”کلمے“ کا دائرہ پہلے ہی وسیع ہے


 عاصم بخشی صاحب فرماتے ہیں، ”یہ مکالمہ صرف انہی غیر مشروط بنیادوں پر ممکن ہے کہ الہامی متون اور مقدس مذہبی روایات و آثار سے حاصل شدہ ’’علم‘‘ کو بھی ایک مشترکہ منہج میں ’’اعتقادی مفروضوں‘‘کے طور پر تسلیم کیا جائے اور پھر تجرباتی سطح ثابت کرنے کی داغ بیل ڈالی جائے۔ لیکن یہ اعتراف اس سے کہیں زیادہ دلیری کا متقاضی ہے جو ’’تجدید‘‘، ’’ترمیم‘‘ یا ’’تحقیق‘‘ جیسی اصطلاحات میں پائی جاتی ہے“

سارا مضمون ہی کمال تھا لیکن راقم اس پیرے میں لفظ ”دلیری“ پر کافی دیر سر دھنتا رہا۔ اگر معاملات و مسائل زیست، نظریہ موسلو کے اہرام کی نظر سے دیکھے جائیں تو یہ مسائل خود یابی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیکھنا ہو گا کیا عاصم بخشی صاحب کے مخاطبین خود یابی کے مقام پر کھڑے بھی ہیں یا نہیں؟ ”دلیری“ لفظ کے استعمال کے ساتھ مقدمے میں عجب تضاد پیدا ہو گیا ہے۔ اس لفظ کا استعمال دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ خوف موجود ہے۔ یوں دلیری ایک ایسی جست ہے جو وجود کی جبلی کھائی کو عبور کرتی ہے۔ معاملہ پیچیدگی اختیار کرتا ہے جب ہم خوف کا اعتراف بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف اس تلاش کو خودیابی کا مقام بھی کہتے ہیں۔ تحفظ اور بقا کے حوالے دوسری تمام شرائط کے بعد مقام خود یابی آتا ہے۔ ان دوسری شرائط میں خوف پر قابو پانا بنیادی ترین شرط ہے۔

جس دلیری کے وصف کے بخشی صاحب متمنی ہیں وہ بقا کے خطرے کی موجودگی میں بطور فوری ردعمل تو دکھائی دے سکتی ہے جیسے قتل و غارت وغیرہ لیکن خود یابی کے مقام پر تصور تخلیق وغیرہ کے حوالے سے خالص علمی جستجو اور سائنس دانوں کے نظریات اور ماہرین الہیات کے عقائد وغیرہ کے مابین مکالمہ ایک خواب ہو سکتا ہے۔ تعصب و خوف کی دیواریں بڑھی ہیں۔ خیالات و نظریات کے تنوع میں شدید اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے تعصب کے لفظ کو ہم اگر سائنس کے ساتھ نتھی کر بھی دیں تو ایک گونہ سکون و تشفی کا احساس ہوتا ہے کہ اس طبقے کو عقلی تعصبات سے نکالنا شاید بڑا چیلنج یا کم از کم ناممکن کی حدوں کو چھوتا چیلنج نہیں ہے۔ عقلی تعصبات کو عقلی دلائل کے سامنے ڈھیر ہوتے دیر نہیں لگتی۔

معاملے کی پیچیدگی خوف کے ساتھ ہے۔ خوف کا تعلق دماغ کے قدیمی حصوں سے زیادہ ہے۔ عقائد و رسوم کی سختی جب خوفوں کو زندگی کے بقا کے تسلسل سے جوڑ دیتی ہے تو سارا کھیل تہذیب کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔ سائنس اور فلسفہ سے متعلقہ افراد کے حوالے سے کہا جا سکتا کہ انفرادی سطح پر کئی افراد باقاعدہ خود یابی کی منزل پر کھڑے تمام خوفوں اور تعصبات سے بالاتر ہو کر ریاضیات اور منطق کی قلمرو سے حقیقی جستجو کی جانب جا سکتے ہیں۔ لیکن بصورت خوف، دماغ کے عقلی حصے کو کسی صورت وہ آزادی نصیب نہیں ہو سکتی جو ان معاملات کی کھوج کے لیے درکار دیانت پیدا کر سکے۔

