اخلاقیات کا کوئی مذہب نہیں


کل ایک اور شخص سے ملاقات ہوئی جو حال ہی میں امریکہ سے تشریف لائے تھے اور امریکہ اور امریکیوں کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے وہ بھولا یاد دلا دیا جس کی دُکان پر ایک بزرگ کی اُس وقت شامت آگئی جب اُس نے کہا کہ اُس کے دادا قائد اعظم سے پہلے پیدا ہوئے تھے ۔ بھولا یہ سن کر زور زور سے ہنسے لگا اور پھر اس نے لوگوں کو دُکان میں بلا کر بزرگ کی بیوقوفی کا ڈھونڈرا پیٹا ۔ لو گ بھولے کی بات سن کر بزرگ پر ہنسنے لگے جب تک کہ کسی سیانے نے کہا اس میں بے وقوفی کی کیا بات ہے تو بھولے نے اپنا پول خود کھول دیا :

’’ جب قائد اعظم پیدا نہیں ہوئے تھے تو اس کے دادا کیسے پیدا ہوگئے؟ سب جانتے ہیں کہ پاکستان قائد اعظم نے بنایا تھا اور جب وہ پیدا نہیں ہوئے تھے تو اُن سے پہلے کون پیدا ہوسکتا ہے ؟ ‘‘

ظاہرہے بھولے نے ساری زندگی پاکستان سے باہر قدم نہیں رکھا تھا ۔ اس کی دنیا پاکستان ہی تھا اور و ہ یہ سمجھتا تھا کہ پاکستان بنانے کا مطلب یہ تھا کہ قائد اعظم پاکستان کو عدم سے وجود میں لائے ۔ بھولا اب بھی زندہ ہے اور ابھی تک یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ قائد اعظم سے پہلے کوئی کیسے پیدا ہوسکتا ہے ۔ کچھ ایسے ہی بھولے وہ لوگ ہیں جو کسی ایسے ملک سے لوٹتے ہیں جہاں اکثریت غیر مسلم ہے اور پھر یہ کہتے ہیں کہ اُس ملک کے باسی اگر کلمہ پڑھ لیتے تو ان سے سچا مسلمان اور کوئی نہیں ۔ کوئی پوچھے کہ کیسے مسلمان ہیں تووہ بتاتے ہیں کہ جھوٹ نہیں بولتے ، ناپ تول میں کمی نہیں کرتے اور وعدہ پورا کرتے ہیں ۔ یہ سب مسلمانوں کی خصوصیات ہیں جو انہوں نے اپنالی ہیں ۔

یہ بھولے اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ دنیا میں پہلی بار جزیرہ عرب سے یہ آواز اٹھی کہ سچ بولنا ، پورا تولنا اور وعدہ خلافی نہ کرنا اچھے اعمال ہیں ۔ اس سے قبل ہزاروں لاکھوں سالوں سے انسان ان بنیادی اخلاقی اقدار سے ناواقف تھا ۔ اس لئے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو بھی ان اخلاقی اقدار پر پورا اُتر رہا ہے وہ ضرور ہمارے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہورہا ہے کیونکہ دنیا میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کا منبع و سرچشمہ صرف ایک ہے اور یہ چشمہ پھوٹنے سے قبل انسان لاکھوں سال زمین پر گذارنے کے باوجود اخلاقی اقدار سے لاعلم تھا ۔ یہ لوگ بھی بھولے جیسے کیونکہ بھولے نے پاکستان سے باہر قدم نہیں رکھا تھا اور ان لوگوں نے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کا نہ مطالعہ کیا ہے ، نہ بنیادی اقدار اور معاشرے کے رشتوں کو سمجھا اور نہ ہی کبھی انسانی کنبے کو مذہبی تفریق و تعصب سے بالا تر ہوکر محبت اور بھروسے کی آ نکھ سے دیکھنے کا موقع ملا ۔

