خدا کرے سعودی عورت کو کوئی چھرا نہ گھونپ دے!


مگر بیرون ملک کی اسکالرشپ اکثر حکومت دیتی ہے۔ یہاں حکومت ایک رخنہ ڈالتی ہے کہ لڑکی کے ساتھ بھائی یا شوہر بھی جائے۔ لڑکی کی خاطر اس بھائی یا شوہر کے بھی اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں۔ عموماً وہ بھی اپنے لیے مزید تعلیم کا انتظام کر لیتے ہیں۔

وہاں بھی لو میرج ہوتی ہے۔ عشق اور رومانس ہر دور اور ہر سماج میں اپنا راستہ خود بناتا ہے اور اب تو رابطے بہت ہی آسان ہیں۔ یہ بتانا بھی معیوب نہیں کہ ہماری لو میرج ہے۔

سعودی ٹیلی ویژن گو کہ خود ڈرامہ وغیرہ کے فن میں زیادہ آگے نہیں جا سکا مگر ترکی، مصری اور لبنانی ڈرامے باقاعدہ دکھائے جاتے ہیں جو خاصے رومینٹک ہوتے ہیں۔  ہم نے جن ترکی ڈراموں کو پہلی بار خوشگوار حیرت سے دیکھا تھا، سعودی عرب ہم سے پہلے دیکھ چکا تھا۔ وہاں بھی یہ ڈرامے بس اتنا ہی سینسر ہوتے ہیں، جتنے ہمارے ہاں۔

گو کہ ہمارے یہاں کے سوشل میڈیا پر سعودیوں کی اپنی غیر ملکی ملازماؤں پر ظلم و ستم کی کہانیاں اکثر پڑھنے کو ملتی ہیں مگر مجھے اس سماج کا ایک منظر بہت ہی پسند ہے کہ امیر و کبیر سعودی خواتین کے ساتھ ان کی حبشی اور غیر ملکی ملازماؤں کو ایک ہی دستر خوان پر بیٹھا دیکھتی ہوں۔ ایک ہی گلاس میں پانی پیتا دیکھتی ہوں۔

اس سماج کا ایک اور رواج بہت خوبصورت ہے کہ جب امیر خواتین سونے کی خریداری کرتی ہیں تو اپنی ملازمہ کو سونے کا کچھ نہ کچھ دلاتی ہیں کہ حکم ہے کہ جو پہنو ویسا ہی نوکر کو پہناؤ۔ جو کھاؤ وہی اسے کھلاؤ۔

عبا میں ڈھکا ہوا سعودی سماج کبھی کبھی مجھے اپنے سماج سے بہتر دکھتا ہے۔ زنا کی سزا سنگسار تو ہے مگر اس طرح کے واقعات دکھتے نہیں۔ لڑکیاں زندہ جلائی نہیں جا رہیں ابھی۔ اور مائیں ابھی بے گھر ہو کر سڑکوں کی خاک چھانتی ہوئی نہیں دکھتیں۔ جان چھڑانے کے لیے طلاق کا دروازہ کھلا ہے مگر نوبیاہتا بیوی کا گلا گھونٹنا نہیں پڑتا۔ طلاق کے کیس میں عورت برسوں عدالت کے دروازے نہیں کھٹکھٹاتی۔ کئی جرائم ہوتے بھی ہیں مگر لڑکی اغوا نہیں ہوتی۔ گینگ ریپ نہیں ہوتی۔ ہاں عرب مرد دل لگی ضرور کرتا ہے۔ ایسا دل لگی کا ایک واقعہ بہت برس پہلے میں نے جدہ ائرپورٹ پر دیکھا تھا۔ ہم بس میں لاؤنج سے جہاز کی طرف جا رہے تھے۔ ایک بوڑھا عرب ایک عرب لڑکی کو للچائی نظروں سے دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ لڑکی کا چہرہ شیفون کے نقاب سے دکھ رہا تھا۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں بڈھے کو ایک تھپڑ دے ماروں۔

بلآخر وہ لوگوں کے بیچ میں لڑکی سے مخاطب ہوا کہ مجھ سے شادی کرو گی؟
لڑکی نے بڑے سکون سے انکار میں سر ہلا کر کہا کہ نہیں۔
بوڑھے نے کہا میرے پاس بہت دولت ہے۔
لڑکی نے کہا میرا رشتہ ہو چکا ہے۔
بوڑھے نے مایوسی کے ساتھ اچھا کہا اور نظر پھیر لی۔

میرا دل تھا کہ بوڑھے کو کہوں کہ تیری بیٹی نہیں ہے؟
مگر لڑکی نے نہیں کہا تو میں کیا کہتی۔

میں نے اپنی ایک عرب دوست سے جب اس بات کا ذکر کیا تو اس نے بڑے آرام سے کہہ دیا کہ اس نے رشتے کی بات کی تھی نا۔ یہ تو کوئی گناہ نہ ہوا۔

ایک اور واقعہ مجھے اکثر یاد آتا رہا ہے۔ مسجد نبوی کے دروازے کا ایک بدّو دربان تھا جس کے ساتھ میں پورا بچپن کھیلتی رہی تھی۔ پھر وہ کہیں چلا گیا۔ دوبارہ جب ملا تو میں جوان ہو چکی تھی۔ مسجد نبوی کے سامنے سڑک پر ایک دن اس نے مجھے دیکھ لیا۔ مجھے آوازیں دیتا، دوڑتا ہوا آیا اور خوشی سے کھلتے ہوئے میری اور اماں اور بابا کی خیر و عافیت پوچھنے لگا۔ اچانک ایک پولیس والا کہیں سے آ گیا۔ عبدل کو اس نے بازو سے دبوچ کر پوچھا کہ اس لڑکی سے کیوں بات کر رہے ہو؟

عبدل گھبرا گیا۔
میں نے کہا کہ میں اسے بچپن سے جانتی ہوں۔ آج بہت سالوں بعد اس نے مجھے دیکھا ہے اس لیے ہم بات کر رہے ہیں۔

پولیس والے نے کہا کہ قسم کھاؤ کہ تم اسے جانتی ہو۔ کیونکہ یہ بدّو ہے اور تم پاکستانی۔
میں نے کہا واللہ میں اسے جانتی ہوں۔
پولیس والے نے عبدل کا بازو چھوڑ دیا اور چلا گیا۔

آج سوچ رہی ہوں کہ خدا کرے اب جب سعودی لڑکیاں اپنی اپنی گاڑیاں لے کر سڑکوں پر آئیں گی تو کوئی راستے میں انہیں روک کر چھرا نہ گھونپ دے!
Oct 27, 2017

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah