سوشل میڈیا کے سپاہی، جن کو گھر کی خبر نہیں


میرے پڑوس میں اب کون آباد ہے؟ وہ پہلے کہاں رہائش پزیر تھے یہاں مکان کرائے پر لیا یا خریدا؟ میں نہیں جانتی اکثر اس بات پر بھی خفت کا سامنا اٹھانا پڑتا ہے جب کسی اجنبی شخص کو گلی سے گزرتے دیکھوں اور میرے گھر کا کوئی فرد اسے پرتپاک سلام کردے تو میرا اگلا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ کون تھے؟ جواب ملتا ہے انھیں پڑوس میں آئے لگ بھگ دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے آپ کو نہیں معلوم ہوگا مصروف جو رہتی ہیں۔ یہ حال غالبا میرا ہی نہیں ہر اس دوسرے شخص کا ہے جس کے ہاتھ میں موبائل ہے۔ لیکن یقین جانئے نئے پڑوسی نے ناواقف ہوتے ہوئے اور صحافی ہوتے ہوئے بھی خبروں کے سیلاب میں کئی خبریں میرے سامنے سے ایسے نکل جاتی ہیں جیسے کوئی بند ٹوٹا ہو اور تیز دھارے میں کوئی زندگی اونچی لہروں سے لڑتی جھگڑتی آگے نکل گئی ہو۔

مصروفیت اپنی جگہ لیکن اس بات سے انکار نہیں کہ جہاں دور حاضر میں دنیا سمٹ رہی ہے وہیں ہم میں لاعلمی بھی بڑھتی جارہی ہے یہ لاعلمی اگر وہ ہے جس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے تو غنیمت ہے لیکن یہاں تو اب کچھ اور ہی دیکھنے کو مل رہا ہوتا ہے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ پڑوسی ملک سے ہمارے تعلقات کس نہج پر ہیں اور وہ ہمارے دوسرے پڑوسی ملک کے ساتھ ملکر ہمارے ملک میں کیا کیا فساد برپا کرسکتا ہے لیکن اپنی گلی کی خبر ہمیں نہیں ہوتی کہ کون دنیا سے چلا گیا کون لٹ گیا۔ پڑوسی ملک کن کاموں میں مصروف ہے؟ کہا ں کہاں کس کے ساتھ ملکر ہمارے خلاف سازش تیار کر رہا ہے؟ اگلہ وار کیا ہوگا ہم سب جانتے ہیں نہیں جانتے تو برابر والے کا حال نہیں جانتے۔

اس لاعلمی کے سبب ہم کیا کیا کر جاتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں اس کا ذکر تو بعد میں ہوگا لیکن ایک بات تو طے ہے کہ وہ زمانہ اچھا تھا جب اچھی بری خبر ہو یا خاندانی اور ملکی معاملات پر فکر ایک چٹھی اپنوں کو اپنوں سے جوڑے رکھتی تھی۔ بھلا ہو اس انٹرنیٹ کا جس نے ڈاک کو خداحافظ کرواکے ای میل کا ایسا جال بنا جس میں اب ہر کوئی مکڑی کی طرح پھنسا نظر آتا ہے۔ یہ ای میل اتنی بھی آسان نہیں تھی ورنہ ہیلری کلنٹن کی مٹی پلید نہ ہوتی۔ ایک وقت تھا جب خوب واویلہ مچا کہ دنیا سمٹ کر گلوبل ویلیج بن گئی ہے نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں بیٹھ کر آج ہر کوئی لندن اور واشنگٹن کی خبر رکھتا ہے لیکن گھر کی نہیں لیکن ہم خود کو کل سمجھتے ہیں اور سیاسی اور دفاعی نقاد بھی کیونکہ ہمارے ہاتھ میں موبائل فون ہے اور اس میں تھری جی اور فور جی کی سہولت بھی کیا ہوا جو ہمارے پاس کسی جامعہ کی ڈگری نہیں کیا ہوا جو ہمیں خبر کی حساسیت کا خیال نہیں ہم تو بس ایک ٹوئیٹ کردیں یا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کردیں توتہلکہ مچ جاتا ہے کیو نکہ ہمارے فالووز ہی اتنے ہیں۔

ہم نے جنگوں کا سنا ان کے تاریخی فتح کے دن بھی منا لئے۔ دشمن کا کوئی جہاز اپنے کسی میوزیم میں سجایا تو شہداء کو خراج تحسین پہنچانے کے لئے ان کی تصاویر کی گیلری بھی بناڈالی، ہر سال بجٹ بڑھا کر جنگی سامان بھی خریدا اور اس کی فخریہ انداز میں خوب نمائش بھی کی لیکن جو جنگ اب ہم سوشل میڈیا پر لڑ رہے ہیں وہ تو کسی نیوکلیر وار سے بھی خطرناک لگتی ہے یہ وہ جنگ ہے جس میں ہتھیاروں کی نہیں نفسیاتی حربوں کی ضرورت ہے کہ سامنے والے کو کس طرح چت کرنا ہے اب چاہے اس کیکردار کشی کر کے کیا جائے یا اس کا پیچھا کر کے اس کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا کر اس جنگ کے لئے کسی بڑے بجٹ کی بھی ضرورت نہیں یہی وجہ ہے کہ اب بڑی بڑی شخصیات نے بھی اپنے سوشل میڈیا ونگز بنا رکھے ہیں جن کو روز ہی ہم دیکھتے رہتے ہیں۔

جی ہاں دور بدل چکا ہے اب سب کچھ اس کمپیوٹر کا مرہون منت ہے پر کہتے ہیں ناں کہ ہر عروج کا ایک زوال ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی دور میں نیوز چینلز اس تیزی سے آئے کہ لگتا تھا کہ سب کچھ خبر ہی ہے اور اب یہ وقت ہے جب لوگ خبروں سے زیادہ تفریحی پراگرامز دیکھنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ پہلے خود کو صحافی کہلوانا فخر سمجھا جاتا تھا آج اپنی شناخت چھپانے کو عافیت سمجھا جاتا ہے۔ پہلے صحافی سوال کرتا تھا تو سیاستدان یا عوام کو جوابدہ شخص کی زبان جواب دیتے ہوئے لڑکھڑا جاتی تھی آج سوال ہوتا ضرور ہے پر کرتے ہوئے صحافی کو مراعات یاد آنا شروع ہوجاتی ہیں سوال پہلے نرم پڑتا ہے اور پھر اس میں سے خوشامد کی خوشبو آنا شروع ہوجاتی ہے اور جو تھوڑے بہت نڈر صحافی ہیں انھیں بھی ” پے رول صحافی ” کا لقب دے کر دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ میرا اپنا ماننا ہے اور اس سے شاید لوگ اختلاف بھی کریں کہ جب سے صحافت بے لگام ہوکر بلیک میلنگ میں تبدیل ہوئی، کسی کی پیر کی زنجیر ہوئی تب سے سوشل میڈیا پر ان لوگوں کی زبان کھلی جو نہ تو سوال کرنا جانتے تھے نہ ہی اخلاقی تقاضوں سے واقفیت رکھتے تھے۔ آج سوشل میڈیا پر وہ تمام لوگ سچائی کے چیمپئنز بنے ہوئے ہیں جن کو سیاست، معیشت، مذہب، اخلاقیات کی الف ب کا بھی نہیں معلوم تھا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ سیاستدان ہوں یا کوئی بھی شعبہ اسے اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ خود کو معتبر اور سچا اس سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ثابت کرسکتا ہے تب ہی ٹوئیٹر ہو فیس بک یہاں آپ کو مشہور و معروف شخصیات کے آفیشل کاونٹ نہ صرف نظر آئیں گے بلکہ ان پر چوبیس گھنٹے اپ ڈیٹس بھی دکھائی دیں گی جنھیں اکثر وہ خود نہیں بلکہ ان کی ٹیم آپریٹ کرتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ صحافت کو بھی اس سارے معاملے میں اتنا آرام ملا جیسے نئی نویلی دلہن کو شروع شروع میں سسرال میں نصیب ہوتا ہے۔ اب تو بلیٹن میں قد آور شخصیات کا نام اور تصویر لگا کر ان کا ٹوئیٹ اور اسٹیٹس ہیڈ لائن میں پیش کردیا جاتا ہے اور پرائم ٹائم میں پروگرام بھی کردیا جاتا ہے۔