کونیاتی افراط کا ”حجم“ اور پھیلاؤ ملاحظہ کریں اور ہمارے مسائل کا ”چھوٹا پن“ دیکھئے۔ ایسے مضحکہ خیز موازنے بڑی اور حیرت انگیز گھتیاں سلجھانے سے قاصر ہی رہیں گے۔ یہاں بخشی صاحب نے جو حل تجویز کیا ہے (بالفرض اگر دلیری دکھا دی جائے یا خوف پیدا کرنے والے ریلے سینٹرز کو بند کر دیا جائے ) تو ہمارے سامنے امکانات کی وسیع علمی و تحقیقی میدان پیدا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا میں کسی حقیقت یا حقیقتوں کے مجموعے کی وضاحت ایک یا ایک سے زیادہ نظریات سے کی جا سکتی ہے۔ اوکم ریزر کو استعمال کرتے ہوئے وقتی طور پر (جب تک حقیقت باہر نہیں آتی) ایسے نظریے کا انتخاب کیا جا سکتا ہے جس میں آزاد مفروضوں کی تعداد نسبتا کم ہو۔ اور یہ سفر جاری رہ کر ہمیں ایسے مقام تک ضرور لے کر جا سکتا ہے جہاں ہم حتمی کامیابی کےدعوے کے قریب ہو سکیں یا۔ کلی شکست مان کر کسی دیوار سے سر پھوڑ لیں۔

سائنس کو کلمہ پڑھوانے سے تو سائنس کی بقا پر سوال اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن ہم ایک نیا دائرہ ضرور تشکیل دے سکتے ہیں جہاں اخلاقیات اور انسان کے خود مختار ہونے کے حوالے سے مشترکہ کوششیں خارج از امکان نہیں۔ بخشی صاحب سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ بڑے بڑے سائنسی مسئلوں کی گتھی سلجھانے میں جمالیات ایک معتبر رہنما ثابت ہوئی۔ وجدان کی کارفرمائی بھی دیکھنے میں آئی۔ ڈائرک نے کہا تھا کہ ”تجربے پر پورا اترنے کے بجائے مساوات میں جمال کا وجود زیادہ ضروری ہے“

سائنس جتنی تیزی سے سوالات حل کرتی جا رہی ہے اس سے کہیں زیادہ رفتار سے ایسے سوالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں جن کو ”ناقابل فہم پہیلیوں“ کی ٹوکری میں ڈالا جا رہا ہے۔ طبعی سائنسز سے کہیں زیادہ یہ مسئلہ علم نفسیات کو درپیش ہے۔ نفسیات نے خود کو سائنسی دائرے کے اندر رکھنے کے لیے مضحکہ خیز حد تک بڑے بڑے سوالات کو نظر انداز کیا۔ ”ساکھ“ کی خاطر سوالات کو اس لیے پس پشت ڈالا گیا کہ وہ وقوعے اپنی فطرت میں دہرائے نہیں جا سکتے۔ ان جملوں سے ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ نفسیات نے اپنے آپ کو محدود دائرے میں رکھ کر ظلم کیا۔ لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ انسانی رویوں اور دیگر معاملات سے متعلقہ واقعات ”اپنے آپ کو بوقت فرمائش ” دہرا نہیں سکتے۔ خواب اس حوالے سے ایک بڑی مثال ہیں

سائنس کو کلمہ پڑھوانے سے سائنس کی بقا کو خطرہ درپیش ہو گا۔ یہ نقصان بہت بڑا ہو گا۔ سائنس اپنی ناگزیر حدود کے باوجود ہمارے لیے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔ دوسری طرف ”کلمے“ کو سائنس پڑھوانے سے بہتر امکانات کی دنیا وسیع تر ہو جائے گی اور ”کلمے“ کا دائرہ پہلے ہی اتنا وسیع ہے کہ اپنے اندر کائنات کو سموئے ہوئے ہے جس کے سبب بقا کا بھی کو ئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ سارے معاملے کی بنت کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ یہ بھاری پتھر برشوری صاحب کو ہی اٹھانا ہو گا۔ برشوری صاحب سے وسعت القلبی کی یہ تمنا ایسی بے جا بھی نہیں لیکن شاید قبل از وقت ضرور ہے۔


کیا سائنس کو کلمہ پڑھانا ممکن ہے؟

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik