اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے


ایک سوانگ وہ تھا جب ماقبل تاریخ کے عہد شکار میں دن بھر کی مارا ماری کے بعد اپنے کندھوں پر شکار کے لاشے لادے شکاروں کی ٹولیاں اپنے غاروں میں پہنچتیں اور جب سرد راتوں میں الاؤ کے گرد جمع خاندان اس شکارکے گوشت سے بار بی کیو بناتے تو شکاری لوگ تجسس اور شعلوں کی چمک سے چمکتی آنکھوں کو فن اداکاری کی مدد سے دن بھر کی روداد سنایا کرتے تھے۔ الفاظ تو تھے نہیں، ایک غوں غاں تھی جو کہانی کی تفہیم کے لئے ناکافی تھی سو کوئی جانور بن کر دکھاتا اور کوئی اچھل اچھل کر سنگ باری یا تیری اندازی کے پینتروں کی تصویر گری کرتا۔

ایک سوانگ اور بھی تھا، فارس کے نام سے جو قدیم یونان کے تھیٹروں میں رچایا جاتا۔ اس میں اداکار اساطیری کرداروں کا بہروپ بھرتے اور طبقہ اشراف سے تعلق رکھنے والے تماشائی خود کو دیومالائی دنیا میں اپنے دیوتاؤں کے مقابل پاتے۔

اورایک وہ سوانگ جو ہماری سماجی زندگی کا معروف کردار، بہروپیا بھرتا تھا۔ چہرے پر لال پیلے رنگ تھوپے، سر پر زخم والی پٹی باندھے یا کچھ عجیب وضح کی ٹوپی پہنے اور ہاتھ میں خون میں رنگی چھری تھامے وہ اچانک کسی چوراہے میں نمودار ہوتا تو اس کے پیچھے لڑکے بالوں کی ٹولیاں لگ جاتی تھیں۔ بہروپیا اچانک لال چھری لہراتا کسی کے سامنے نمودار ہوتا تو ایک بار تو وہ دھک سے رہ جاتا لیکن پھر اگلے لمحے قہقہہ بلند ہوتا اور ایک معصوم سے ڈراوے کی قلیل سی اجرت وصول کرکے بہروپیا آگے بڑھ جاتا۔

ہر دور اور ہر سماج میں ہمیں سماجی زندگی کے چلن کے ساتھ چلتے بہت سے ایسے کردار مل جائیں گے جو اپنی روزی روٹی کے لئے سوانگ رچا کر خوشیاں بانٹتے اورفن کی لوک ریت کو آگے بڑھاتے۔ کبھی انہیں بہروپیا کہا گیا تو کبھی ڈھونگی کا نام دیا گیا۔ سوانگ یا ڈھونگ کی لوک ریت کے مقابل ایک اور ریت بھی چلتی رہی، جھوٹ کو سچ باور کرانے کے لئے دہشت ناک سوانگ رچانے کی ریت۔

قدیم دور میں کسی زرخیز دماغ کو سوجھی کہ سادہ دل دہقانوں اور لالچی بیوپاریوں کے دل میں دیوتاؤں کی ہیبت بٹھادی جائے تاکہ وہ دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے قربان گاہوں کی چوکھٹ پر اپنی قدر زائد کا نذرانہ چڑھائیں۔ تب زرخیز دماغ والوں نے سوانگ رچایا اورلمبی عبائیں پہن کر کاہن بن گئے۔ اس سوانگ کو ڈرامائی ٹچ دینے کے لئے نہ سمجھ میں آنے والے اشلوک لکھے گئے، طرح طرح کی رسومات اختراع کی گئیں اور لوگوں کو ڈراوے اور لالچ دے کر خزانے بھرے جانے لگے۔

سماجی ارتقا کے ایک موڑ پر ریاست وجود میں آئی تو کوئی ڈھونگی طاقت کے زور پر بادشاہ بن بیٹھا۔ اگلے کسی مرحلے میں جب بادشاہ کو دائمی اقتدار کی سوجھی تو وہی کاہن اس کے پاس آیا اور اسے سجھایا کہ صرف مذہبی جواز ہی اس کی بادشاہت کو قائم و دائم رکھ سکتا ہے۔ تاریخ کا یہی موڑ تھا جب مذہب اور سیاست کا ملاپ ہوا۔ تب بادشاہ آسمانوں کا نمائندہ ٹھہرا اور کاہن آسمانی احکامات کا اجارہ دار۔ ایک تاج بادشاہ کے سر پر سجا تو دوسرا کاہن نے اپنے سر کی زینت بنالیا۔ یوں مصری و بابلی تہذیبوں کے مقدس صحائف وجود میں آئے، عصبیت کے بت تراشے گئے، جبر کے ضابطے تشکیل دیے گئے اور رعایا کو تابہ ابد سنہری زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ یہ اطلسی لبادوں میں چھپا ایک مقدس ڈھونگ تھا۔ ایک انسان دشمن سوانگ جسے طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے دائمی بنایا جانا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس سوانگ نے کئی مراحل طے کرنا تھے۔ بارہویں صدی عیسوی تک یورپ میں کاہن کو احساس ہوا کہ اس کی طاقت ریاست سے فزوں تر ہوچکی ہے سو اس نے مذہب اور سیاست کے دائمی معاہدے کو توڑتے ہوئے اپنا اقتدار قائم کرلیا۔ یوں ایک نیا سوانگ رچایا جانے لگا، کلیسائی اقتدار کا سوانگ۔

ہم چلتے چلتے ازمنہ تاریک میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس ازمنہ کی تاریکیاں عبارت ہیں مذہی اقتدار کی اندھی طاقت کے حصول سے۔ وہی کاہن جو دیومالائی دور میں لوگوں کی جیبیں کاٹ کر خوش ہوجاتا تھا۔ اب کل خدائی پر مطلق اختیار سے کم پر اکتفا کرنے والا نہیں تھا۔ یوں پہلے اس نے ریاست کو تابع مہمل بنایا پھر اپنے دائرے کو معلوم حدود تک پھیلادیا۔

اس بے رحم ڈھونگی کو اپنے ڈھونگ کو تکمیل بخشنے کے لئے مکمل اطاعت اور بے حساب انسانی خون درکار تھا۔ سو مذہبی طہارت کے نام پر زیرنگیں لوگوں میں مذہبی جوش بھرا گیا اور کلیسائی اقتدار کی جغرافیائی حدود میں توسیع کے لئے انہیں جنگوں میں جھونک دیا گیا۔ تب برس ہا برس تک ہولناک مذہبی جنگیں لڑی گئیں اور جہاں سوزی کی ایسی مثالیں قائم کی گئیں کہ آئندہ شاید ہی کوئی اس انتہا کو پہنچ سکے۔ یہ مذہی جنگیں یہودیوں، مسلمانوں اور غیر کیتھولک عیسائی فرقوں کے وجود کو مٹانے کے لئے لڑی گئیں۔ اور تو اور کلیسا کے دامن سے وابستہ عام عیسائی بھی اس بے رحم عفریت کی مار سے باہر نہیں تھے۔ براعظم یورپ سے یوروشلم تک اور گوا ہندوستان سے مشرق بعید کے ساحلوں تک مذہبی عدالتیں قائم کی گئیں جن میں لوگوں کے دین و ایمان کی پرکھ پرچول کی جاتی تھی۔ کبھی بھی، کوئی بھی گمراہ قرار پاتا تو جیتے جی دھکتے الاؤ میں جھونک دیا جاتا۔ کوئی پچاس ہزار کے قریب مرد و زن تو صرف جادوگر قرار دے کر بہیمانہ انداز میں ہلاک کیے گئے۔

بہت سفاک تھا یہ سوانگ جو صدیوں چلتا رہا اور اب بھی دنیا کے دیگر حصوں میں قدرے مختلف عقائد اور مختلف صورتوں کے ساتھ آج بھی جاری و ساری ہے۔ مانا کہ تاریخ خود کو نہیں دہراتی، وقت ایک سپائرل کی صورت میں آگے بڑھتا رہتا ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ واقعاتی مماثلیں چوغے بدل بدل ہمیں ڈرانے کو سامنے آتی رہتی ہیں۔ کلیسا نے اپنے سوانگ میں کام آنے والا چوغہ اتارا تو اس کی دھجیوں کا کون کون وارث نہیں بنا؟ ایک نظر اپنے برصغیر کی تاریخ پر ڈال لیں، ہمیں کب ازمنہ تاریک کی تاریکیوں سے باہر نکلنے دیا گیا؟ یہاں مذہب اور دھرم کے نام پر کیسے کیسے سوانگ نہیں رچائے گئے؟ کیا مسلمان، کیا ہندو اور کیا کوئی اور، ہر ایک نے جہالت کی تاریکیوں کو دائم رکھنے کے لئے آخری زور تک لگا دیا۔

گاؤ ماتا والے سوانگ کی بات پھر کبھی، ابھی اپنی بات کرتے ہیں۔ ہمارے مقدس عباؤں میں ملبوس ہستیوں نے رنگ رنگ کے مکھوٹے پہن کر کیا کیا سوانگ نہیں رچائے؟ منطق، دلیل اور خرد کو اجتماعی شعور سے نوچ پھینکنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا اور کیا کچھ نہیں کیا جارہا ہے؟ القاعدہ، طالبان، پاکستانی طالبان، داعش، لشکر فلاں اور لشکر ڈھمکاں، کس کس نے ہماری دم بدم بڑھتی شدت پسندی سے نمو نہیں پائی؟ بارہویں صدی کے کروسیڈرز اور ایک عام پاکستانی کے انداز فکر میں کتنا فرق باقی رہ گیا ہے؟ ہمارے تعلیمی ادارے، ہمارے مدارس اور پھر ہماری درگاہیں؟ ایک پریشاں خیالی کے سوا ہمارے پاس اور کیا بچا ہے؟

لکھ رکھو کہ 25 نومبر 2017 کے بعد ایک اور پاکستان نے جنم لیا ہے۔ ایسا پاکستان جس میں کوئی بھی ڈھونگی کسی بھی طرح کا سوانگ رچا کر دو ہزار بندے اکٹھے کرلے اور پوری ریاست کو فیض آباد بنادے۔ اور یہ بھی لکھ رکھو کہ وقت آنے پر نئے پاکستان میں ازمنہ تاریک کے کلیسا کی طرز پر ہر مسلمان کے دین و ایمان کی جانچ پرکھ کی جائے گی۔ اور اس کام کے لئے کوئی ایک عدالت نہیں ہوگی بلکہ ہر فرقہ اپنی اپنی میز کرسی لگا کر بیٹھ جائے گا۔

یہ تو آشکار ہو ہی چکا ہے کہ فرقوں کی پرانی حد بندی ضیائی مارشل لا کے بعد سے دھندلائی جاچکی۔ اب ہر مدرسہ اور ہر درگاہ الگ فرقہ ہے جو اپنے تئیں حقانیت کا واحد وارث ہے۔ سو جتنے مولانا اور جتنے شیوخ اتنے فرقے اور اتنی ہی مذہبی عدالتیں۔ اگر عام مسلمان کسی ایک ناکے سے بچ بھی گیا تو دوسرے ناکے پر پکڑا جائے گا۔ حالات کو اس نہج تک پہنچانی کی ذمہ داری؟ کون ہے جو اس ذمہ داری سے بری ہے؟ آگے کیا کہیے سوائے اس کے کہ:

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).