے کانپتے ہوئے لہجے میں شاداں سے کہا۔’’یہ تم نے۔۔۔۔۔۔ یہ تم نے قمیض کے نیچے کیا پہن رکھا ہے!‘‘

شاداں کے حلق سے ہنسی کے گول گول ٹکڑے نکلے۔

سعیدہ نے پوچھا۔’’کہاں سے لی تو نے یہ؟‘‘

شاداں نے جواب دیا۔’’بازار سے؟‘‘

فریدہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔’’کتنے میں؟‘‘

’’دس روپے میں!‘‘

دونوں بہنیں ایک دم چلاتے چلاتے رک گئیں۔’’اتنی مہنگی!‘‘

شاداں نے صرف اتنا کہا۔’’کیا ہم غریب دل کو اچھی لگنے والی چیزیں نہیں خرید سکتے؟‘‘

اس بات نے فوراً ہی ساری بات ختم کردی۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی اس کے بعد پھر کھیل شروع ہوگیا۔

کھیل جاری تھا۔ مگر کہاں جاری تھا۔ یہ خان بہادر کی بیوی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔۔۔۔۔۔ اب تو شاداں بڑھیا قسم کا تیل بالوں میں لگاتی تھی۔ پہلے ننگے پاؤں ہوتی تھی،پر اب اس کے پیروں میں اس نے سینڈل دیکھے۔

کھیل یقیناً جاری تھا۔۔۔۔۔۔ مگر خان بہادر کی بیوی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ اگر کھیل جاری ہے تو اس کی آواز شاداں کے جسم سے کیوں نہیں آتی۔ ایسے کھیل بے آواز اور بے نشان تو نہیں ہوا کرتے۔ یہ کیسا کھیل ہے جو صرف کپڑے کا گز بنا ہوا ہے۔

اس نے کچھ دیر اس معاملے کے بارے میں سوچا، لیکن پھر سوچا کہ وہ کیوں بیکار مغز پاشی کرے۔ ایسی لڑکیاں خراب ہوا ہی کرتی ہیں اور کتنی د استانیں ہیں جو ان کی خرابیوں سے وابستہ ہیں اور شہر کے گلی کوچوں میں ان ہی کی طرح رُلتی پھرتی ہیں۔

دن گزرتے رہے اور کھیل جاری رہا۔

فریدہ کی ایک سہیلی کی شادی تھی۔ اس کی ماں خان بہادر کی بیوی کی منہ بولی بہن تھی۔ اس لیے سب کی شرکت لازمی تھی۔ گھر میں صرف خان بہادر تھے سردی کا موسم تھا۔ رات کو خان بہادر کی بیوی کو معاً خیال آیا کہ اپنی گرم شال منگوالے۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ نوکر بھیج دے مگر وہ ایسے صندوق میں پڑی تھی۔ جس میں زیورات بھی تھے، اس لیے اس نے نجیب کو ساتھ لیا اور اپنے گھر آئی۔ رات کے دس بجے چکے تھے۔ اسکا خیال تھا کہ دروازہ بند ہوگا، چنانچہ اس نے دستک دی۔ جب کسی نے نہ کھولا تو نجیب نے دروازے کو ذرا سا دھکا دیا۔ وہ کھل گیا۔

اندر داخل ہوکر اس نے صندوق سے شال نکالی اور نجیب سے کہا۔’’جاؤ، دیکھو تمہارے ابا کیا کررہے ہیں۔ ان سے کہہ دینا کہ تم تو ابھی تھوڑی دیر کے بعد لوٹ آؤ گے، لیکن ہم سب کل صبح آئیں گے۔۔۔۔۔۔جاؤ بیٹا!‘‘

صندوق میں چیزیں قرینے سے رکھ کر وہ تالا لگا رہی تھی کہ نجیب واپس آیا اور کہنے لگا۔’’ابا جی تو اپنے کمرے میں نہیں ہیں۔‘‘

’’اپنے کمرے میں نہیں ہیں؟۔۔۔۔۔۔ اپنے کمرے میں نہیں ہیں تو کہاں ہیں؟’’

خان بہادرکی بیوی نے تالا بند کیا اور چابی اپنے بیگ میں ڈالی۔’’ تم یہاں کھڑے رہو، میں ابھی آتی ہوں!‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے شوہر کے کمرے میں گئی جو کہ خالی تھا مگر بتی چل رہی تھی۔ بستر پر سے چادر غائب تھی۔ فرش دھلا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ایک عجیب قسم کی بُو کمرے میں بسی ہوئی تھی۔ خان بہادر کی بیوی چکرا گئی کہ یہ کیا معاملہ ہے۔۔۔۔۔۔ پلنگ کے نیچے جھک کر دیکھا، مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔لیکن ایک چیز تھی۔ اس نے رینگ کر اسے پکڑا اور باہر نکل کر دیکھا۔۔۔۔۔۔خان بہادر کی موٹی مسواک تھی۔۔۔۔۔۔

اتنے میں آہٹ ہوئی۔ خان بہادر کی بیوی نے مسواک چھپالی۔۔۔۔۔۔خان بہادر اندر داخل ہوئے اور ان کے ساتھ ہی مٹی کے تیل کی بو۔ ان کا رنگ زرد تھا جیسے سارا لہو نچڑ چکا ہے۔

کانپتی ہوئی آواز میں خان بہادر نے اپنی بیوی سے پوچھا۔’’تم یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔شال لینے آئی تھی۔۔۔۔۔۔میں نے سوچا، آپ کو دیکھتی چلوں۔‘‘

’’جاؤ!‘‘

خان بہادر کی بیوی چلی گئی۔۔۔۔۔۔ چند قدم صحن میں چلی ہوگی کہ اسے دروازہ بند کرنے کی آواز آئی۔ وہ بہت دیر تک اپنے کمرے میں بیٹھی رہی پھر نجیب کو لے کر چلی گئی۔

دوسرے روز فریدہ کی سہیلی کے گھر خان بہادر کی بیوی کو یہ خبر ملی کہ خان بہادر گرفتار ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔ جب اس نے پتا لیا تو معلوم ہوا کہ جرم بہت سنگین ہے۔ شاداں جب گھر پہنچی تو لہولہان تھی۔ وہاں پہنچتے ہی وہ بے ہوش ہوگئی۔ اس کے ماں باپ اسے ہسپتال لے گئے۔ پولیس ساتھ تھی۔ شاداں کو وہاں ایک لحظے کے لیے ہوش آیا اور اس نے صرف’’خان بہادر‘‘ کہا۔ اس کے بعد وہ ایسی بے ہوش ہوئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گئی۔

جرم بہت سنگین تھا۔ تفتیش ہوئی۔ مقدمہ چلا۔۔۔۔۔۔ استغاثے کے پاس کوئی عینی شہادت موجود نہیں تھی۔ ایک صرف شاداں کے لہو میں لتھرے ہوئے کپڑے تھے اور وہ دو لفظ جو اس نے مرنے سے پہلے اپنے منہ سے ادا کیے تھے۔۔۔۔۔۔لیکن اس کے باوجود اسغاثے کو پختہ یقین تھا کہ مجرم خان بہادر ہے، کیونکہ ایک گواہ ایسا تھا جس نے شاداں کو شام کے وقت خان بہادر کے گھر کی طرف جاتے دیکھا تھا۔

صفائی کے گواہ صرف دو تھے۔ خان بہادر کی بیوی اور ایک ڈاکٹر۔

ڈاکٹر نے کہا کہ خان بہادر اس قابل ہی نہیں کہ وہ کسی عورت سے ایسا رشتہ قائم کرسکے۔ شاداں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ نابالغ تھی۔ اس کی بیوی نے اس کی تصدیق کی۔

خان بہادر محمد اسلم خان بری ہوگئے۔۔۔۔۔۔مقدمے میں انھیں بہت کوفت اٹھانی پڑی۔ بری ہو کر جب گھر آئے تو ان کی زندگی کے معمول میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک صرف انھوں نے مسواک کا استعمال چھوڑ دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).