ایسے لوگ کیسے سمجھیں گے کہ جب بھی دو لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں تو انہیں کچھ اقدار مرتب کرنی پڑتی ہیں کیونکہ اگر دو انسان بھی عالمگیر اخلاقی اقدار کو الٹا کردیں تو ان کا تعلق دیر تک قائم نہیں رہ سکتا ۔ مثال کے طور پر اگر دو دوست یہ طے کرلیں کہ وہ جھوٹ کو اچھائی اور سچ کو بُرائی سمجھیں گے تو ان کی دوستی کبھی دیر تک قائم نہیں رہ پائے گی ۔ اگر دُوکان دار ناپ تول میں کمی اور ملاوٹ کو شیوہ بنالیں تو ان کا کاروبار دیر تک نہیں چل پائے گا ۔ کوئی وعدہ خلافی کو اپنا شیوہ بنالے تو وہ بہت جلد دوستوں اور معاشرے کی نظر سے گر جائے گا ۔ اگر اچھائی کو بُرائی اور بُرائی کو اچھائی مان کر دو انسان دیر تک اپنا تعلق قائم نہیں رکھ سکتے ، ایک کنبہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا تو دنیا میں ایسی کئی تہاذیب چودہ سوسال پہلے بھی موجود تھیں جو کئی ہزار سال پرانی تھیں ۔ اگر ان تہاذیب کے پاس بنیادی اخلاقیات کا علم اور شعور نہیں تھا تو یہ کیسے باقی رہ گئیں ؟

ایسا نہیں ہے کہ بھولے بھالے انسانوں کی یہ قسم صرف پاکستان یا مسلمانوں میں پائی جاتی ہے ۔ ایسے لوگ ایسے تمام ریاستوں میں پائے جاتے رہے ہیں کیونکہ دنیا کی ہر ریاست کا بنیادی کام جنگ ہے اور جنگ کے امکانات کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک گروہ کو دُوسرے گروہ کے بارے میں حُسن ظن رکھنے سے باز رکھا جائے ۔ اس لئے اخلاقیات کو مذہب کے تابع سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار تقریباً ہر معاشرہ رہا ہے ۔

رسل نے کہیں ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ چین سے واپسی پر انگلستان کے کسی تعلیمی ادارے میں ایک چینی ثقافت پر ایک لیکچر کے لئے بلائے گئے ، انہوں نے چینی لوگوں کی تعریف کی تو ایک برطانوی خاتون نے کھڑے ہوکر کہا کہ چینی کس طرح اچھے ہوسکتے ہیں ۔ اگر آپ اپنے لیکچر میں یہ نہیں بتاتے کہ چینی حضرت مسیح پر ایمان نہ رکھنے کی بنا پر بنیادی اقدار سے بے خبر اور اس لئے جہنمی ہیں تو آپ کو میں باعلم انسان نہیں سمجھوں گی ۔

اس عورت کی ”نکتہ شناسی ” سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ قرون ِ وسطی ٰ میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مقابلے میں مسیحی جانباز خدائی فوجدار بن کر صلیبی جنگوں میں ”مقدس زمین ” کو ”کافروں ” کے خون سے کیوں سیراب کر تے رہے تھے اور اب بھی مختلف مذاہب کو ما ننے والوں کے درمیان کون سی دیوار قائم ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اپنی برتری کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے اور تمام لوگوں کی نگاہیں دوسروں کی برائیوں اور اپنی اچھائیوں پر لگی ہوئی ہیں اور دُوسروں کی اچھائی تسلیم کرنے اور یہ تسلیم کرنے سے کہ اخلاقیات کا کوئی مذہب نہیں لوگ اپنی شناخت کو خطرے میں پاتے ہیں ۔ اس صورتِ حال کا فائدہ صرف وہ لوگ اٹھارہے ہیں جو ہمارے بچوں کو ایندھن سمجھ کر جنگوں کی آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).