ایک ناگزیر عمل کے لیے تیاری، مذہب سے بلاوجہ کا خوف


حضرت عاصم بخشی صاحب ہم پر مہربان ہوئے یہ ہماری سعادت ہے۔ بقول سعدی شیرازی گوشہ کلاہ ِدہقان بہ آفتاب رسید۔ ہم جیسے ادنی مذہبی وفکری طالب علموں پر ان جیسے اساتذہ کی مہربانی ہے کہ رہنمائی کو آئے۔ اپنے محترم دوست وقار احمد ملک صاحب نے بھی بخشی صاحب کی فکر پر گرہ لگا کر بحث میں وسعت پیدا کردی۔ ہم نے جو لکھا تھا مقصد وسیع تر فکری کینوس کی تخلیق کاری نہیں تھی۔ دو چار موٹی موٹی باتیں خلاصہ کے طورپر پیش کرنی تھیں، کیوں کہ ان موضوعات کے باریک گوشوں کی وضاحت اور احاطہ مقالات میں کیا جاتا ہے۔ جناب قبلہ عاصم بخشی صاحب، صاحب علم شخصیت ہیں ان کے بعد ہم طلبہ کیا لکھیں کہ ان سے سیکھنا ہی اپنے لیے فخر وسعادت ہے۔ چند وضاحتیں البتہ پیش کرنے کی جسارت کریں گے اس امید پر کہ استاد عاصم بخشی صاحب ہماری کوتاہیوں سے درگزر کریں گے۔ ایک وضاحت در بابت باعث تاخیر کہ جب اپنی پچھلی تحریر ہم سب پر آئی تو میں گاؤں کے سفر کے لیے پابہ رکاب ہوگیا۔ گاؤں میں قریبی رشتہ دار کی ایک حادثے میں المناک موت ہوئی۔ وہاں سے پہنچا تو موسمی بخار اور نزلہ زکام نے گھر بھر کو گھیر لیا تھا اس میں مصروف ہوگیا بس یہی وجہ بنی تاخیر کی۔ آمدم برسرمطلب۔

علوم اور جزوی نظریات کا لین دین تاریخی عمل کا حصہ رہا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ مسلمانوں نے یونانیوں سے بہت کچھ لیا۔ یورپ نے مسلمانوں سے بہت کچھ حاصل کیا اور آج مسلمان بحیثیت ترقی پذیر قوم ایک بارپھر مغرب سے علمی استفادہ کررہی ہے۔ برصغیر میں نئی پنپتی علمی روایت کو جو اس وقت حال ہی میں وارد ہوئی تھی اسے ہم تاریخ کا ایک بے سبب اور بلاعنوان جبر کہیں یہ شاید مناسب نہ ہو۔ کیوں کہ نظریات یا تہذیب کی منتقلی تاریخ میں ہمیشہ دو طریقوں سے ہوئی ہے ایک تو یہ کہ غالب یا فاتح تہذیب نے اپنی مفتوح اور مغلوب قوم تک اپنے افکار پہنچائے۔ مسلمانوں کی فتوحات سے حسب اختلاف تاریخ و حالات فارس، روم، ترکستان ، ہندوستان اور وسطی ایشیائی فتوحات پھیلیں تو اسلامی علوم اور قائم کردہ تہذیب بھی ان علاقوں تک پہنچی۔

دوسرا طریقہ یہ تھا کہ انسانی معاشرے میں علمی ذوق اپنے عروج تک پہنچا، علمی پیاس نے اپنے ہاں کے علوم ہر طرح سے کھنگال ڈالے اور مزید پیاس نے انہیں بیرون سے علم درآمد پر مجبور کیا۔ مسلمانوں نے یونانی فلسفہ اور یونانی علوم ترجمہ کروائے تو یہ عباسی خلافت کا دور عروج تھا جہاں ہر طرف علمی ماحول قائم تھا۔ انگریز کے تسلط کو ہم تاریخ کا محض ایک واقعہ کہہ کر یہاں برپا ہونے والی تبدیلیوں کو بلاعنوان قرار دیں اور پوری تاریخ کو جبر کی ایک داستان سمجھنے لگیں جیسے جبریہ کے مجبور محض کا عقیدہ، تو شاید یہ تعلیمی پس منظرکی تجزیہ کاری کے ساتھ ظلم ہو۔ ہندوستان میں ہونے والی اس بڑی تبدیلی انسانی ذہن کی علمی ارتقاء سے زیادہ سیاسی حالات کا نتیجہ تھی۔

یہ عاجز اصرار تو نہیں کرتا مگر اپنی رائے میں بیرونی تسلط کو برصغیر کی تعلیمی تقسیم کا عنوان ضرور قرار دیتا ہے۔ بیرونی علوم کی ہندوستان آمد اپنے ساتھ اور بھی بہت کچھ لائی مگر عصری علوم میں یہ ہندوستان کے علمی ذخیرے میں ایک بیش بہا اضافہ ضرور تھا۔ مغربی فکر سے ہندوستان کی واقفیت کا یہ آغاز تھا۔ آج جس مغربی فلسفے کا ہم سامنا کررہے ہیں اس کی بنیاد سیکولر ازم اور آزاد معیشت ہے۔ یورپ کے صنعتی انقلاب نے اسے یہ دوچیزیں سکھائیں۔ ان دونوں کے اثرات تمام تر مغربی نظام سیاست، معیشت اور تعلیم غرض ہر شعبہ میں موجود ہیں۔ مغربی فلسفہ کو بلا کسی نظر ثانی اور تنقید ) اسی نقد وپرکھ کے معنی میں لیا جائے (کے لینے سے یہی دو بنیادی افکار ہمارے افکار کاحصہ بن گئے۔ پچھلے مضمون میں اسلامائزیشن کے لیے ہم نے سائنس کا ذکر صرف مثال کے لیے کیا تھا۔ عصری تعلیم کا جو حصہ خالص عقلیات اور فکریات پر مشتمل ہے جیسے سوشل سائنسز یعنی اجتماعی علوم، سیاست، اجتماعیت، قانون ، انسانی علوم فلسفہ ونفسیات وغیرہ سب کی گھٹی میں لادینیت موجود ہ ہے۔ اسلامائزیشن کے عمل سے ان علوم کا گذارناسائنس سے بھی زیادہ ضروری ہے ۔ سائنس تو تجرباتی علوم کا نام ہے، اپناخیال ہے کہ تدوین کے بعد بھی شاید اس میں ہونے والی تبدیلی جزوی نظر آئے یا یوں کہیں کہ تدوین کے لیے بھی جزوی تبدیلی کا عمل کافی ہوگا۔

بخشی صاحب کا کہنا ہے کہ مدارس کے نصاب میں جس تجدید کی ضرورت کی جانب ہم نے اشارہ کیا ہے یہ کسی حدتک مفید تو ہوسکتا ہے مگر سائنسی تناظر کے دائرے میں اسلامائزیشن کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کسی مشترکہ منہج استدلال پر اتفاق نہیں ہوجاتا۔ وہ منہج کیا ہے یہ انہوں نے اتنا ہی واضح کیا ہے کہ الہامی متون اور مقدس روایات سے حاصل شدہ علم کو بھی اعتقادی مفروضہ قرار دے کر تجربہ کی سطح پر ثابت کرنے کی داغ بیل ڈالی جائے۔ جہاں تک بندہ اس بات کو سمجھتا ہے تو اتنا عرض ہے کہ مذہب اپنے آپ میں طے شدہ تعلیمات اور عقائد کا نام ہے۔ اسلام اپنے دیے ہوئے عقائد کو طے شدہ اور احکامات کو قابل عمل سمجھتا ہے۔ موروثی ہو یا بعد از تحقیق شعوری، دین کو ہر حال میں ایسا ہی مقام ملا ہے۔ البتہ اسلام اپنے تقدس کو دلیل کا سہارا دیتا ہے، اسلام کے الہامی متون اور مقدس مذہبی روایات سے حاصل شدہ علم پر اعتقادی مفروضے کے طورپر شاید بارہا نظر ڈالی گئی ہے۔ اسلام کا مزاج علمیانہ رہا ہے اول روز سے۔

قرآن کریم واحادیث سے اصولوں کا استخراج واستقراء، انہیں اصولوں کی بنیاد پر فقہہ کی تشکیل، اجتہادات اور اجتہادی اصولوں کے لیے ثبوتوں کی فراہمی کا عمل یہ سب اسلام کے علمی مزاج کا عکاس ہے۔ تدوین احادیث اور احادیث کے اسناد پر تحقیق کا سارا عمل ایک طویل علمی پروسس ہے جو مذاہب میں صرف اسلام کی پہچان رہا ہے۔ اللہ تعالی کی ذات اور وجود تک پر سوالات اٹھاکر مسلم کلامیین نے بحثیں کیں۔ اور ایسا بھی نہیں کہ الہامی متون اور مقدس مذہبی روایات یا ان سے کشیدہ علوم کو مسلمانوں نے اب تک لوگوں کی نظروں سے بچائے رکھا ہے اور پہلی بار تقاضا کیا جارہا ہے کہ اسے مشترکہ منہج میں اتارا جائے جہاں ثبوت کے عمل کا آغاز کیا جاسکے۔ اب تک بہت کچھ اس پر لکھا جاچکا ہے اور اگر مزید بھی اس پر کوئی کام ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ تحقیق، ترمیم اور تجدید کے بعد وہ کون سا اقدام ہے جو مزید دلیری کا تقاضا کررہا ہے اس کا خاکہ میں مستحضر نہیں کرسکا۔ اگر دلیری کا تقاضہ کرنے والا یہ اقدام کلی تنسیخ کے بعد سائنسی منہج استدلال پر مذہب کو پھر سے مدون کرنے کی بات اگر ہے تو ہمارے علماء کی ذمہ داری ہے کہ تدوین کے اس عمل کے لیے تیار رہیں۔ بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ اس کا آغاز خود اپنے ہاتھوں سے کردیں۔ اور یہ علماء کے لیے سائنس پڑھنے کے بعد ہی ممکن ہے۔

مغربی فلسفہ جس انداز سے اسلام کے مقابل سوالات کھڑے کرتا جارہا ہے۔ عرب، افریقہ، یورپ، وسطی ایشیا، امریکہ ہو یا برصغیر ہرجگہ مغربی فلسفے کا استیلاء ایک ہی طرح کے سوالات کھڑا کررہا ہے۔ بخشی صاحب نے جو مطالبہ کیا ہے مذہب ایسے عمل سے گزر کر ہی رہے گا، ہم خود نہیں گزاریں تو بھی یہ گزر کر رہے گا۔ البتہ اگر علماء اور دینی طبقے کا عصری علوم کے حوالے سے مجموعی رویہ یہی پاپائیت والا رہا اور مذہب کو ایک زندہ حقیقت کے طورپر ثابت کرنے کے لیے انہوں نے عصری معیارِ استدلال کو اپنا کر مذہب کو ثابت نہیں کیا تو شاید مذہب بھی اسلامی ویٹی کن مکہ اور مدینہ تک محدود ہوجائے۔ یونانی فلسفہ جب اسلامی حدود میں داخل ہواتھا تب بھی اس کے اثرات ایسے ہی تھے۔ عام مسلم نوجوان تو کجا مسلم مفکرین تک اس سے مرعوب رہے تھے۔ اور پھر مسلم علماء نے اس پر جو کام کیا وہ آج بھی سب کے سامنے ہے۔

یونانی فلسفہ کے ذریعے ہی فلسفہ کی غلطیوں کا رد کیا گیا اور اسی کے ذریعے اسلامی علوم کی دوبارہ تدوین کی۔ کسی صاحب علم نے یہاں تک کہا تھا کہ امام غزالی کی اصول فقہ کی تصنیف المستصفی ایسے فلسفیانہ اسلوب میں لکھی گئی ہے کہ استاد اول ارسطا طالیس بھی اگر آکر اسے پڑھ لیں تو انہیں بھی اصول فقہ دلیل اور استدلال کے معیار پر پورا نظر آئے۔ یونانی فلسفہ کی اسلامائزیشن کے بعد علماء نے عقائد، عبادات اور معاملات تک تفاسیر، تشریح احادیث، فقہ، اصول، نحو، اسرار وحکم ، علم بیان وبلاغت غرض ہر طرح کے موضوعات پر منطقی اسلوب میں کام کیا۔ ایسے اسلوب میں جو ہر فلسفہ پڑھے ہوئے آدمی کے لیے قابل قبول تھا۔

جس امکان کا اظہار محترم وقاراحمد ملک صاحب نے ظاہر کیا ہے کہ سائنس کے اسلامائزیشن سے سائنس کی بقا پر سوال کھڑے ہوسکتے ہیں۔ عرض ہے کہ سائنس کی کونپلیں اسلامی حکومتوں کے دور میں پھوٹی تھیں اور اسی دور میں اس کے تنوں میں جان آئی تھی۔ جو بادشاہت کا دور کہلاتاتھا، جہاں لبرل تعبیرات کے مطابق آج کے مقابلے میں گھٹن زیادہ تھی۔ آج جب دنیا بھر میں جمہوریت کا غلغلہ ہے اور سائنس ایک کونپل سے تناور چنار بن کر کھڑا ہے۔ ایسے ماحول میں سائنس کیوں مذہبی تعبیرات میں دب کر فنا ہوسکتی ہے۔ یوں بھی محترم بخشی صاحب ہی کے بقول سائنسی متون سے حاصل شدہ علوم تجرباتی علوم ہیں جو ہمہ وقت تحقیق اور تجربہ کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ اگر تجربات یا مشاہدات کا ایک عمل مسلم مفکرین بھی دہرادیں تو کیا ہرج ہوسکتا ہے، نتیجہ تو عمل کے بعد دیکھا جائے گا کہ کیا نکلتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ دونوں علوم کے معنی سے مٹی لے کر ایک ایسے امکان کی تلاش کی جائے جو اپنی آخری صورت میں ایک اکائی بننے کا کام دے سکے۔ اس امکان کی تلاش کے لیے بھی ایک مکالماتی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جہاں دونوں جانب سے افکار ونظریات کا تبادلہ ہو۔ اس تبادلہ کی صلاحیت کے لیے بھی نصابوں میں ایک بڑی ترمیم ناگزیر ہے۔ ایک علمی مکالماتی فضا ہی دونوں کو قریب کرسکتی ہے جہاں سے درجہ بدرجہ آخری امکان کی جانب سفر کا خاکہ میسر آسکے گا۔


اسی بارے میں

برصغیر کے دو متوازی نظام تعلیم اور ہماری علمی زبوں حالی
کیا سائنس کو کلمہ پڑھانا ممکن ہے؟
”کلمے“ کا دائرہ پہلے ہی وسیع ہے
مدارس سے میں کیا چاہتا ہوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).