مولانا ابوالکلام آزاد اور پریس کی آزادی


مولاناآزاد پریس اور صحافیوں کو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ وہ پریس کی آزادی کے ساتھ صحافیوں کے حقوق اور انصاف کی لڑائی بھی لڑتے تھے ۔پریس کی آزادی کے لیے وہ ابتدا سے ہی متحرک رہے اور اظہا ر خیال کی آزادی کی کھل کر حمایت کی،جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب مولانا حسرت موہانی کے اخبار ’’اردو ئےمعلیٰ ‘‘کی ایودھیا کے تعلق سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ پر حکو مت نے تین ہزارروپے کی خطیر رقم بطور ضمانت طلب کی توحکومت کے اس قدم کو مولانا آزاد نے صحافت اور صحافیوں پر حملہ تصور کرتے ہوئے الہلا ل میں انگریز حکومت کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا، اوراردو ئے  معلیٰ کی صحافتی حق گوئی اور بیباکی داد دیتے ہوئے لکھا کہ ’’ہم کو اس واقعہ پر ذرا بھی تعجب نہیں اور نہ افسوس ہے ہم نے خبر سنتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ایڈیٹر اردوئے معلیٰ کو تبریک وتہنیت کا ایک تار بھیجا کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ صد اقت و حریت کے لیے پوری ایک صدی کی زبانی و قلمی جدجہد کا م نہیں کرسکتی جو ایک لمحہ کے جابرانہ احکام ایسے موقعوں پر کرجاتے ہیں ‘‘۔

ایسے ہی اگر کسی اخبار کا ایڈیٹر کسی صحافی پر کسی قسم کا دباؤ بنا تا یا انہیں بلاوجہ نوکری سے رخصت کر دیتا تو مولانا آزا د اس کا سخت نوٹس لیتے تھے۔ چنانچہ جب مسلم گزٹ لکھنؤ کے مالک میرجان نے ڈپٹی کمشنرلکھنؤ کے کہنے پر اپنے اخبار کے ایڈیٹر و حیدالدین سلیم کو ایڈیٹری سے برخاست کردیا تو مولانا آزاد نے اس کاسخت نوٹس لیا اور ’’مسلم گزٹ‘‘ کے مالک میر جان سے اصلی حالات شائع کرنے کی دھمکی آمیز گزارش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’میں بذریعہ اخبار کے حالات دریافت کرنے پر مجبور ہوں میر جان صاحب براہ کر م فوراً اصلی حالات شائع کردیں اور اگر آئندہ ہفتے تک انہوں نے حالات شائع نہیں کئے تو پھر مجھے جو کچھ لکھنا ہے لکھوں گا ‘‘(الہلال ، 27؍اگست 1913 )۔

مولانا آزادی کی اس آزادانہ سوچ اور بیباکانہ رویہ نے حکومت کو چونکا دیا وہ سمجھ چکی تھی کہ الہلال کا ایڈیٹر دینی صحافت کی آڑ میں ہندوستانی سیاست پر گہر ی نظر رکھتا ہے اور لوگوں میں سیاسی شعور بیدا رکرنے میں لگا ہے ۔ لہٰذا اس نے ’’الہلال‘‘ کے ایڈیٹر کے حوصلے پست کرنے کے ارادہ سے اس کے پرعزم ارادوں پر کاری ضرب لگاتے ہوئے 18؍ستمبر 1913کو ایڈیٹر الہلال سے اچانک 2ہزار روپے بطور ضمانت اس امید سے طلب کی کہ وہ حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے، لیکن مولاناآزاد حکومت کے اس چال سے غافل نہیں تھے ۔ انہیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ حکومت ایسا کر سکتی ہے،یہی وجہ تھی کہ وہ اس کے لیے تیار تھے اور پہلے سے ہی رقم جمع کرنا شروع کر دیا تھا ۔ لہذا جب یہ نوبت آئی تو الہلا ل بجائے گھٹنے ٹیکنے کے ضمانت ادا کر کے اپنے وجو دکو زندہ اور زبان کو آزاد رکھنے میں کامیاب رہا۔ حکومت کے اس قدم کی الہلا ل کے ایڈیٹر نے اپنے اخبار میں اس طرح رپورٹنگ کی اور مضامین لکھے کہ پریس کی آزادی کو عوامی ڈسکورس بنادیا۔ جس کی وجہ سے الہلال کے بہت سے قارئین نے مولانا کو خط لکھے اور انہیں ضمانت کی رقم کی ادائیگی کی پیشکش کی لیکن مولانا نے شکریہ کے ساتھ معذرت کرلی۔‘‘( حیات ابوالکلام آزاد، صفحہ 332)

الہلال کی ضمانت کی رقم ادا کرنے کی آخری تاریخ 27ستمبر تھی مولانا آزاد نے 23 ستمبر 1913ء کے الہلال کے شمارے میں پریس کی ضمانت کے تعلق سے ایک مقالہ لکھا جس میں آزادی پریس اور اظہار رائے کی آزادی کی حمایت میں آواز بلند کرتے ہوئے انڈین ایسوسی ایشن کے بنیاد ڈالنے کی بات بھی کی ۔ اپنے اس خواب کی تعبیر کے لیے انہوں نے ایک خفیہ تحریک چلائی اوران صحافیوں سے جن سے ان کے مراسم تھے تبادلہ خیال کیا۔ چنانچہ مولانا نے اپنی اس تجویز کو جب بنگلہ زبان کے مشہور اور معتبر اخبار ’امرت بازار پتر یکا ‘کے موتی لال گھوش اور بابو سرسندر ناتھ بنر جی کے سامنے رکھی تو انہوں نے اسے بے حد پسند کیا ۔جس کے نتیجے  میں یکم اکتوبر 1913کے الہلال میں’’ اختتامیہ مقالہ مجلس دفاع وجرائد ہند ‘‘کی اشاعت کے بعد 8اکتوبر 1913کے ’’الہلال‘‘ میں ایک بار پھر اس موضوع سے متعلق تفصیلی مضمون لکھا گیا اور پریس کی آزادی کے ساتھ ساتھ انڈین پریس ایسوسی ایشن کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔

الہلال کے اس مضمون میں مولانا آزاد نے پریس ڈیفنس مجلس کی وضاحت اور اس کے کام کے انداز کوپیش کرتے ہوئے لکھا ’’جو (پریس مجلس) عام اور وسیع ہوجس میں وہ بدبختانہ ونامبارک تفریق نہ ہو جو ہندومسلمان کے سوال میں ہر جگہ پیدا کی جاتی ہے ۔ جس میں ملک کے ہر حصے سے اسباب مطابع و جرائد شریک ہوں اور کوئی حصہ باقی نہ رہے جہاں کے پریس کے قائم مقام اس میں نہ ہوں پھر اس کا ایک مرکزی مقام ہو۔ اور اس کی شاخیں تمام صوبوں میں قائم ہوجائیں وہ بصورت آل انڈیا ایسوسی ایشن کے بھی ہو اور بحیثیت پروونشیل جماعت کے بھی ۔ (الہلال ، 8اکتوبر 1913ء)۔

اس سلسلے میں انڈین ایسوسی ایشن ہال میں 2اکتوبر 1913کو 2بجے دن میں ایک جلسہ کےانعقاد کا اعلان  کیاگیا۔ یہ اعلان اگرچہ الہلال کی طرف سے تھا لیکن مولانا آزاد کے علاوہ چار بڑے اخبار کے ایڈیٹروں کے بھی دستخط تھے ۔آنریبل سریندر ناتھ بنرجی کو اس کاصدر منتخب کیا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ جلسہ درگاپوجا کے بعد نومبر 1913میں کلکتہ میں ہوگا جس میں تمام اہم مسائل پر غورکیا جائے گا۔ اس جلسہ کے اہتمام و انتظام کے لیے چھ ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں آنریبل بابو سریندر ناتھ بنرجی( ایڈیٹر ’بنگالی )،بابو کرسٹوکمار مشر(ایڈیٹر سنجونی ) ،بابوموتی لال گھوش (ایڈیٹر امرت بازار پتریکا)،مولوی مجیب الرحمن (ایڈیٹر مسلمان)،مولوی محمد اکرام (ایڈیٹر محمدی) ،ابوالکلام آزاد (ایڈیٹر الہلال)تھے ۔اس کی رپورٹ نہیں ملتی ہے کہ انڈین پریس ایسوسی ایشن کا قیام ہو ا بھی یا نہیں ،بھلے ہی انڈین پریس ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں نہیں آسکا لیکن مولانا کی لڑائی اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ خود ہفت روزہ الہلال اور  البلاغ برٹش سرکار کے اعتاب کا شکار ہو کر بند نہیں ہو گئے۔

پریس کی آزادی کے لیے  مولانا کی جدو جہد یہ احساس دلاتی ہے کہ صحافت صحافت ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کسی بھی مشن سے کم نہیں  ۔انہوں نے  کبھی اس کو کمرشیل نہیں بنایا ۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں’’ہمارے عقیدہ میں جو اخبار اپنی قیمت کے سوا کسی انسان یا جماعت سے کوئی رقم لینا جائز رکھتا ہو وہ اخبارنہیں بلکہ اس فن پر ایک دھبہ اورسر تا سر ایک عار ہے ۔ ہم اخبار کی سطح کو بہت بلندی پردیکھنا چاہتے ہیں اور امر بالمروف ونہی عن المنکر کا فرض الٰہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں ۔‘‘

بشکریہ؛ دی وائر اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).