مولانا عبدالکلام آزاد: منظرنامے کو سمجھنے کی غلطی


سید عابد علی بخاری

\"Syed

قلعہ معلی کے بلکل سامنے دہلی کی عظیم جامع مسجد کے زینے جہاں ختم ہوتے ہیں وہاں مینا بازار کے ایک نکڑ پر ابو الکلام آزاد کی قبر یاسیت اور تیرگی کے سائے میں ڈوبی نظر آتی ہے۔ آزاد کے اپنے خاندان سے بھارت کا ایک بڑا نام ’’عامر خان ‘‘ جب ہندستان کی سر زمین پر مسلمانوں کے حوالے سے عدم برداشت اور شدت پسندی کا ذکر کرتا ہوگا تو شاید آزاد کی روح بھی بے قرار ہو جاتی ہو گی۔ جب عامرخان کو یہ کہا جاتا ہو گا کہ تمہیں بھارت اچھا نہیں لگتا تو پاکستان چلے جاؤ تو ضرور آزاد کی روح بھی تڑپ جاتی ہو گی۔

ابوالکلام آزاد کے بارے میں جو اندازِ بیان ہمارے ہاں پایا جاتا ہے وہ قابل تحسین اور لائق ستائش نہیں۔ یہ عمومی طور پر دو بنیادوں پر استوار ہے۔ ایک ہماری تہذیب اور معاشرت میں مر جانے والے فرد کے بارے میں گفتگو کو مناسب نہیں گردانا جاتا، دوسرا علم و تحقیق کا سفر ریاضت مانگتا ہے۔ ہنگامہ ہائے حیات میں یہ بہر طور ایک مشکل منزل ہے۔ میرے نزدیک یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ کسی شخص کا علم و فضل یا احترامِ ذات ہمیں حق گوئی سے باز رکھے۔ بلا تحقیق لفاظی اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھی تصنیفات تعریفوں کے قابل ضرور ہوں گی لیکن انسان صرف لکھے گئے لفظوں سے نہیں عمل سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ اگر زندگی کسی مقصد کے تحت گزاری جائے تو چھوٹا سا عمل بھی مقبول ٹھہر سکتا ہے۔ دوسری صورت میں حالات کی ستم ظریفی کہیے کہ بے مقصدیت کا راگ الاپنے والے حیاتِ بے کنار کے صحرا میں پانی کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ آزاد کی زندگی بھی بے مقصدیت کے صحرا میں گھومنے والے اس مسافر بھی ماند ہے جو مقاصدِ حیات کی عظیم منزل سے نا آشنا گردش ایام کی تلخیوں سے نبرد آزما ہوتا ہے۔

مسلمانانِ ہند کے موجودہ حالات کے ذمہ داروں میں سب سے اوپر شائد آزاد ہی کا نام آتا ہے۔ آزاد کا تعلق اس قبیل سے تھا جنہوں نے بھارت کے مسلمانوں کو غلامی کا درس دینے میں اپنی زندگی کی قیمتی ساعتیں صرف کیں۔ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی اسلامی شناخت ظاہر کرتے گھبراتے ہیں۔ اپنی ذاتی دنیا میں بے باک، کھرے اور ریاضت کیش آزاد دلیل کی دنیا میں نہ جانے کیوں کمال ہنر مندی سے ڈنڈی مار گئے ہیں۔ انہوں نے سر زمینِ ہند میں مسلمانوں کے قلب و نظر میں غلامی کے تصور کو راسخ کرنے میں ناقابلِ بیاں حد تک اہم کردار ادا کیا۔ بہت سلیقے کے ساتھ کانگریس، ہندوؤں اور انگریزوں کا ساتھ نبھایا۔ اسلوب بیاں کی کاٹ، ہنر مندی، منفرد طرزِ بیاں، جدت طرازی، ندرتِ خیال، خداداد قوتِ اظہار، فصاحت و بلاغت اور رمز و کنایہ کے حسین پیرائے میں اگر قوم کو غلامی کا ہی سبق سکھانا مطلوب ہو تو ایسے علم، تقوی، جرات، بہادری اور فنِ کمال سے پناہ مانگنی چاہیے۔

جو تھا ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

بھارت کے مسلمان آج جس بدحالی کا شکار ہیں ان حالات کے تخلیق سازوں میں آزاد کی فکرِ آزاد کا بھی بڑا دخل ہے۔ وسیع المطالعہ، منطقی اندازِ استدلال، جاذب نظر اسلوب بیاں اور عرق ریزی و جانفشانی، ان سب راستوں کی منزل اگر عقل ہو تو آزاد جیسی شخصیت جنم لیتی ہے۔ یہ راستے اگر دل سے گزرتے ہوں تو علامہ اقبال ؒ اور قائداعظم محمد علی جناح جیسے افراد پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں علی برادران کی والدہ کی ماند بہادر مائیں جنم لیتی ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں ملت کا درد لہو بن کر دوڑتا تھا۔ وہ وقتی لا ابالی پن کا شکار ہوئے نہ ان کی نگاہ نے منظرنامے کو سمجھنے میں سفاک غلطی کی۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آج بھارت کے مسلمان تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی اقلیت کی ماند زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ اقلیت اگر کسی آزادخطے میں مقیم ہوتی تو آبادی کے اعتبار سے یہ دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہوتا۔ پاکستان کی بنیادوں کو غلط ثابت کرنے والے کچھ لوگوں کے خیالات کا منتہا اب بھی آزاد جیسوں کی حیات سے راہنمائی کے نسخوں کا متلاشی رہتا ہے۔ عموما دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ ہے اور اگر ہم اکھٹے ہوتے تو ہندوؤں سے تعدادمیں زیادہ ہوتے۔ حقیقت اس سے برعکس ہے۔

گجرات کے فسادات،کشمیر کی دھواں اڑاتی تصویر اور شعلوں کی نذر ہوتی جنتِ نظیر، اتر پردیش میں مسلمانوں پر مظالم کی انتہا اور پورے ہندستان میں مسلمانوں کی بستیوں، گاؤں، محلے اور شہروں میں غربت، فاقے، مفلسی اور جہالت کے مہیب سائے انہیں ابوالکلام آزاد کی \’دانش مندی\’ اور \’دور اندیشی\’ کی روز یاد دلاتی ہیں۔

برطانوی یونیورسٹی کے پروفیسر لیکاسٹر ایک غیر متعصب تاریخ دان ہیں۔ اس نے علی گڑھ میں لیکچر کے دوران کہا تھا کہ’’ بھارتی مسلمانوں کی حالت زار نچلی ذاتوں سے بھی بری ہے۔ مسلمان تعلیم اور ملازمتوں سے باہر ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں سے ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھارتی کالجوں میں مسلمان طلبہ کے داخلے کی شرح ایک اشاریہ چار فی صد ہے۔ ‘‘ یہ حقائق پاکستان کے بارے میں ہمہ وقت ہرزہ سرائی کرنے والوں کے لیے عبرت ہیں۔ ان سب لوگوں کے لیے بھی جن کی زبانیں ہر فورم پر پاکستان کی برائیاں کرتے نہیں تھکتی۔ وہ خود تو پاکستان میں بستے ہیں لیکن ان کے دل ہندوستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان معرضِ وجود میں نہ آیا ہوتا تو بھارت کی آبادی میں اٹھارہ کروڑ مسلم غلاموں کا اضافہ ہو چکا ہوتا جن کی حیثیت شودروں سے بھی کمتر ہوتی۔

آزاد جیسی مطالعاتی وسعت، دانش ورانہ گہرائی، عادلانہ دماغ، تہذیبی شعور اور قلندرانہ عزم رکھنے والا شخص کا بھی حالات و واقعات کی عمیق گہرائیوں تک رسائی حاصل نہ کر سکنا کسی المیے سے کم نہیں۔ منظر نامے کے ادراک میں آزاد بھی اپنے نام کی ماند آزاد واقع ہوئے تھے۔ ان کی نگاہ آج کے بھارت کا ادراک نہ کر سکی۔ آپ شائد اسے ژاژخائی تصور کریں لیکن کوئی بھی ژرف نگاہی والا انسان آزاد کی ہند کے مسلمانوں کے بارے میں ژولیدگیِ فکر بہ آسانی شناخت کر لے۔ اس خامہ فرسائی کا مقصد ابوالکلام آزاد جیسے زبان و بیان کا اعجاز دکھانے والے ہنر مند ترجمانوں اور عالی دماغوں کا احاطہ کرنا بھی ہے جو اپنی مغالطہ انگیزی، کذب بیانی اور فکری فسطائیت کے ساتھ اہل پاکستان کی خانہ ویرانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ طائفہ ابلاغ کی بے مہار قدرت اور اقتدار کے سرچشموں پر قبضے کے بل بوتے پر ذہنی انتشار، اباحیت پسندی، تلخ عصبیت اور فکری ژولیدگی کے سبب معصوم لوگوں کو فکری پراگندی کا شکار بنا رہا ہے۔ پراکسی لگانے کا یہ سلسلہ پھر نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ ابوالکلام آزاد کے فکری مغالطے حقیقت کو نگاہ سے اوجھل کر دیتے ہیں۔ پھر کچھ اہل عقل نے اس تزویری تخریب کو اس قدر تشکیک زدہ کر دیا ہے کہ تعجب ہوتا ہے۔

خانہ انگشت بدنداں ہے، اسے کیا لکھئے

ناطقہ سربگریباں ہے، اسے کیا کہیے

ابوکلام کے کلام کے بارے میں کلام اس قدر سہل بھی نہیں۔ اسے ایک آسان سی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ کسی پہاڑ کی چوٹی پر اگر آپ کھڑے ہو کر اطراف میں بغیر کسی مطلوبہ ہدف کے دیکھیں۔ نگاہ کوئی غیر معمولی شے دیکھے بنا لوٹ آئے گی۔ دوسری جانب اگر آپ کی نگاہ کسی ہدف کی تلاش میں محیط بیکراں میں گھومے گی تو جلد یا بدیر وہ ہدف تک پہنچ جائے گی۔ مملکتِ پاکستان کی بنیاد رکھنے والوں اور آزاد میں بنیادی فرق یہی تھا۔

ابوالکلام کی شرافت، شائستگی، علمی مقام، وضع داری اور خوداری پر انگشت نمائی مقام دانش نہیں لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ان صفات سے آگاہ ہونے کے باوجود قائداعظم محمد علی جناح نے انہیں کانگریس کا ’’شو بوائے ‘‘ کہا تھا۔ شائد یہی وجہ تھی کہ آزاد کا علمی سفر جس پہ ناز کیا جاسکتا تھا اپنی موت آپ مر گیا۔ دوسری اہم بات کہ اس قدر بلند پایہ علمی شہرت رکھنے والی شخصیت نے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے گیارہ برس تک جدید ہندستان کا جو سیکولر تعلیمی نظام ترتیب دیا اس کے نتائج آج ہندوستان بھگت رہا ہے۔ مملکت خداد پاکستان اللہ کی وہ نعمت ہے جس کی بنیادوں میں جن لوگوں کا یقین شامل تھا ان کے ایقان کی سطح پر عقلیت پسند شائد کبھی نہ پہنچ پائیں۔

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور

چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے

اور شائد ابوالکلام کی منزل کا حاصل وزارتِ تعلیم کے یہی گیارہ سال تھے۔ رہی بات دنیا کی جو آزاد کی تعریفوں کے ٹوکرے ان کے علم اور کلام کے بارے میں برسا رہی ہے تو اس بابت دو باتیں عرض کی جا سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ علم جو عمل نہ بن سکے وہ کس کام کا اور دوسری اہم بات کہ مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا۔ چاہوں تو آزاد کے قہوے کی پیالی سے لے کر علمی دنیا کی دشت پیمائی تک سینکڑوں صفحات پر مشتمل خامہ فرسائی کر سکتا ہوں لیکن میں کسی ایسے مجنوں کا فسانہ نگار بننا کبھی پسند نہیں کر سکتا جو انقلابی سیاست دان، بے مثل خطیب، کمال کا مصنف ہو کر محض چند سالوں میں ’’چانکیہ سیاست ‘ ‘ کے گلی گوچوں میں جا نکلے اور اسلام اور انقلابی تصورات کا بوریا بستر لپیٹ کر سیکولر انڈیا کی بنیادوں میں اپنے لہو کی پنیری سے فصل کاشت کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

ذرا آزاد کے حالات زندگی پرغور فرمائیے۔ خاندان 1857 کی جنگ آزادی میں انگریز کے عتاب سے بچنے کی غرض سے بھاگ کر مکے میں پناہ لیتا ہے۔ والدہ کا تعلق شہر النبیﷺ سے ہے۔ دس سال کی عمر محی الدین احمد کی صورت میں مکہ المکرمہ میں شب و روز بسر ہوں۔ جامعہ الازہر جیسی درس گاہ میں پڑھنے کا موقع ملے (مولانا آزاد نے الازہر میں تعلیم نہیں پائی تھی: مدیر)۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی پر دسترس حاصل کر لیں۔ پندرہ سال کی عمر میں فریدہ السان الصدق کا اجراء کریں۔ پھر الہلال، البلاغ اور عشروں پر پھیلا صحافتی سفر چلتا رہے۔ اسلام اور علم و فراست کے امام کہلوائیں۔ قرآن کی تفسیر لکھیں۔ سیاست کے دشت کی آبلہ پائی کریں۔ جیلیں کاٹیں۔ صعوبتیں، آلام اور مشکلات کا یہ سفر ختم ہو تو دلِ شوریدہ کو بیت اللہ سے تعلق ہونے کے باوجود گاندھی کے چرنوں میں سکون ملے۔ اسے فکری ژولیدگی نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ قائد اعظم نے کہا تھا کہ آپ نہ تو ہندؤوں کی نمائندگی کرتے ہیں نہ ہی مسلمانوں کی اگر آپ میں ذرا سی بھی عزت نفس کی رمق موجو د ہے تو آپ کانگریس کی صدارت سے استعفی دے دیں۔ اور شائد یہی وجہ تھی کہ ابو الاعلی مودودی نے کہا تھا کہ ’’ مولانا نے نماز کے لیے آذان کہی مگر اس کے بعد گہری نیند سو گئے۔‘‘ آخری عمر میں یہ عالم تھا کہ اسلام کی ہمہ گیریت پر یقین رکھنے والایہ تھکا ہارا مسافر اپنا سارا علمی کام چھوڑ کر ایسا تھکان کا شکار ہوا کہ ان کے قلم اور زبان کا معرکہ کلانچیں بھرنا بھول گیا۔ ضمیر مطمئن نہ ہو تو تخلیقی صلاحیتں رفتہ رفتہ دم توڑ جاتی ہیں۔ شائد اسی مقصدیت اور انقلاب سے عاری طرزِ حیات کے بارے میں ابوالکلام آزاد نے خود ہی اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ

آزاد بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ

پوچھی زمیں کی تو کہی آسمان کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
21 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments