ثقافتی ورثہ اور عقیدہ۔۔۔


ہر قوم اپنے ماضی پر فخر کرتی ہے اور اپنے وہ تہذیبی اثاثوں اور یادگاروں کی حفاظت بھی کرتی ہے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔ آج کے دور میں آثار قدیمہ اور سیاحت تہذیبی روایات اور ثقافت کی تشہیر کے علاوہ زرمبادلہ کمانے کا بھی ذریعہ ہے۔

مصر میں اکثریت راسخ العقیدہ مسلمانوں کی ہے لیکن وہ آج بھی اپنا رشتہ فرعونوں سے جوڑتے ہیں۔ حالانکہ فراعین مصر سورج کے پجاری تھے۔ مصری بڑے فخر سے دنیا کے سامنے فرعون اور انکی یادگاروں کو پیش کرتے ہیں ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں سیاح مصر آتے ہیں جس کے ذریعے حکومت کو ایک خطیر رقم حاصل ہوتی ہے۔

دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کی معیشت کا دارومدار صرف اور صرف سیاحت پر ہی ہے وہاں دنیا بھر سے سیاح ہر سال چھٹیاں گزارنے یا آثار قدیمہ کی سیر و تفریح کے لئیے آتے ہیں۔

اسی طرح آج بھارت اجنتا الورا کے غاروں اور اپنی قدیم تاریخ کی باقیات کو فخریہ دنیا کے سامنے پیش کررہا ہے اور سیاحت کے ذریعے خوب زرمبادلہ بھی کما رہا ہے۔ نیشنل جیوگرافک اور دوسرے چینلز کے ذریعہ ہندوستان کے قلعوں، مندروں کی تشہیر کی جا رہی ہے یہان تک کہ انہوں نے راجائوں کے محلوں کو ہوٹلز میں تبدیل کردیے اس کے علاوہ اسپیشل ٹورسٹ ٹرین کے ذریعے بیرونی سیاحوں کی توجہ حاصل کی۔ تھر کی تہذیب اور ریگستان، پنجابی ثقافت، راجستھان کی روایات کو بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس سے آمدنی کے علاوہ بھارت کا ایک سافٹ امیج بھی دنیا کو دکھائی دیتا ہے۔

جزیرہ نما عرب میں ظہور اسلام کے بعد وہاں کی اکثریت مشرف بہ اسلام تو ہوئی لیکن انہوں نے بھی اپنی بدو اور صحرائی شناخت اور روایات کو قائم رکھا اور آج تک اپنے اس تہذیبی ورثہ کو عزیز جانتے اور اس کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح دوسری اقوام بھی اپنے تہذیبی اثاثوں کی قدر کرتی ہیں اور اس کی حفاظت قومی فریضہ کے طور پر کی جاتی ہے۔

ہزاروں سال پہلے برصغیر کے لوگ باقی دنیا سے زیادہ مہذب اور تہذیب یافتہ تھے آج سے ہزاروں برس قبل ایک ہندوستانی اشنان ( نہانے ) کےبعد صبح کا ناشتہ کرتا تھا جبکہ آج سے صرف پچاس سال پہلے (تیل نکلنے سے پہلے ) عرب بدو مہینہ مہینہ نہاتے نہیں تھے کیا دنیا میں پاکستانیوں کے علاوہ ایسی کوئی اور قوم ہےجو اپنے، دریاؤں، ندیوں، چشموں، خوبصورت وادیوں، لہلہاتے سبز کھیتوں، وافر غلہ، دودھ اور پھلوں کے ہوتے ہوئے خشک ریگستانی کلچر کو اپنانا چاہتی ہو اور جس زمین کا ہم اناج کھاتے ہیں جس کے دریاؤں کا پانی پیتے ہیں جہاں ہمارے پرکھوں کی نشانیاں ہیں جہاں سے ہمارا خمیر اٹھا ہے اس زمین کے کلچر کو چھوڑ کر اس زمین کے کلچر کو اپنانا چاہتی ہوں جہاں کے لوگ انہیں اب تک حقیر اور مسکین سمجھتے ہوں۔

برصغیر کے اس حصے میں جہاں پاکستان بنا اس کی ایک شاندار ماضی اور قدیم تاریخ تھی لیکن ہمیں اپنی دھرتی کی ہزاروں سال پرانی عظیم تہذیبیں ٹیکسلا، ہڑپہ اور موہنجو ڈورو وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ تمام قبل از اسلام کی تہذیبیں تھیں جسے ہم نے بحیثیت ” مسلمان” اون ہی نہیں کیا اور اس کے مقابلے میں ایک نئی تاریخ مرتب کی جو محمد بن قاسم سے شروع ہوتی ہے اور افغانیوں اور سنٹرل ایشیائی حملہ آوروں پر ختم ہوتی ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے سارے ہیروز بھی انہی حملہ آوروں میں سے تراشے مثلا” غزنوی، ابدالی، غوری وغیرہ وغیرہ جبکہ مقامی جنگجئوں اور حرہت پسندوں کو جو ان حملہ آوروں کے مقابلے پر آئے کو بزدل اور حقیر گردانا اور تاریخ کے صفحات میں انکو فراموش کردیا گیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ وہ عظیم ہستیاں جنہوں نے اس خطے میں سماجی بہبود اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں اور اس شہر کے باسیوں کو بلا تفریق و امتیاز ہسپتال، اسکول اور کالجز دئیے ان سب کو یکسر بھلا دیا گیا کیونکہ وہ حضرات بھی اقلیتی برادریوں ست تعلق رکھتے تھے۔ لاہور کے عظیم فرزند گنگا رام، دیال سنگھ، گلاب دیوی اور بہت سے دوسروں کے احسانات کیا اہل لاہور بھلا پا ئینگے اسی طرح اندرون سندھ اور کراچی کے متعدد ہندو سیٹھ، کرسچین مشنریز اور پارسی برادری جن میں ڈنشا فیملی، جہانگیر سیٹھ اور آواری شامل ہیں جنہوں نے کراچی کی تزئین و آرائش کی یہاں علم و ادب کا بول بالا کیا۔ کیا ان کی خدمات کا قرض ادا کیا گیا اور ان کو وہ مقام ملا جس کے وہ اہل تھے۔ لیکن آج ان کو کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی ان کی خدمات کو یاد رکھا گیا اور ان کی نشانیوں کو بے دردی کے ساتھ مٹا دیا گیا۔

بھارت نے جس تہذیب اور ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کیا کم و بیش وہی سب کچھ ہمارے پاس بھی تو ہے۔ وہی تھر کا ریگستان اور تھری ثقافت، پنجاب کے میلے اور کھانے، پختون اور بلوچستان کے صحرا اور پہاڑ اور سب سے بڑھ کے گلگت اور چترال کے فلک بوس پہاڑ اور برف پوش چوٹیاں، موہنجوڈارو، ہڑپہ اور گندھارا کی تہذیب اور وہاں پائے جانے والے آثار قدیمہ اور مجسمے جو یورپ اور جاپانی سیاحوں کو دیوانہ بنا سکتے تھے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے نہ ہی ان کی کوئی مناسب تشہیر کی اور نہ ہی ان نوادرات اور مقامات کو کیش کرسکے۔ اس کے علاوہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں جا بحا بکھری ماضی کی یادگاریں جن میں کٹاس راج، قلعہ روہتاس، رنجیت سنگھ کی سمادھی اور سکھوں کے مقدس مقامات، ہنگول میں ہندو مت کے قدیم مندروں کو دیکھنے اور اس علاقے کی سیاحت کے خواہشمندوں کی کمی نہیں بشرطیکہ ہم ان مقامات کی اچھی طرح تشہیر کریں، آنے والے سیاحوں کی جان و مال کی حفاظت کا بندوبست اور سفر کی مناسب سہولتوں کا انتظام کرسکیں۔ مجھے یقین ہے کہ سیاحت کے فروغ کے ذریعہ ہم کثیر زر مبادلہ بھی کما سکتے ہیں اور پاکستان کا ایک سافٹ امیج بھی دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ افسوس کہ مذہبی دیوانگی کا یہ عالم کہ ہزاروں سال پرانے بدھا کے مجسمے کو شدت پسندوں نے “بامیان” میں بم سے اڑا کر اپنے کسی جذبہ کی تسکین کرلی حالانکہ یہ مجسمہ محمود غزنوی جو “بت شکن ” کے نام سے جانے جاتے کے زمانے میں بھی قائم رہنے دیا گیا۔

آج یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے بعد کیا چھوڑا۔ شہروں سے لیکر سڑکوں اور عمارات تک کے نام بدل دئیے۔ تاریخی مجسموں اور نشانیوں کو مسمار کردیا یا انہیں اکھاڑ کر کباڑ خانوں کی زینت بنا دیا۔ سیانے کہتے ہیں، جو قوم اپنی تاریخ بھلا دیتی ہے، اس قوم کا جغرافیہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).