آئی جی سندھ پولیس کو ہٹانے کی کوشش، آخر معاملہ کیا ہے؟


آئی جی سندھ پولیس ای ڈی خواجہ کی پوسٹنگ سندھ حکومت کے لئے ایک ایسی ہڈی ثابت ہو رہی جو ان کے حلق میں پھنس گئی ہے جس کو وہ نہ نگل پا رہے ہیں نہ نکال پا رہے ہیں۔
سندھ حکومت ایک مرتبہ پھر انسپیکٹر جنرل سندھ پولیس ای ڈی خواجہ کو آئی جی کے عہدے سے ہٹانے کے لئے کوشاں ہے۔

قانون سندھ حکومت کو یہ اختیار تو دیتا ہے کہ وہ جسے چاہے سندھ پولیس کا آئی جی مقرر کرے مگر ساتھ ہی یہ قانون بھی موجود ہے کہ ایک آفیسر تین سال تک ایک پوسٹنگ پر تعینات رہے گا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی گذشتہ نو سالا حکومت میں پندرہ کے لگ بھگ آئی جی تبدیل ہوئے ہیں۔
دو دن قبل اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے لئے پوری سندھ کابینہ سر جوڑ کر بیٹھی تھی۔

اے ڈی خواجہ کو سندھ حکومت کی جانب سے غلام حیدر جمالی کی برطرفی کے بعد گذشتہ برس مارچ میں آئی جی سندھ کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔ (غلام حیدر جمالی پر سندھ پولیس میں کرپشن کے الزامات پر عدالت میں کل ہی چارج فریم کی گئی ہے)
تاہم مخصوص مطالبات کو ماننے سے انکار کے باعث اے ڈی خواجہ سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کی حمایت کھوتے گئے۔
محکمہ پولیس میں نئی بھرتیوں کا اعلان کیا گیا تو اے ڈی خواجہ نے میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں فوج کی کور فائیو اور سٹیزنز پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے نمائندے بھی شامل تھے۔

اے ڈی خواجہ کے اس اقدام نے سندھ کی حکمران جماعت کے اُن ارکان کو ناراض کردیا جو ان بھرتیوں میں اپنا حصہ چاہتے تھے تاکہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ووٹرز کو خوش کرسکیں۔
جس کے بعد گذشتہ سال دسمبر میں صوبائی حکومت نے آئی جی سندھ پولیس اللہ ڈنو (اے ڈی) خواجہ کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھا۔
اس پر ایک این جی او کی داخل کردہ درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو اے ڈی خواجہ کو رخصت پر بھیجنے سے روک دیا تھا، جس کے بعد رواں سال جنوری میں اے ڈی خواجہ نے اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی تھیں۔

معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ صرف پولیس میں بھرتیوں پر سندھ حکومت ناراض ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سندھ حکومت کے سارے ایسے معاملے رکے ہوئے ہیں جو وہ پولیس کے ذریعے کرتے ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اب عوام کے ووٹوں پر نہیں، پولیس کی لاٹھی سے چلتی ہے۔ وزیر، مشیر تو چھوڑیں، ان کے ان بیٹوں، جن کو ابھی مونچھوں کی سانول بھی نہیں آئی ان کے آگے پیچھے بھی دو دو پولیس موبائیل ہوتی ہیں۔

شہروں میں تو پھر بھی میڈیا ہے، مگر اندرون سندھ بہت بُری حالت ہے۔
عمران خان کی یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ سندھ میں الیکشن پولیس کی مدد سے چوری کیے جاتے ہیں۔
مارکیٹ میں یہ بات بھی گشت کر رہی ہے کہ سندھ میں گنے کی فصل تیار ہے اور ان سے اپنی مرضی کے ریٹ پر گنا لینا صرف پولیس کی لاٹھی سے ہی ممکن ہے جیسا ہر مرتبہ ہوتا ہے۔ واضع رہے کہ سندھ کی تقریبا سب شوگر ملیں زرداری صاحب اور ان کے رفیقوں کی ہیں۔

سندھ میں نیب کی بڑہتی ہوئی کارروائیوں سے خوفزدہ اور پریشان حکمران پارٹی کم از کم سندھ پولیس کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔
اگر اے ڈی خواجہ تین سال تک سندھ کے آئی جی رہتے ہیں تو اگلے سال ہونے والی الیکشن کے وقت وہ ہی سندھ پولیس سالار ہوں گے، یہ بات بھی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے لئے ابھی سے باعث تشویش ہے۔

اے ڈی خواجہ کو آئی جی کے عہدے سے ہٹانے کے لئے عوام کی طرف سے کسی نے مطالبہ نہیں کیا، نہ ان کی کوئی شکایت ہے، اس کے بر عکس ان کو آئی جی برقرار رکھنے کے حق میں روزانہ ہزاروں مطالبے آ رہے ہیں۔
اے ڈی خواجہ، سندھ پولیس میں کوئی کارنامہ تو انجام نہیں دے سکے، مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ سندھ حکومت کے ان کاموں کا حصہ نہیں بنے جن کی وجہ سے آج سابق غلام حیدر جمالی کرپشن کے الزام میں عدالت میں چارج فریم بُھگت رہے ہیں

اس مرتبہ سندھ حکومت نے اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے لئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ان کا گریڈ 21 ہے اور ان کے پاس 22 گریڈ کے آفیسر سردار عبدالمجید دشتی موجود ہیں۔
حیرت اس بات پر ہے کہ سندھ حکومت سندھ پولیس کے آئی جی کی پوسٹ پر کسی کو مقرر کرنے کا معاملہ تو سندھ کی صوبائی خودمختاری سے جوڑ رہی ہے مگر سندھ پولیس کے ایک بھترین آفیسر اے ڈی خواجہ کو ہٹا کرایک ایسے آفیسر سردار عبدالمجید دشتی کو آئی جی مقرر کرنا چاہتی ہے جس کے پاس بلوچستان کا ڈومیسائل ہے۔

ایسا کرنے کے لئے، سندھ حکومت کی گریڈ 22 کے آفیسر کی موجودگی کی دلیل اس لئے کوئی معنٰی نہیں رکھتی کہ، اس سے پہلے اس عہدے پر رہنے والے غلام حیدر جمالی، شاھد ندیم بلوچ، غلام شبیر شیخ، رانا اقبال محمود اور واجد درانی سب گریڈ 21 کے ہی تھے۔

بحرحال، ہو سکتا ہے سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ پولیس کے عہدے سے ان کی تین سال کی مدت ملازمت پوری ہونے سے پہلے ہٹانے میں کامیاب ہو ہی جائے مگر سندھ کے عوام آج بھی خواہشمند ہیں کہ ان کو اپنی معیاد پوری کرنے دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).