ایڈز کنٹرول کرنا ممکن ہے، اہم پیشرفت


دنیامیں ایچ آئی وی/ ایڈز کے بارے میں بہت کچھ جانا جا چکا ہے اور اس موذی مرض کے خلاف بہت سی کامیابیاں حاصل کی جاچکی ہیں۔ اس وائرس کے داخلی نظام اور اس کا مقابلہ کرنے والے انسانی مدافعتی نظام کے بارے میں جان کاری بہت بڑھ چکی ہے۔ ’’اینٹی ریٹرووائرل‘‘ ادویات بن چکی ہیں جن کی مدد سے جسم پروائرس کے اثرات کو خاصا کم کیا جا سکتا ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کی وجوہ کے بارے میں بھی پہلے سے کہیں زیادہ علم انسان کے پاس آ چکا ہے۔ اس کے باوجود ایچ آئی وی/ ایڈز دنیا میں صحت کے ایک بڑے مسئلے کے طور پر اب بھی موجود ہے۔

بعض خطوں میں یہ زیادہ بڑا مسئلہ ہے جیسا کہ عظیم صحرائے افریقہ کا جنوبی خطہ (sub-Sahara) جہاں دو کروڑ کے قریب افراد کے جسموں میں یہ وائرس پایا جاتا ہے۔ گزشتہ برس لگائے جانے والے ایک اندازے کے مطابق اس خطے میں 15 ہزار انفیکشزفی ہفتہ ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کے مطابق دنیا سے 2030ء تک ایڈز کی وبا کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اس وائرس یا بیماری کے پھیلاؤ کے بارے میں اب تک حاصل کردہ علم اور ادویات کو اگر مؤثر انداز میں استعمال کیا جائے تو دنیااس وبا سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔

اس حوالے سے ایک تحقیق کے نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی انفیکشن کو اینٹی ریٹرووائرل ادویات کے بغیر بھی کنٹرول کرنے کا امکان موجود ہے۔ امریکا سے جاری ہونے والے ’’جنرل آف وائرالوجی‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اس میکانزم کو سمجھنے کی کوشش کی گئی جو جسم ایچ آئی وی انفیکش ہونے کے بعد ابتدائی طور پر استعمال کر تا ہے تاکہ اس نئے مرض سے خود کو بچا سکے۔ تحقیق سے معلوم ہو اکہ کم و بیش تمام انسانوں کا مدافعتی نظام انفیکشن کے ابتدائی چند ہفتوں میں خاصا متحر ک ہوتا ہے جس کی وجہ ’’سائٹوٹاکسک ٹی لمفوسائٹس‘‘ یا قاتل ’’سی ڈی 8ٹی‘‘ خلیے ہوتے ہیں۔ یہ خلیے ایچ آئی وی کو جزوی طور پر دبانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن بیشتر افراد میں ہو تا یہ ہے ان کا مدافعتی نظام ایچ آئی وی سے لڑنے سے اپنا رخ موڑ لیتا ہے ۔ اس سے وائرس کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنی شکل بدل کر مدافعتی نظام سے بچ نکلے۔

بالآخر قاتل سی ڈی8 ٹی خلیے بھی تھک جاتے ہیں اور آسانی سے مرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے وائرس اپنا کام جاری رکھتاہے۔ اس تحقیق سے ایک دلچسپ بات کا پتا چلا ہے۔ کچھ افراد کا جینیاتی ڈھانچہ ایسا ہوتا ہے کہ ان میںقاتل سی ڈی8 ٹی خلیوں کا ردعمل بہت خوب ہوتا ہے۔ ایسے افراد اینٹی ریٹرووائرل ادویات کے بغیر بیماری کو کنٹرول کر لیتے ہیں۔ یعنی ان کی بیماری بڑھتی نہیں۔ پھر کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنے قاتل سی ڈی8 ٹی خلیوں کو استعمال کیے بغیر بھی اس وائرس کو کنٹرول کر لیتے ہیں۔ یہ امر بہت اہم ہے کیونکہ یہ جاننے کے بعد کہ انسان کا مدافعتی نظام کس طرح وائرس کو کنٹرول کرتا ہے، چاہے یہ قاتل سی ڈی8 ٹی خلیوں کے ذریعے ہو یا اس کے بغیر، ایچ آئی وی کی ویکسین یا علاج دریافت کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

ایچ آئی وی کا وائرس بہت شاطر ہوتا ہے۔ جسم میں داخلے کے بعد جسم کی قوت مدافعت کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ اپنی ساخت بدلتا (میوٹیشن) ہے جس کے باعث مدافعتی نظام اسے پہچان نہیں پاتا اوریہ اس کے حملے سے بچ جاتا ہے۔ اسی دوران یہ تقسیم در تقسیم ہو کر بڑھتا بھی رہتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ عام طور پر وائرس جسم کے مدافعتی نظام سے بچ نکلتا ہے لیکن بعض موقعوں پر یہ ناکام بھی ہوتا ہے اور اس کی قابل ذکر نمو نہیں ہو پاتی۔ تحقیق سے وائرس کے ان حصوں کا پتا چلا ہے جو اس کی کمزوری ہیں اور ان پر حملہ آور ہونے والی ویکسین بنا کر اس وائرس کو جسم میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے، یا کسی دوسرے طریقے سے اس حقیقت سے فائدہ اٹھا کر بیماری کو روکا جا سکتا ہے۔

تاہم یہ ایک ایسا وائرس ہے جو میوٹیشن کے ذریعے بہت سے روپ اختیار کرکے مدافعتی نظام سے بچنے کا ہنر خوب جانتا ہے۔ تاحال اگر اینٹی ریٹرووائرل تھراپی نہ کی جائے تو بیشتر افراد جنہیں ایچ آئی وی انفیکشن ہوتی ہے وہ 10 سال کے اندر ہی ایڈز میں بدل جاتی ہے۔ یعنی وہ سنگین بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ بعض افراد میں یہ عمل دو سال میں بھی مکمل ہو جاتا ہے۔ لیکن بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جن کی انفیکشن 20 سال سے زیادہ عرصہ یا ساری زندگی ایڈز میں نہیں بدلتی۔ بس ان کے جسم میں ایچ آئی وی کا وائرس موجود رہتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس کی وجہ جینیاتی ہے جس کی بنا پر مختلف افراد کا مدافعتی نظام مختلف طرح سے کام کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کے جینزبہتر ہوتے ہیں ا س لیے اس وائرس کے خلاف لڑنے کی ان کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ زیادہ تر وائرس اپنی شکل بدل کر مدافعتی نظام سے بچنے کی راہ نکال ہی لیتاہے البتہ بعض اوقات یہ تبدیلیاں خود وائرس کو بھی لے ڈوبتی ہیں اور جسم میں اس کا پھیلاؤ نہیں ہو پاتا۔

اس معاملے کی مزیدسوجھ بوجھ سے علاج کی راہیں کھل سکتی ہیں نیز اس علم کو ایچ آئی وی کی ویکسین کی تیاری میں استعمال کیے جانے کا امکان ہے۔ 1990ء کی دہائی تک اس وائرس کو موت کا پروانہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔ جسم میں داخل ہونے کے بعد اگر وائرس کو ختم نہیں کیا جاسکتا تو اسے کنٹرول ضرور کیا جا سکتا ہے۔ شروع میں اس مقصد کے لیے جو ادویات بنائی گئیں ان کے ذیلی اثرات (سائیڈ ایفیکٹ) بھی زیادہ تھے اور انہیں لینا بھی بار بار پڑتا تھا۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائی کے برعکس اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ ایچ آئی وی کے مریض عام انسان کی طرح زندگی گزار سکیں۔ اب ایسی ادویات بھی موجود ہیں جنہیں استعمال کرنے سے رطوبت کے ذریعے ایک فرد سے دوسرے کو ایچ آئی وی انفیکشن کا امکان 90 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔امید ہے انسانیت اس موذی مرض سے مکمل نجات کی راہ نکال لے گی۔

(تلخیص و ترجمہ: رضوان عطا)

بشکریہ روزنامہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).