سوال یہ کہ ان سیاستدانوں اور عسکری اداروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ ٹوئیٹس کریں اور اپنا اظہار خیال یا موقف سوشل میڈیا پر دیں؟ تو جناب یہ کبھی کبھی ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے آپ کے پڑوسی کو تو آج آپ کے باورچی خانے سے ماش کی دال کی خوشبو اٹھتی محسوس ہوئی ہو پر اسٹیٹس یہ لگا ہو جو دنیا بھر میں دیکھا جارہا ہو کہ ”ڈنر ودھ فیملی ایٹ پرل کونٹینیٹل“ دیکھنے والے رشک بھی کریں گے، تعریف بھی اور ساتھ ہی خوشامدی کمنٹس کے ساتھ حوصلہ افزائی بھی کردیں گے۔ لیکن ایک ٹولہ ایسا بھی ہوگا جو آپ سے خوش نہیں ہوگا اور وہ آپ کے اس خودساختہ ڈنر کی دھجیاں اڑانے کے لئے اپنے اسکارڈ کو تیار کرے گا اور جناب محاذ تیار۔

اس محاز پر لڑی جانے والی جنگ میں حب الوطنی اور غدار سے لے کر بہتر مسلمان اور کافر تک، جمہوری ہونے سے لے کر فوج کے بوٹ پالشئے تک، عدلیہ کی خودمختاری سے بکاؤ صحافی اور ناکارہ ر شہری تک کے سرٹیفیکیٹس بلامعاوضہ تقسیم ہوتے دکھائی دیں گے۔ ستم ظریفی یہ کہ ملک کو درپیش اہم مسائل کو پس پشت ڈال کر میڈیائی گاڈ فادرز اب اپنے پروگرامز بھی ان ہی موضوعات پر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس طرح سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن پڑا ہے اسی طرح میڈیا بھی اب تقسیم دکھائی دیتا ہے۔ چاہے وہ موضوعاتی اعتبار سے ہو یا کسی کا فریق بننا ہو جو بھی چینل کھولئے آپ کو ایسا ہی محسوس ہوگا کہ ملک میں آج یا تومارشل لاء لگنے ہی والا ہے یا پھر پڑوسی ملک حملہ کرنے والا ہے۔

ایسے میں بیانات کی تردید تصدیق ٹوئیٹس کی صورت میں آتی ہیں۔ اس ٹوئیٹ اور اسٹیٹس کو کتنے لوگوں نے پسند کیا کتنے لوگوں نے شئیر کیا یہ گمان پیدا کر رہا ہوتا ہے کہ ملک کے کتنے فیصد لوگ فوج اور عدلیہ کے ساتھ ہیں اور کتنے جمہوریت کے ساتھ۔ اس ساری صورتحال پر مجھے لگتا ہے کہ اگلے انتخابات پر ووٹ بھی ٹوئیٹر اور فیس بک پر دیدیا جائے گا اور پولنگ اسٹیشن خالی نظر آئیں گے کیونکہ اب سیاستدان اور اہم ادارے سوشل میڈیا پر جو دکھائی دیتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم جو تاریخ رقمکیے جارہے ہیں وہ ہماری آنے والی نسلوں کو مزید گمراہ کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کر سکیں گی۔ ہم نے اپنے اپنے طور پر کسی کو بے ضمیر، بکاو، غدار، کافر، غیر جمہوری، فوج کا پٹھو اور نہ جانے کیا کیا قرار دے کر جو مہر ثبت کردی ہے وہ آگے کئی برسوں تک ہمارا پیچھا کرے گی۔

آج کے عروج کو کل زوال ضرور آئے گا لیکن جو جنگ ہم زبانی کلامی سوشل میڈیا پر لڑ رہے ہیں اس کا کوئی میڈل کوئی سال، کوئی دن کبھی بھی مقرر نہ ہو پائے گا ہاں البتہ یہ تذکرہ ضرور ہوگا کہ ہم لڑنے مرنے میں سب سے آگے تھے، لیکن میدان میں نہیں کیونکہ ہم تو کبھی ڈیجیٹل وار کے سپاہی تھے جنھیں سوشل میڈیا کے خداوں نے لڑوایا اور پھر ان سپاہیوں کی لاشوں کو تسلیم کرنے سے انکار بھی کردیا۔ نہ جانے اس وقت یہ بے کفن سپاہی کہاں دفن ہوں گے، دفن بھی ہوں گے یا پھر لاوارثوں کی فہرستوں میں ڈال دیے جائیں گے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar